• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
آپ نے بھی دیکھا ہو گا کہ جب سمندری یا صحرائی طوفان باد و باراں قہروان ہوتے ہیں تو وہ ملکوں کی سرحدوں کی پروا نہیں کرتے، وہ انڈونیشیا سے ہندوستان تک ہر سرحد کو حقارت سے ٹھکراتے چلے جاتے ہیں۔ بالکل ایسے ہی جیسے ہوائیں اور پرندے ملکوں کی سرحدوں کو تسلیم نہیں کرتے اور کھلے مشترکہ آسمان کے نیچے ویزہ اورکسٹم کے بغیر آمدو رفت جاری رکھتے ہیں ایسے ہی انسانی تہذیب اور ثقافت بھی ملکی سرحدوں سے بے نیاز ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ انسانی گروہ اس آفاقی حقیقت کی پُرزور نفی کرتے ہوئے اپنے اپنے محدود تشخص پر افتخار کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔
پچھلے ہفتے بھارتی وزیر داخلہ نے یہ تسلیم کر کے کہ ہندوستان کے قدامت پرست سیاسی جتھوں نے ملک میں دہشت گردی کی ٹریننگ کیلئے مراکز قائم کئے ہوئے ہیں، اس حقیقت پر مہر تصدیق ثبت کر دی کہ انتہا پسندی، دہشت گردی پر صرف پاکستان میں ہی نہیں ہے ہندوستان میں بھی یہ سب کچھ ہو رہا ہے، ہم کئی سالوں سے اس بات کو دہرا رہے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ان مسائل کی جڑیں بہت گہری ہیں اور یہ پورے برصغیر بالخصوص شمالی ہندوستان (مع پاکستانی علاقوں) کا مسئلہ ہے۔ اس کی جڑیں چند افراد یا بیرونی طاقتوں کی بجائے عہد ساز معاشی اور معاشرتی تبدیلیوں میں گڑی ہوئی ہیں۔
بھارتی وزیر داخلہ نے جو بیان دہشت گرد ٹریننگ کیمپوں کے بارے میں دیا ہے وہ زندگی کے باقی شعبوں کے بارے میں بھی درست ہے۔ یوپی اور بہار سے لیکر پشاور تک ٹریفک کی بدنظمی میں رتی برابر فرق نہیں ہے۔ رشوت ستانی، بدعنوانیوں کی سطح بھی ایک جیسی ہے بلکہ مختلف اداروں کے اعدادو شمار کے مطابق ہندوستان سے سب سے زیادہ ناجائز سرمایہ سوئٹزر لینڈ میں جمع کرایا گیا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق اس ناجائز سرمائے کی رقم بھارت کے ان کل قرضوں کے برابر ہے جو اس نے پچھلے ساٹھ پینسٹھ سال میں اپنے سر لئے ہیں۔
معاشی بدعنوانیاں ہی نہیں سماجی سطح پر بھی دیکھیں یوپی کی کئی پنچایتوں نے نوجوان خواتین کے سیل فون استعمال کرنے پر پابندی لگا دی ہے، ہریانہ میں پنچایتیں زمانہ قدیم کی روایات کو عوام پر تھوپ رہی ہیں۔ اسی طرح کے الٹی سیدھی روایات پاکستان کے کچھ علاقوں میں بھی برقرار ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ بھارت کا چھ دہائیوں کا جمہوری نظام پاکستان کی آمریتوں سے کچھ مختلف نتائج پیدا نہیں کر سکا ہے۔ بھارت کی مضبوط سیکولر ریاست کی آواز دلّی کی چند بڑی بڑی عمارتوں کے چند میل دور تک بھی سنائی نہیں دیتی۔
پچھلی چار دہائیوں میں برصغیر میں مذہبی انتہا پسندی اور دہشت گردی کی تاریخ دیکھیں تو غالباً ستّر کی دہائی میں سب سے پہلے نکسل باڑی تحریک نے بنگال سے لیکر مشرقی پنجاب تک کو اپنے شکنجے میں لے رکھا تھا۔ اس کے بعد خالصتان کی تحریک اس علاقے کی سب سے زیادہ منظم اور مذہبی انتہا پسندی تھی۔ پھر سری لنکا اور ہندوستان کے تاملوں اور ناگا لینڈ کی علیحدگی کی پُرتشدد تحریکیں بھی کچھ کم نہیں تھیں۔ اسی میں دلّی میں اندرا گاندھی کے مارے جانے پر سکھوں کے قتل عام اور گجرات میں مسلمانوں کی گردن کشی کو شامل کر لیجئے۔ آج بھی ہندوستان کی کئی ریاستوں میں ماوٴسٹ نکسل باڑیوں کا قبضہ ہے۔
