• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
گرمی کی شدت اور پانی کی قلت، کراچی والوں کا سنگین مسئلہ

دنیا کی تمام ہی ریاستیں اپنے معاشی حب کی بہترین دیکھ بھال کرتی ہیں اور اپنے ملک کو استحکام بخشنے والے شہر کے لیے خصوصی ماسٹر پلان تشکیل دیا جاتا ہے، تاکہ اس کی شناخت دیگر علاقوں سے ممیز ہو سکے۔ لیکن پاکستان میں ویژن کے فقدان اور دور اندیشانہ سوچ سے بے بہرہ کرتا دھرتاؤں کی بے عملی کا شاخسانہ کراچی کے شہری بدترین صورت حال سے دو چارہے ۔ ایک وقت میں پاکستان کے دارالحکومت کا درجہ رکھنے والا شہر آج صوبہ کا دارالخلافہ ہونے کے باوجود دنیا کے بدترین شہروں میں شمار کیا جاتا ہے، عروس البلاد کا لقب پانے والا شہر قائد جسے 60ء کی دہائی میں ایشیا کا خوبصورت ترین شہر ہونے کا درجہ حاصل تھا، جہاں کی سڑکیں روز پانی سے دھوئی جاتی تھیں، آج بدحالی کا منظرنامہ پیش کر رہا یہ حقیقت ہے کہ شہری سہولیات اب کراچی میں عنقا ہیں۔ پانی کو ترسنے والے کراچی کے باسیو کیا آپ کو معلوم ہے کہ جیمز اسٹارچن کون تھے؟ انہیں 1873 میں کراچی میونسپلٹی کے چیف انجینئر اور سیکریٹری کے طور پر مقرر کیا گیا تھا، انہوں نے اپنی دانشمندانہ صلاحیتوں کے ساتھ کراچی کو اس وقت کے سب سے صاف ستھرے اور خوش انتظام شہروں میں سے ایک بنا دیا تھا۔یہ ان کی ہی جدت کی طرف گامزن سوچ کا نتیجہ ہے کہ جس نے 140 سال قبل کراچی میں ہر ایک گھر کے لیے پانی کا کنیکشن ممکن ہوسکا، حالانکہ ان کے افسران بالا نے انہیں صرف چھاؤنی، اہم کولونیوں اور کشادہ سڑکوں کے لیے منصوبہ بندی اور شہر کے (غریب) رہائشوں کی پرواہ نہ کرنے کا کہا تھا۔آج جب ہمارے شہر میں پانی کی شدید قلت ہے تو دورِ حاضر کے کسی جیمز اسٹارچن کی بہت زیادہ کمی محسوس ہورہی ہے یا پھر کراچی کو پانی کے اس بحران سے نکالنے کے لیے ان کے جیسی سوچ کی طلب محسوس کی جاتی ہے۔یہ شہر کاروبار شروع کرنے اور ملازمتوں کا ایک سب سے بڑا مرکز ہے۔ تاہم شہر کے ارتقائی عمل کے مخلتف پہلوؤں، اس کی معیشت، آبادی کی بہتات، مختلف نسلی اور سماجی و سیاسی مسائل کے باعث یہ ان شہروں میں سے ایک بن گیا ہے جہاں کا انتظام سنبھالنا بہت ہی مشکل ہوجاتا ہے۔ چنانچہ شہر کے اندر ایک ادارے کے ذریعے پانی کی فراہمی اور اس کا انتظام سنبھالنا بھی اتنا ہی مشکل ہو رہا ہے۔

کراچی کو صرف صفائی ستھرائی کے معاملات میں ہی بدنظمی کا سامنا نہیں بلکہ تجاوزات، انفرااسٹرکچر کی خستہ حالی، ٹوٹی پھوٹی سڑکوں سمیت کئی گنجلک مسائل بھی درپیش ہیںکراچی کا نوحہ شہر کی ہر شاہراہ ہر گلی پیش کر رہی ہے، بڑی شاہراہوں کا یہ حال ہے کہ تعمیراتی کام شروع کر دیے جاتے ہیں لیکن اختتام ہوتا نظر نہیں آتا۔ شہر میں پانی کی فراہمی کا معاملہ بھی پیچیدگی اختیار کر گیاہے، وہ شہر جہاں انگریزوں کے دور کے ڈملوٹی کنوؤں سے پانی فراہم کیا جاتا تھا، وہ عظیم منصوبہ تو کب کا غائب ہو چکا، پانی کے کئی بڑے منصوبے بنانے کے باوجود بھی شہری پانی کی بوند بوند کو ترس رہے ہیں اور دوسری جانب ان ہی علاقوں میں موجود ہائیڈرنٹس پر نہ صرف پانی دستیاب ہے بلکہ ٹینکروں کے ذریعے شہریوں کو قیمتاً فروخت کیا جا رہا ہے۔ پانی کی قلت کی صورتحال سب سے زیادہ خطرناک شکل اختیارکرچکی ہے ،کراچی کے باسی سمندر کے قریب رہنے کے باوجودپانی کو ترس رہے ہیں، زندہ رہنے کے لیے پانی کی ضرورت ہے اور جب یہ ہی پانی سونے اور چاندی کے بھاؤ بکے گا تو بھلا آدمی کیسے زندہ رہ سکتاہے،شہر کے لوگوں کے لیے پانی کی کمی کو پورا کرنے کے لیے بورنگ کا سہارا تھا، مگر اب وہ بھی ناکام دکھائی دیتا ہے۔ بورنگ کے پانی کے استعمال سے شہر بھر میں مختلف بیماریوں نے جنم لیا، مگر لوگ مرتے کیا نہ کرتے اس پانی کو نہانے اور پینے دونوں کے لیے ہی استعمال میں لانے کے لیے مجبور رہے ہیں ۔

