• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

گزشتہ رات بیجنگ سے ہنجو آگیا تھا مگر آج پھر چین پر کچھ نہیں لکھ رہا کیونکہ اسلام آباد اے پی سی ہو چکی ہے، ڈالر محوِ پرواز ہے اور پاکستان کی کرکٹ ٹیم جیت کے گھوڑے پر سوار ہو چکی ہے۔ اسلام آباد میں ہونے والی اے پی سی کا جتنا شور تھا اس حساب سے اہم فیصلے نہیں ہو سکے بس یہی کہ پچیس جولائی کو یوم سیاہ منایا جائے گا۔ اس سے پہلے اپوزیشن عوام کو گرمانے کیلئے ماحول بنائے گی، اجتماعی استعفوں پر تو اتفاق نہیں ہوسکا شاید اسی لئے اطلاعات کی مشیر ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان کا یہ کہنا بجا ہے کہ اے پی سی میں شریک جماعتیں ایک دوسرے سے مخلص نہیں ہیں۔ جو لوگ پرانی سیاست سے واقف ہیں انہیں جگتو فرنٹ بہت یاد آیا ہوگا کیونکہ جگتو فرنٹ میں ایسی جماعتیں شامل تھیں جو ایک دوسرے کے خلاف تھیں، اس اتحاد میں ایسے لیڈر شامل تھے جو ایک دوسرے کی شکل دیکھنے کے روادار نہیں تھے، کچھ ایسی ہی صورتحال اسلام آباد میں ہونے والی اے پی سی کی تھی۔ یہاں بھی ایسے لوگ موجود تھے جو ماضی میں ایک دوسرے کو گھسیٹنے کی باتیں کرتے رہے ہیں، ایک دوسرے کو کرپٹ کہتے رہے ہیں، ایک دوسرے کو ملکی سلامتی کے حوالے سے خطرہ قرار دیتے رہے ہیں مگر اب مخصوص مقاصد کے حصول کی تلاش میں ایک دوسرے سے گلے مل رہے ہیں۔ اس پُر فریب موڑ پر سب سے زیادہ ہوشیار بلاول بھٹو زرداری کو رہنا ہو گا کہ ان تمام سیاسی جماعتوں میں سے صرف بلاول بھٹو کے پاس ایسی جماعت ہے جس کے پاس بہترین پارلیمنٹرین ہیں، جس کے پاس خارجہ امور کے ماہرین کی پوری ٹیم موجود ہے، جس کے پاس ایسے کارکن ہیں جنہیں سیاسی تحریکوں کا وسیع تجربہ ہے اس کے علاوہ قانونی ماہرین کی اچھی خاصی مہارت رکھنے والی ٹیم بھی موجود ہے باقیوں کے پاس کیا ہے، کسی کے پاس چند غنڈے ہیں یا پھر کسی کے پاس مدرسے کے طالبعلم ہیں۔ سیاسی طاقت صرف بلاول بھٹو کے پاس ہے اپوزیشن کی باقی جماعتوں کے پاس وہ سیاسی ہتھیار نہیں ہیں جو بلاول بھٹو کے پاس ہیں۔ بلاول بھٹو کو دو باتوں کا پاس رکھنا ہوگا پہلی بات تو یہ ہے کہ اس وقت اپوزیشن میں نوابزادہ نصراللہ خان جیسا بااصول اور وضع دار سیاستدان نہیں ہے، اگر ان کی قیادت ہوتی تو بات اور ہوتی مگر اس وقت قیادت مولانا فضل الرحمٰن کے پاس ہے جو ہمیشہ دونوں طرف کھیلتے رہے ہیں۔ ان کا یہی ہنر استادانہ ہے۔