سیاسی سطح پر یہ بات بھی قابل غور ہے کہ جس زمانے میں پاکستان میں مجاہدین اور اسلام پسندی وسعت اختیار کر رہی تھی ،بھارت میں عین اسی زمانے میں راشٹر سیوک سنگھ جیسی بنیاد پرست ہندوتنظیم کے زیر سایہ سیاسی جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی بھی پہلی مرتبہ بھارت کے مرکزی دھارے میں آگے بڑھ رہی تھی۔ پھر بالکل جس طرح ہندوستان میں علاقائی سیاسی پارٹیوں نے لسانی اور گروہی بنیادوں پر ترقی کی وہی کچھ پاکستان میں بعض ایسی ہی پارٹیوں کی شکل میں ظاہر ہوا۔ غرضیکہ ہندوستان اور خاص طور پر اس کے شمالی علاقوں میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ پاکستان سے مختلف نہیں ہے۔ اس کی وجہ وادی سندھ کے دور سے لیکر آج تک اس علاقے کی عمومی تہذیب اور ثقافت ایک رہی ہے اور جب کبھی تبدیلیاں آتی ہیں تو ان میں مشترکہ عناصر غالب ہوتے ہیں۔
ستّر کی دہائی تک ہندوستان اور پاکستان میں تحریکیں معاشی ناانصافی کے خلاف تھیں۔ اگر ہندوستان میں نکسل باڑی گوریلا تحریک پھیل رہی تھی تو پاکستان میں پیپلزپارٹی کے حوالے سے سماجی ابھار جنم لے رہا تھا۔ مزدور کسان پارٹی ہشت نگر میں تقریباً وہی کچھ کرنے کی کوشش کر رہی تھی جو نکسل باڑی ہندوستان کے مختلف علاقوں میں کر رہے تھے۔ دلچسپ پہلو یہ ہے کہ ستّر کی دہائی کے وسط میں جب پاکستان میں بائیں بازو کا زوال شروع ہوا ہندوستان (بالخصوص مشرقی پنجاب) میں بھی اسی زمانے میں نکسل باڑی اور کمیونسٹ تحریک دم توڑ رہی تھی۔ پورے علاقے میں ایک نئے دور کا آغاز ہو رہا تھا جس میں روایتی معاشرہ مشینی پیداوار کو اپنا رہا تھا اور زرعی معیشت تجارتی اور سرمایہ دارانہ نظام میں ڈھل رہی تھی۔
پورے ہندوستان (بھارت و پاکستان) میں کئی ہزار سالوں سے مروجہ معاشی نظام ٹوٹ رہا تھا جس کے سماجی اور سیاسی نتائج بہت دوررس اور گمبھیر تھے۔ اس تبدیلی کی تمام جہتوں کو وضاحت سے پیش کرنے کے لئے ایک ضخیم تصنیف کی ضرورت ہے لیکن ہم یہاں صرف یہ کہہ سکتے ہیں کہ اس کی گہرائی کو طوفان نوح کا استعارہ ہی بیان کر سکتا ہے۔ جس طرح طوفان نوح میں پوری روئے زمین تباہ ہوئی تھی اسی طرح برصغیر کے روایتی نظام کا خاتمہ ہوا۔ ایک ذہنی بے یقینی کی صورتحال پیدا ہوئی جس کی وجہ سے مذہب اور دوسری روایتی شناختوں کی پناہ ڈھونڈی گئی۔ جب یورپ میں یہ سب کچھ ہو رہا تھا تو اس کے بارے میں بہت کچھ لکھا گیا۔ جرمن نفسیات دان ایرک فرام کی تصنیفات ”مین الون“ (تنہا انسان) اور ”فیر آف فریڈم“ (آزادی کا خوف) اس مظہر کو سمجھنے کے لئے بہت مددگار ثابت ہو سکتی ہیں۔
افسوس یہ ہے کہ ہمارے ہاں دانشور طبقے نے یا تو اس کو سرے سے سمجھا ہی نہیں یا پھر اس پر خاموشی اختیار کئے رکھی۔ دراصل حاضرہ مشہور واقعات پر لکھنے سے شہرت اور ریٹنگ میں اضافہ ہوتا ہے جبکہ بہت بنیادی طویل المیعاد اساسی مسائل کی گتھیاں سلجھانا مشکل کام ہے اور قاری بھی توجہ دینے سے گریز کرتا ہے لیکن آخر میں وہی تبدیلیاں اور ان کی تفسیر دیرپا ثابت ہوتی ہیں جو اساسی نکات کی وضاحت کرتی ہیں۔ ہندوستان کے وزیر داخلہ کا بیان ہمیں دعوت دے رہا ہے کہ ہم برصغیر کی اساسی تبدیلیوں کو سمجھیں اور حل کریں۔
تازہ ترین