• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کراچی میں سیوریج، گندگی اور کچرے کے مسائل پر کیپٹل ٹاک کاخصوصی پروگرام

کراچی (جنگ نیوز) روشنیوں کے شہر کراچی میں سیوریج، گندگی کے ڈھیر اور کچرے کے مسائل پر ”کیپٹل ٹاک “ کا اسپیشل شو پیش کیا گیا جس میں سمندر میں پھیلی بدبو، شہر میں گھومتے آوارہ کتے ، لینڈ مافیا، ٹینکر مافیا، ڈرگ مافیا اور کچرا مافیا کی نشاندہی کی گئی۔ پروگرام کے دوران صوبائی وزیربلدیات سندھ سعید غنی، میئر کراچی وسیم اختر اور معروف گلوکار و سماجی کارکن شہزاد رائے نے پروگرام کے میزبان حامد میر کے ساتھ شہر کا سفر کیا۔ شرکاءکا کہنا تھا کہ کراچی کو لینڈ مافیا اور ٹینکر مافیا کے علاوہ کچرا مافیا نے یرغمال بنا رکھا ہے۔ کچرا ختم ہونے سے کئی فیکٹریاں بند ہوجائیں گی۔ روزانہ 600 ملین گیلن گندا پانی کراچی کے سمندر میں پھینکا جا رہا ہے جس کے باعث سمندری حیات ختم ہو رہی ہیں اور پاکستان نیوی کیلئے بھی مسائل پیدا ہو رہے ہیں کراچی کے ہر مسئلے کا حل موجود ہے لیکن سندھ حکومت اور کراچی کی ضلعی حکومت میں تعاون نہ ہونے کے باعث مسائل الجھ رہے ہیں۔ کراچی کے میئر وسیم اختر اور سندھ کے صوبائی وزیر بلدیات سعید غنی کے ساتھ شہر کے بدبودار اور کچرے سے بھرے علاقوں کا دورہ کیا البتہ دونوں میں سے کسی نے مسائل کی ذمہ داری قبول نہ کی ۔ کراچی کے سماجی کارکنان شاہد عبد اللہ ، شہزاد رائے اور وائس ایڈمرل (ر) عارف اللہ حسینی نے مسائل کا حل پیش کیا اور مسائل حل کرنے کی پیشکش بھی کر دی اور کہا کہ کراچی کے شہری خود پیسے خرچ کر کے خود مسائل حل کر سکتے ہیں ۔ صوبائی وزیر بلدیات سعید غنی نے کہا کہ ہمارے افسران نیب سے ڈرتے ہیں،کچرا اٹھانا صوبائی حکومت کی ذمہداری نہیں،ڈی ایم سیز کا کام ہے،میئر کراچی وسیم اختر نے کہا کہ کراچی مافیاز کے قبضے میں ہے،چینی کمپنیوں کی جگہ اپنے اداروں سے کام لیا جائے، وائس ایڈمرل (ر) عارف اللہ حسینی نے کہا کہ گندا پانی نیوی کے جہازوں کو خراب کردیتا ہے،سماجی کارکن شہزاد رائے نے کہاکہ گندا پانی اور کچرا صاف کیا جائے،الزمات کے بجائے مسائل کے حل پرتوجہ دینا ہوگی انہوں کچرا ٹھانے کی اپیل کی۔ کراچی کے مختلف علاقوں میں پھیلے کچرے سے متعلق سوال کا جواب دیتے ہوئے وزیر بلدیات سندھ سعید غنی کا کہنا تھا کہ سندھ حکومت نے اس حوالے سے کام کیا ہے تاہم کراچی کا کچرا اٹھانے میں ابھی مزید دو ماہ اور لگیں گے۔ کراچی سے کچرا اٹھانے کی ذمے داری ہماری نہیں ہے۔ حامد میر کے استفسار پر انہوں نے بتایا کہ کچرا اٹھانا میئر کراچی وسیم اختر کا کام بھی نہیں ہے بلکہ یہ ڈی ایم سیز کی ذمہ داری ہے۔ اُنہوں نے بتایا کہ کچرا اٹھانے کا کام ٹاؤنز کے پاس تھا یہ کام سٹی گورنمنٹ کے پاس نہیں تھا۔ سعید غنی نے کہا کہ برساتی نالے سیلابی صورتحال کیلئے بنائے گئے تھے لیکن لوگوں نے اپنا کچرا نالوں میں ڈالنا شروع کر دیا جس کی وجہ سے مسائل پیدا ہوئے۔ اُنہو ں نے بتایا کہ ہماری حکومت نے اس حوالے سے کام بھی کیا ہے اور نالوں پر قبضے ختم کرائے ہیں۔ کراچی میں 3 ٹریٹمنٹ پلانٹس ہوا کرتے تھے وقت کے ساتھ ان کی استعدا دکار میں کمی ہوئی اور اب حکومت اس مسئلے کی جانب توجہ دے رہی ہے۔ میئرکراچی وسیم اختر نے کراچی میں پانی کی چوری جیسے سنگین مسئلے کی جانب نشاندہی کرتے ہوئے کہا کہ پانی ٹینکرز کے ذریعے شہریوں کو مہیا کیا جا رہا ہے ، پائپ لائنوں کے ذریعے نہیں ۔ وسیم اختر نے کراچی میں پانی کی سپلائی کے حوالے سے بد انتظامی اور مسائل کی جانب بھی توجہ دلائی اور کہا کہ ٹینکرز مافیا کا خاتمہ ہونا چاہئے اور واٹر بورڈ کا انفرااسٹرکچرٹھیک ہونا چاہئے۔ اُنہوں نے واٹربورڈ کی جانب سے ٹینکروں کے ذریعے پانی کی فراہمی کو غیر قانونی قرار دیا۔ میئر کراچی کا مزید کہنا تھا کہ کراچی مختلف مافیاز کے قبضے میں ہے ۔ کراچی میں موجود کچرے کی وجہ سے آوارہ کتوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے اور روزانہ 150 سے 200 لوگوں کو کتے کاٹتے ہیں۔ انہوں نے کے مسئلے کا حل تجویز کرتے ہوئے کہا کہ کراچی کا کچرا ڈمپ کرنے کی جگہوں پر ری سائیکلنگ فیکٹریاں لگائیں۔ انہوں نے سندھ حکومت کی جانب سے کراچی سے کچرا اٹھانے کیلئے چین کو دیئے جانے والے ٹھیکے پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے اپنے اداروں میں صلاحیت موجود ہے چین کی کمپنیوں کی بجائے اپنے اداروں کو کچرا اٹھانا چاہئے۔ چینی کمپنیوں کو ڈالر میں ادائیگی بلا جواز ہے۔ وسیم اخترنے کہا کہ سندھ حکومت نے اپنے مفادات کی خاطر اختیارات اپنے پاس رکھے ہیں جبکہ سندھ حکومت جو فنڈز کی کمی کی بات کرتی ہے وہ درست نہیں۔ این ایف سی کے تحت سندھ حکومت کو پہلے سے زیادہ فنڈز ملے ہیں۔ انھوں نے بتایا این ایف سی کے تحت اب 840 ارب روپے دیے گئے ہیں۔ معروف گلوکار اور سماجی کارکن شہزاد رائے نے پروگرام میں گندے پانی اور کچرے سے پھیلنے والی بیماریوں سے خبردار کیا اور صوبائی اور لوکل حکومت کو کراچی میں گندے پانی اور کچرے کے مسائل حل کرنے کی اپیل کی۔ شہزاد رائے کا کہنا تھا پاکستان کے سب سے بڑے مسائل پاپولیشن اور ماحولیات ہیں ۔ گندے پانی کو صاف کرنے کیلئے اقدامات کئے جائیں ۔ گندے پانی کی وجہ سے شہر بھر میں تعفن کا ماحول ہوتا ہے۔ بچے گندے پانی میں سوئمنگ کرتے ہیں۔ اُنہوں نے کہا کہ ایک دوسرے پر الزامات کی بجائے ہمیں اس مسئلے کے مستقل حل کی جانب توجہ دینا ہو گی۔ پروگرام میں حامد میر نے کراچی کے شہریوں کو پانی مہیا کرنے والے ذمہ داران کا موقف بھی پیش کیا۔ شہریوں نے بتایا کہ انہیں مہنگے داموں ٹینکرز کے ذریعے پانی فراہم کیا جاتا ہے۔ گندا پانی سمندر میں جانے سے مچھیروں کا کاروبار متاثر ہو رہا ہے اور اس گندے پانی میں مچھلیوں کی افزائش نہیں ہوتی۔ آرکیٹیک و سماجی کارکن شاہد عبد اللہ نے نہر خیام کلفٹن کو صاف کرنے کے لیے اپنی خدمات بھی پیشکش کیں۔ انہوں نے بتایا کہ ہم 2016 سے پانی کو صاف کرنے کے منصوبے پر رضاکارانہ طور پر کام کر رہے ہیں۔ انہوں نے اداروں کے روئیے پر تحفظات کا اظہار کیا۔ اُنہوں نے پانی کو ری سائیکل کرنے کی جانب بھی توجہ مبذول کرائی۔
تازہ ترین