پیپلز پارٹی کے سنیئر رہنما، دلائل سے گفتگو کرنے والے دانشور پارلیمنٹیرین چوہدری اعتزاز احسن نے اپنے پارٹی چیئرمین بلاول بھٹو کو بڑا صائب مشورہ دیا ہے کہ وہ خاص طور پر (ن)لیگ سے ہوشیار رہیں کیونکہ (ن) لیگ ہر وقت کسی نہ کسی طرح سمجھوتے کے لئے کوشاں رہتی ہے۔ چوہدری اعتزاز احسن نے کچھ پرانے حوالے بھی دئیے ہیں انہوں نے وہ وقت یاد کروانے کی کوشش کی ہے جب شریف خاندان ایک معاہدے کے ذریعے بیرونِ ملک جانے کی کوشش کررہا تھا، بیرون ملک روانگی سے صرف تین دن پہلے بیگم کلثوم نواز، چوہدری اعتزاز احسن سے کہہ رہی تھیں کہ مشرف کے خلاف تحریک اور تیز کی جائے، لوگوں کو نوابزادہ کی وہ بات تو اب بھی یاد ہے جو انہوں نے شریف خاندان کی روانگی کے بعد کی تھی کہ زندگی میں پہلی بار کسی تاجر سے ہاتھ ملایا تھا اور اب یہ سوچ رہا ہوں کہ ہاتھ بھی ساتھ ہے؟

اس وقت اے آر ڈی کا پلیٹ فارم تھا اور اب ایک بے ترتیبا سا اتحاد، بلاول بھٹو کو ہوشیار رہنا چاہئے کہ شریف فیملی کے آپس میں اختلافات ہیں، ہو سکتا ہے کہ یہ بھی ایک چال ہو کیونکہ مریم نواز نے میڈیا کے روبرو چچا کے میثاقِ معیشت کو مذاق معیشت قرار دیا ہے، ہو سکتا ہے ایک کا مقصد اپوزیشن کو مصروف رکھنا اور دوسرے کا مقصد، مقصد حیات کی جدوجہد ہو۔ ویسے اگر بلاول بھٹو اور مریم نواز کا تقابلی جائزہ لیا جائے تو بلاول بھٹو، مریم نواز سے کہیں آگے ہیں۔ بلاول بھٹو قومی اسمبلی کے رکن ہیں اپنی پارٹی کے چیئرمین ہیں، نوجوان ہونے کے باوجود بڑے سنجیدہ فیصلے کرتے ہیں، بین الاقوامی حالات پر نظر بھی رکھتے ہیں، ان کے سر پر نااہلی کی تلوار بھی نہیں جبکہ مریم نواز زیادہ عمر کی ہونے کے باوجود سنجیدگی لانے میں ناکام ثابت ہوئی ہیں۔ لوگوں کو ان کے وہ انٹرویوز یاد ہیں جن میں وہ اپنی جائیداد سے انکاری تھیں مگر پھر حالات نے کوئی اور رخ پیش کیا، مریم نواز پارٹی کی سربراہ بھی نہیں ہیں ان پر نااہلی کی تلوار بھی ہے، ان کے پاس پارٹی رہنماؤں اور کارکنوں کی وہ کھیپ بھی نہیں جو بلاول بھٹو کے پاس ہے، بلاول بھٹو اپنے کارکنوں کے ساتھ عاجزی سے پیش آتے ہیں جبکہ دوسری طرف معاملہ ذرا مختلف ہے۔

حکومت کو اپوزیشن کی تحریک سے بچنے کے لئے ڈالر کے پر کاٹنا ہوں گے، عام آدمی پر توجہ دینا ہوگی ورنہ سامنے مشکلات کا پہاڑ کھڑا ہوسکتا ہے، رہی کرکٹ ٹیم تو اس کے لئے دعاؤں کا لامتناہی سلسلہ جاری ہے، ایک دعا اور کردیں کہ پاکستان بھی جلد ترقی کرنے والے ملکوں میں شامل ہو جائے کہ بقول محسن نقوی ؎

ذکرِ شبِ فراق سے وحشت اسے بھی تھی

میری طرح کسی سے محبت اسے بھی تھی

وہ مجھ سے بڑھ کے ضبط کا عادی تھا جی گیا

ورنہ ہر ایک سانس قیامت اسے بھی تھی

تازہ ترین