• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان میں حکمرانی چھن جانے کے بعد خود ساختہ یا مسلط کردہ جلا وطنی اور کچھ سالوں بعد اقتدار کی سیاست میں دوبارہ شرکت کیلئے ”پاکستان واپسی“ کے تاریخی باب پر نظر ڈالی جائے تو جنرل ایوب خان کے مارشل لاء کو کامیاب کرانے والے صدرپاکستان اسکندر مرزا واحد معزول حکمراں تھے جو ایوب خان کے ہاتھوں ہی اقتدار سے محروم ہوکر لندن میں جلاوطنی کی زندگی گزارتے رہے اور پاکستان واپس نہیں آئے ورنہ بینظیر بھٹو، صدر آصف زرداری، نواز شریف اور اب پرویز مشرف بھی ایک ہی نسخہ کیمیا اور ایک جیسی حکمت عملی کے ذریعے بیرونی حمایت و سرپرستی حاصل کرکے ”پاکستان واپسی“ کا ٹکٹ حاصل کرتے رہے ہیں۔ قومی اسمبلی کی نشست سے مستعفی ہوکر کینیڈا آنے والے علامہ طاہر القادری نے بھی ”پاکستان واپسی“ اور چند ہفتوں تک ملک میں سیاسی ہیجان پیدا کرنے کے مشن میں بھی وہی نسخہ اور وہی حکمت عملی استعمال فرمائی جو مذکورہ سابق حکمراں استعمال کرتے رہے ہیں اور آج کل صدر پرویز مشرف بھی نیویارک اور واشنگٹن کا مختصر دورہ کرکے اسی حکمت عملی پر عمل پیرا ہیں۔ پرویزمشرف گزشتہ روز ایک دن کیلئے نیویارک آئے اور اپنی پارٹی کی امریکہ شاخ کے ایک اجتماع سے خطاب کے ذریعے انہوں نے اپنی ”پاکستان واپسی“ کی کوئی حتمی تاریخ بتائے بغیر صرف یہ ضرور کہا کہ اگر اور جب پاکستان میں الیکشن ہوئے تو وہ الیکشن سے ”دو یا ڈھائی ماہ قبل“ پاکستان واپس لازماً جائیں گے اور حالات کا سامنا بھی کریں گے اور الیکشن میں حصہ بھی لیں گے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ان کے وارنٹ گرفتاری محض اس لئے موجود ہیں کہ وہ عدالت میں پیش نہیں ہوئے وہ واپس جاکر عدالت میں پیش ہوں گے تو ضمانت ہوگی اور پھر مقدمات کو دیکھ لیں گے کیونکہ ان کے خلاف یہ تمام مقدمات بے بنیاد اور غلط ہیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ان کی پارٹی پاکستان میں بہت منظم ہے لہٰذا وہ الیکشن میں دوماہ کے عرصہ میں انتخابی تیاری اور الیکشن کا سامنا کرنے کو تیار ہے۔ ذاتی سیکورٹی کے بارے میں انہوں نے بہادری کا تاثر دیتے ہوئے کہا کہ جتنی سیکورٹی بینظیر بھٹو کو ملی تھی اگر پاکستان میں ان کو بھی اتنی ہی سیکورٹی مل گئی تو وہ خوش اور مطمئن ہوں گے اور گاڑی میں کھڑے ہوکر سر نکالنے کی وہ غلطی نہیں کریں گے جو بینظیر نے سیکورٹی کے تقاضے سے انحراف کرکے کی تھی۔ گو کہ آج کل پاکستان میں ”کانسپریسی تھیوری“ کا طعنہ دے کر بسا اوقات اپنے مخالف کا مذاق اڑانے کا فیشن چل نکلا ہے مگر آج کی سکڑتی ہوئی دنیا کے گلوبلائزیشن کے دور کی یہ ایک ٹھوس حقیقت ہے کہ افغانستان میں دہشت گردی کے خلاف جاری امریکی جنگ اور وہاں ایک لاکھ سے زائد امریکی افواج کے طویل قیام اور ہر امریکی مشکل کے حل کے لئے لازمی ضرورت پاکستان میں سیاسی معاشی اور ہر طرح کی تبدیلیاں امریکی مفادات اور منشاء سے مطابقت کے بغیر ہی ہوجائیں یہ حقائق، گلوبل پاور کے مفادات اور جنگ کے اصولوں اور تقاضوں سے انحراف ہے۔ جنرل پرویز کے نام سے لاعلم امریکی صدارت کے امیدوار جارج بش کا اسی پرویز مشرف کو انتہائی قابل اعتماد دوست اور اتحادی قرار دے کر 9سال تک حمایت کرنا اور پھر اسی پرویز مشرف کو وردی اتار کر حکمرانی کا مشورہ دینا اور پھر بینظیر سے مصالحت، بینظیر کی پاکستان واپسی اور شہادت کے بعد صدر آصف زرداری کا رول اور پرویز مشرف کی اقتدار سے رخصتی کے تمام حقائق آپ کے سامنے ہیں لہٰذا پرویز مشرف کی ”پاکستان واپسی“ کی کہانی بھی اسی اسکرپٹ کا حصہ ہے جس کا حصہ علامہ طاہر القادری کی واپسی اور ان کے پیدا کردہ چند ہفتوں کا سیاسی ہیجان تھا۔ گزشتہ روز نیویارک میں میرے سامنے پرویز مشرف خود بینظیر بھٹو کی ”پاکستان واپسی“سے قبل”بینظیر، پرویزمشرف“ مذاکرات اور ڈیل کا ذکر کررہے تھے جبکہ انہی حقائق کو ان کے سرکاری ترجمانوں نے مذاکرات کے ایام میں ان اطلاعات کو کانسپریسی تھیوری، مفروضہ اور شرانگیزی قرار دیا تھا اور امریکی ان مذاکرات میں اپنے کسی رول سے انکاری تھے لیکن پھر خود امریکیوں نے بینظیر بھٹو کی ”پاکستان واپسی“ میں اپنے اہم رول کو تسلیم کرلیا۔ آنے والے وقت میں ایک بار پھر یہ حقیقت تسلیم کرلی جائے گی کہ صدر آصف زرداری کے پانچ سالہ اقتدار، طاہر القادری کی پاکستان آمد اور ہیجان اور پرویز مشرف کی پاکستان واپسی میں کس کا کیا رول تھا؟ اور کیا مقاصد تھے؟ کہاں تک کامیابی ہوئی اور کہاں حالات اور واقعات کے ہاتھوں مقاصد میں ناکامی ہوئی۔ امریکہ اس دور کی عالمی سپر پاور ہے اس کے افغانستان سمیت اس خطے میں اہم مفادات ہیں ایک لاکھ سے زائد امریکی شہری اور فوجی خطے میں ہیں لہٰذا ان جانوں کے تحفظ اور امریکی مفادات کو حاصل کرنے کے لئے امریکہ کیلئے لازم ہے کہ وہ خطے کے حالات اور حکمرانوں کو اپنے قابو میں رکھے اور اس کے لئے جو کچھ بھی کرنا پڑے وہ کرے۔ پبلک ڈپلومیسی کی نرم، شستہ زبان کے ساتھ ترجمان بھی اسی مقصد کے حصول کیلئے بیانات دیتے ہیں۔ 2014ء میں امریکی افواج کی مکمل واپسی ، افغانستان میں تربیت اور مشاورت کے لئے سویلین اور فوجی ماہرین کے کام بھی تو انہی تقاضوں کو پورا کرنے کے لئے ہوں گے اسی وجہ سے پاکستان کی موجود اور 2014ء کی صورتحال سے امریکہ کیسے لاتعلق رہ سکتا ہے؟ لہٰذا اہالیان افغانستان اور اہالیان پاکستان کو عالمی طاقت کے ان حقیقی تقاضوں کو سمجھنا ضروری ہے بہرحال پرویز مشرف بھی طاہر القادری کی واپسی کی طرح اپنی ”پاکستان واپسی“ کے لئے کم وبیش اسی روڈ میپ پر کام کررہے ہیں۔ واشنگٹن میں ان کی ”اہم ملاقاتوں“کی نوعیت ، نام اور نتیجے کے بارے میں تفصیلات سے پردہ اٹھنا باقی ہے لیکن میرے ذرائع کا کہنا ہے کہ پرویز مشرف سے ماضی میں ملنے والے سینیٹر جان کیری جو اب نئے امریکی وزیر خارجہ ہوں گے پرویز مشرف سے ان کی ملاقات نہیں ہوئی۔ پرویزمشرف فوجی ہیں اور امریکی فوج سے بھی ان کے ماضی کے رابطے اب بھی کام کررہے ہیں جنہیں وہ کام میں لاکر پاکستان میں اپنے لئے آسانیاں پیدا کرنے کی کوشش کررہے ہیں لیکن پاکستان میں بھی، حالات بدل رہے ہیں وہاں پر بھی بہت سے من مانیاں کرنے والے بااختیار عوامل کی گرفت کمزور ہورہی ہے لہٰذا طاہر القادری کی واپسی ہو یا زرداری کی واپسی یا پرویز مشرف کی واپسی کا معاملہ ہو حالات و واقعات اور عوامی شعور کے ہاتھوں بہت سی ترکیبیں، ترتیبیں اور تدبیریں الٹی ہورہی ہیں۔ پرویز مشرف نے طاہر القادری اور ایم کیو ایم کے ساتھ ”الائنس“ کے ذریعے تیسری متبادل سیاسی قوت تشکیل دینے کی کوشش کا اشارہ بھی دیا ہے مگر وہ یہ حقیقت نظرانداز کررہے ہیں کہ ابتدائی شور و ہنگامہ کے بعد طاہر القادری کا طوفان بے جان ہوچکا۔ پرویز مشرف کے لئے پاکستان میں حمایتی کاندھے کہاں سے آئیں گے؟ صرف دولت کی ریل پیل سے اب کام نہیں چلے گا۔
تازہ ترین