• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان قرضوں کےجال میں جکڑ ا ہوا ہے، شرح نمو پر جمود طاری

اسلام آباد (انصار عباسی) پاکستان قرضوں کے جال میں جکڑا ہوا ہے۔2001میں مالیاتی ماہرین پر مشتمل قائم اعلیٰ سطح کمیٹی جسے ’’ڈیٹ ریڈکشن اینڈ مینجمنٹ کمیٹی‘‘ کا نام دیا گیا تھا ، اس کے مطابق اس بات میں شبہ نہیں رہا کہ پاکستان قرضوں کے جال میں جکڑ ا ہوا ہے۔ بھاری قرضوں کی ادائیگی کے شیطانی چکر نے سرمایہ کاری اور شرح نمو پر جمود طاری کر دیا ہے۔ ورلڈ بینک کے نائب صدر کی حیثیت سے ریٹائر ہونے والے ڈاکٹر پرویز حسن کی قیادت میں مذکورہ کمیٹی کے سربراہ کی حیثیت سے مالی بحران پر قابو پانے کے لئے اقدامات تجویز کئے تھے جس نے پاکستان کی اقتصادیات کو عملی طور پر مفلوج کیا۔ 2001کی یہ رپورٹ آج 2019میں صورتحال کی عکاس ہے۔ اس دوران کوئی بہتری نہیں آئی۔ پاکستان کو آج بھی 18سال قبل کے اقتصادی چیلنجوں کا سامنا ہے۔ سیاسی عدم استحکام، اقتصادی اور حسن حکمرانی کے چیلنج بدستور موجود ہیں تاہم اس بار اقتصادی پالیسیوں پر سیاسی اتفاق رائے کے لئے میثاق اقتصادیات کی تجویز سامنے آئی ہے۔ رپورٹ میں طے کردہ اغراض ومقاصد سے ظاہر ہوتا ہے کہ کوئی بھی حکومت یا سیاسی جماعت ملک کی اقتصادیات کو راہ راست پر نہیں ڈا ل سکتی۔ اس کے لئے اجتماعی کوشش اور متفقہ مؤقف درکار ہے۔ ڈیٹ ریڈکشن اینڈ مینجمٹ کمیٹی نے اپنی حوالہ شرائط میں قرضوں کا بوجھ کم کرنے کی حکمت عملی دی تھی۔ کمیٹی نے قرار دیا تھا قرضوں کا مسئلہ کمزور اقتصادی فیصلوں کی وجہ سے ابھر کر سامنے آیا۔ اصلاحات کو بڑے عرصے کے لئے التوا میں ڈالا گیا قرضوں کا بوجھ اتارنے کا کوئی آسان علاج نہ تھا۔ کمیٹی نے زور دیا تھا کہ اقتصادی احیا، مالی وصولیوں میں خاطر خواہ اضافہ اور برآمدات اولین ترجیح ہونی چاہئے۔ چار سالہ حکمت عملی کے کچھ بنیادی مفروضوں پر مرتب کی گئی جو جون 2001سے جولائی 2004کے لئے تھی۔ اس دوران قرضوں کا منظر نامہ مکمل تبدیل ہوجائے گا اور قرضوںکا بوجھ کم ہو کر بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ قابل برداشت 300فیصد کی سطح پر آجائے گا۔ رپورٹ کے مطابق 2004فاضل بجٹ کا سال ہو گا۔ پاکستان کے قرضوں کے شکنجے میں جکڑا ہونے کا اعتراف کرتے ہوئے بنیادی طور پر موجودہ خطرات کا ذکر کرتے ہوئے سوال اٹھایا تھا کہ آیا پاکستان ا س شیطانی چکر کو توڑ سکے گا۔ یقیناً اگر جانفشانی سے اصلاحات کے لئے کوششیں کی جاتیں تو بہتری کے امکانا ت موجود تھے لیکن ماضی کا ریکارڈ کوئی حوصلہ افزانہیں ہے۔ رپورٹ میں خبردار کیا گیا تھا کہ قرضوں کے بوجھ سے نمنٹے کے مؤثر اقدامات نہ ہونے کے سیاسی واقتصادی طور پر نتائج تباہ کن ہوں گے قرضوں کے بوجھ سے شرح نمو مزید سست ہوجائے گی بڑے پیمانے پر کرنسی نوٹ چھاپنے ہوں گے جس سے افراط زر بڑھے گا روپے کی قدر مسلسل گھٹتی جائے گی بیرونی سطح پر تکنیکی دیوالیہ سے اقتصادی تنہائی میں چلے جائیں گے۔ تجارت اور ٹیکنالوجی پر منفی اثرات مرتب ہوں گے رپورٹ کے مطابق سرکاری اور بیرونی قرضوں کا بوجھ ناقابل برداشت ہے۔ پیرس کلب کی جانب سے ری شیڈولنگ کے بغیر ڈیٹ سروس سے نمٹنا ممکن نہیں ہے اس کے لئے آئی ایم ایف ورلڈ بینک اور اے ڈی بی کی غیرمعمولی معاونت بھی درکار ہو گا ملکی سطح پر گو کہ مالی پوزیشن بنیادی طور پر فاضل دکھائی دے رہی ہے بیرونی قرضوں کا بوجھ کم کرنے کی واضح طور پر ضرورت ہے تاکہ پاکستان کو بین الاقوامی مالیاتی اداروں سے غیرمعمولی مالی معاونت کی ضرورت نہ پڑے مزید کہا گیا ہے کہ قرضوں کا مسئلہ اٹھنے کی وجہ سے پالیسی ناکامیابیاں ہیں اس مسئلے کا فوری حل بھی نہیں ہے۔ اس کے اطمینان بخش حل میں وقت لگنے کے ساتھ جارحانہ پالیسی اقدامات بھی کرنے ہوں گے۔ اس کے ساتھ اقتصادی شرح نمو کے فوری احیاء کی بھی ضرورت ہے رپورٹ کے مطابق قرضوں کے جال سے نکلنے کے لئے پاکستان کو مربوط اقتصادی احیا ء اور قرضوں میں کمی کے لئے حکمت عملی کی ضرورت ہے اس حکمت عملی کے دہرے مقاصد قرضوں کے بوجھ میں نمایاں کمی اور وسط مدتی طور پر شرح نمو میں نمایاں اضافہ ہوناچاہئے۔ دو سے تین سال کی مختصر مدت میں قرضوں میں کمی اور کمزور شرح نمو سے بچنا ممکن نہ ہو گا لیکن کمیٹی کو اعتماد تھا کہ مضبوط مالی نظم ونسق اور بہتر طرز حکمرانی کے ذریعے شرح نمو کو 2003-04سے 5.5فیصد تک لایا جا سکتا ہے2004تک ری شیڈولنگ مرحلے سے نکلنے کے لئے آئی ایم ایف اور پیرس کلب کی غیرمعمولی مالی معاونت کی ضرورت ہو گی اس دہائی کے دوسرے حصے میں 6فیصد کی شرح نمو کے ساتھ 2010تک سرکاری قرضے تیزی سے نیچے لائے جا سکتے ہیں۔ وسعت کے لئے سب سے زیادہ حوصلہ افزا شعبے زراعت، تیار اشیا کی برآمدات تیل اور گیس ہیں۔ 

تازہ ترین