تقریباً دو کروڑ آبادی کے شہر کراچی کے باسیوں اور اقتصادی سرگرمیوں کے لیے درکار پانی کی طلب دن بدن بڑھ رہی ہے، جب کہ دستیاب پانی کی مقدار میں کمی آ رہی ہے۔کراچی کو یومیہ بنیادوں پر تقریباً 100 کروڑ گیلن پانی کی ضرورت ہے لیکن محض58کروڑ گیلن پانی دستیاب ہے واٹربورڈکے اعدادوشمار کے مطابق 45کروڑ گیلن پانی دھابیجی،3کروڑ گیلن گھارو اور 10کروڑ گیلن حب ڈیم سے فراہم کیا جارہا ہے۔

پانی کے مسئلے پرشہریوں کے احتجاج جاری ہیں لیکن مسئلے کے حل میں سنجیدہ کوشش نظر نہیں آتی۔ شہرکے مختلف علاقوں میں کئی ماہ سے لائنیں پانی سے محروم ہیں۔ شہری مجبوراً بھاری رقم دے کر ٹینکر خریدنے پر مجبور ہوگئے ہیں، کہیں کہیں تو پانی کےبحران سے تنگ آ کر شہریوں نے ہزاروں روپے خرچ کرکے بورنگ بھی کروالی لیکن پینے کا میٹھا پانی خرید نا ہی پڑتا ہے۔ پانی کے بحران پر شہریوں کا احتجاج بھی متعلقہ حکام کو کام کرنے مجبور نہ کرسکا۔ کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ کے مطابق شہر میں بارشیں نہ ہونے کے باعث حب ڈیم میں پانی کی سطح انتہاہی کم ہوگئی ہے، جس کے باعث شہر قائد کو پانی کےکراچی میں پانی کا بحران، نصف آبادی کو پانی دستیاب نہیں۔ کراچی شہر میں پانی کی کمی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ شہر کا ہر دوسرا شخص پانی کی کمی کا شکار ہے۔

13سال میں آبادی تیزی سے بڑھتی رہی، ضروریات کے مطالق پانی کی فراہمی میں اضافہ نہیں کیا گیا، قلت کے باعث پانی فروخت کا کاروبار بڑھنے لگا، اضافی پانی کی فراہمی کا منصوبہ تاخیر کا شکار ہے، جبکہ شہری پانی کے حصول کے لئے اپنا سکون، وقت اور پیسہ تینوں ہی صرف کرنے پر مجبور ہیں،جہاں پانی دستیاب ہے تو وہ آلودہ ہے۔ طبی

ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر آلودہ پانی کی فراہمی کی یہی صورتحال رہی تو یہ معاملہ انتہائی سنگیں ہوسکتا ہے۔ کئی کئی گھنٹے بجلی بند ہونے سے بھی گھروں میں پانی کی قلت سے شہری پریشان ہو گئے، مختلف علاقوں میں طویل لوڈشیڈنگ سے پمپنگ اسٹیشن بھی متاثر ہوئے۔ اگر پانی آرہا ہے تو بجلی نہیں۔

شہر کا 80 فیصد علاقہ اس بحران کی لپیٹ میں آچکا ہے۔ شہری بالٹیاں ‘ گیلن‘ اور بوتلیں لئے گھوم رہے ہیں ‘ لیکن پانی کا حصول مشکل ہی نہیں ناممکن ہوتا جارہا ہے۔

اس مسئلے کی جانب کوئی توجہ نہیں ،بھارت جگہ جگہ ہمارے دریاؤں پر ڈیم بناتارہا، مگر افسوس اس کی روک تھام کے لیے کسی بھی قسم کی آواز کو نہ اٹھایا گیا،خیر یہ اس مسئلے پر کیا توجہ دیتے کیونکہ پاکستان کا تو آبپاشی نیٹ ورک بھی وہ ہی ہے جو انگریز چھوڑ کر گئے تھے یہ ہی وجہ ہے کہ بین الالقوامی ممالک کے مطابق پاکستان پانی کی قلت کے معاملے میں ایسی مقام پر آکر کھڑ ا ہوچکا ہے، جس کا اگر کوئی فوری حل نہ نکالا گیا تو آنے والے وقتوں میں پاکستان پانی کی قلت والے ممالک میں سرفہرست پر آسکتا ہے ۔

تازہ ترین