• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ترکی اور پاکستان دو ایسے اسلامی ممالک ہیں جہاں پر فوج نے کسی نہ کسی شکل میں ملک کے نظم و نسق پر طویل عرصے تک اپنی گرفت قائم کئے رکھی۔ بانی ِ پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے سیاسی جدوجہد کے نتیجے میں ہندوستان کے مسلمانوں کے لئے ایک نئی مملکت حاصل کی تھی جبکہ ترکی کے بانی مصطفی کمال اتاترک نے طویل جنگوں کے بعد اپنی مملکت کو دشمنوں کے پنجے سے آزاد کرایا تھا۔ اس طرح ترکی میں تو فوج نے پہلے ہی روز اقتدار پر قبضہ کرلیا تھا البتہ پاکستان میں فوج کو اقتدار پر قبضہ کرنے کے لئے گیارہ سال انتطار کرنا پڑا تھا اور جنرل محمد ایوب خان نے 1958ء میں ملک میں مارشل لا نافذ کردیا تھا۔ موجودہ دور میں ترکی کو پاکستان پر یہ برتری حاصل ہے کہ ایردوان حکومت نے ترکی میں فوج کو سیاست سے بالکل الگ تھلگ کرکے رکھ دیا ہے اور ملکی نظم و نسق میں مداخلت کرنے والے فوجی افسران کو اتنی سخت سزا دلوائی ہے کہ آئندہ کسی بھی فوجی افسر یا جنرل کو حکومت کا تختہ الٹنے یا سول انتظامیہ کے معاملات میں مداخلت کرنے کی ہمت نہ ہو سکے گی۔
ترکی میں فوج کے کردار پر روشنی ڈالنے سے قبل اتنا بتاتا چلوں کہ ترک فوج پاکستانی فوج کے مقابلے میں عوام خاص طورپر مذہبی حلقوں، اخبارات، جرائد، سرکاری ملازمین کو دبانے، ریشہ دوانیوں، سازشوں، گٹھ جوڑ، ساز باز کرنے کے کھیل میں اتنی ماہر ہے کہ پاکستانی فوج ان کا عشرِ عشیر بھی نہیں ہے۔
اتاترک دور ہی سے مملکت ِ ترکی پر مکمل حاکمیت قائم کرنے والی فوج موجودہ دور میں انتظامیہ پر اپنی گرفت کھو چکی ہے۔ یہ سب کچھ کیسے ممکن ہوا؟ اس صورتحال پر روشنی ڈالنے سے قبل جدید جمہوریہ ترکی کی فوجی تاریخ پر ایک نگاہ ڈالنے کی ضرورت ہے۔
اتاترک کی قیادت میں لڑی جانے والی جنگِ نجات میں کامیابی حاصل کرنے کے بعد سلطنت عثمانیہ کے ڈھانچے پر جدید جمہوریہ ترکی کا قیام عمل میں آیا اور ملکی نظم و نسق بادشاہ سے فوج کے کمانڈر انچیف کو منتقل ہو گیا۔ چیف آف جنرل اسٹاف فیلڈ مارشل مصطفی کمال اتاترک نے یونیفارم ہی میں پہلے قومی اسمبلی حکومت کے سربراہ کے طور پر اور پھر چار بار یونیفارم ہی میں اوپر تلے صدر مملکت منتخب ہو کر ملکی نظم و نسق پر اپنی گرفت قائم کئے رکھی۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ انہوں ہی نے مملکت ترکی کو اس وقت اپنے پاوٴں پر کھڑا کیا جب یہ تباہی کے دہانے تک پہنچ چکی تھی۔
ان کی قیادت میں فوج بلا شرکت غیرے کسی بھی ادارے کے سامنے جواب دہ نہ تھی اور وہ جب تک صحت مند رہے حکومت کو خود ہی چلاتے رہے اگرچہ اس دوران انہوں نے ملک میں واحد جماعتی نظام کی جگہ دو پارٹیوں پر مشتمل حکومتی سسٹم متعارف کرانے کی کوشش کی تھی لیکن دونوں جماعتوں کی موجودگی سے وہ اپنے مقاصد حاصل کرنے میں ناکام رہے اور اپنے متعارف کردہ سسٹم کا گلہ خود ہی اپنے ہاتھوں سے گھونٹ دیا اور اس کے بعد انہوں نے کبھی بھی ملک میں ری پبلکن پیپلز کے سوا کسی دیگر جماعت کو پنپنے کا موقع ہی نہ دیا۔ مملکت ِ ترکی کے اس ابتدائی دور میں مخالفین کی باتوں پر کان دھرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا بلکہ مخالفین کو ٹھکانے لگانے کے لئے خصوصی عدالتوں کا قیام عمل میں لایا گیا۔ استقلال نام کی ان خصوصی عدالتوں نے قانونی تقاضے پورے کئے بغیر برائے نام کارروائی سے مخالفین کو تختہ دار پر لٹکانے میں حکومت کا پورا پورا ساتھ دیا۔ اس دوران وزیراعظم عصمت انونو نے اتاترک کا نام استعمال کرتے ہوئے 1937ء میں درسیم بغاوت کو کچھ اس طریقے سے کچلا کہ اتاترک بھی اس پر خاموش نہ رہ سکے اور انہوں نے عصمت انونو کو نہ صرف حکومت سے الگ کردیا بلکہ انہوں نے انہیں جماعت کے ڈپٹی چیئرمین کے عہدے سے بھی برطرف کردیا جس کے بعد اگرچہ انونو اور ان کے ساتھیوں نے اتاترک کو قتل کرنے کا منصوبہ بنایا لیکن وہ منصوبہ بھی ناکام رہا اور پھر اتاترک نے آخری دم تک عصمت انونو کا منہ دیکھنا بھی گوارا نہ کیا۔ اس دوران اتاترک خرابی صحت کی بنا پر حکومت پر اپنا کنٹرول کھوچکے تھے اور وہ طویل علالت کے بعد 10 نومبر 1938ء کو خالقِ حقیقی سے جا ملے۔
اتاترک کی رحلت کے بعد اتاترک ہی کے قریبی فوجی ساتھی عصمت انونو نے فوج ہی کی سازش کے نتیجے میں صدر کے اختیارات سنبھال لئے اور پھر طویل عرصے تک سیاہ وسفید کے مالک رہے۔ عصمت انونو نے فوج کو اپنے اقتدار کو طول دینے کے لئے جس طریقے سے استعمال کیا اس کی دنیا میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ انہوں نے اس دوران مذہبِ اسلام سے اپنی دشمنی کو اتاترک کے کھاتے میں ڈالتے ہوئے ملک میں مذہبی حلقوں کا جینا دوبھر کردیا اور فوج میں مذہبی تعلیم و تربیت پر پابندی عائد کردی اور فوج میں نماز پڑھنے کو معیوب سمجھا جانے لگا اور خفیہ طور پر نماز پڑھنے والے فوجیوں کی اے سی آر خراب کی جانے لگی اور ان پر قدامت پسندی کا الزام لگاتے ہوئے ان کو فوج ہی سے ڈسچارج کیا جانے لگا۔
دوسری جنگ عظیم کے بعد عصمت انونو اور ان کے حواریوں نے ملک میں واحد پارٹی سسٹم سے ہٹ کر دیگر جماعت کو بھی انتخاب میں حصہ لینے کا موقع فراہم کیا لیکن فوج کو استعمال کرتے ہوئے اتنے بڑے پیمانے پر دھاندلی کی کہ 1945ء کے انتخابات میں حصہ لینے والی جماعت ڈیموکریٹ پارٹی کو اپنی بقا کے لئے شکست قبول کرنا پڑی۔ پچاس کی دہائی میں ہونے والے انتخابات میں ڈیموکریٹ پارٹی نے وائٹ واش کردیا اور عصمت انونو اور ان کے حواریوں کی ضمانتیں ضبط ہو گئیں۔ ڈیموکریٹ پارٹی کے چیئرمین عدنان میندرس کو یہ کامیابی دراصل اذان کو ترکی زبان کی بجائے عربی زبان میں دیئے جانے اور تالے پڑی ہوئی مساجد کو دوبارہ سے نمازیوں کے لئے کھولنے کے وعدوں کی وجہ سے حاصل ہوئی تھی اور جب وزیراعظم عدنان میندرس نے تمام مساجد کو عبادت کے لئے کھول دیا اور ملک میں پہلی بار عربی زبان میں اذان دی جانے لگی تو فوج بھلا کیوں کر خاموش رہ سکتی تھی۔
فوج نے بڑے پیمانے پر ملکی نظم و نسق میں مداخلت کرنا شروع کردیا اور اس وقت کے چیف آف آرمی اسٹاف جنرل جمال گرسل نے وزیر اعظم اور صدر دونوں ہی سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کردیا جس پر صدر جلال بایار نے چیف آف آرمی اسٹاف جنرل جمال گرسل کو وقت سے پہلے ہی ریٹائر کردیا اور انہیں جبری چھٹی پر بھجوا دیا ۔اس پر کرنل اور ان سے نیچے کے رینک کے آفیسرز نے 27 مئی 1960ء کو حکومت کا تختہ الٹ دیا اور جبری ریٹائر کئے گئے چیف آف آرمی اسٹاف جنرل جمال گرسل کو ازمیر سے انقرہ لاتے ہوئے ان کو ان کے عہدے پر بحال کردیا گیا اور ملی یکجہتی کمیٹی (MBK) کا سربراہ مقرر کردیا۔
اسی روز وزیراعظم عدنان میندرس کو کتھایا سے گرفتار کرتے ہوئے انقرہ لایا گیا اور پھر ان کو یاسّی جزیرے کی جیل بھجوا دیا گیا جہاں جنرل گرسل کی جانب سے قائم کردہ اعلیٰ عدالتی دیوان نے ان پر نو ماہ 27 روز تک مقدمے کی کارروائی کو جاری رکھا اور پھر اس عدالت کے جج نے وزیراعظم عدنان میندرس اور صدر جلال بایار سمیت 14 افراد کو پھانسی اور31/ افراد کو عمر قید کی سزا دینے کا فیصلہ صادر کردیا۔ پھانسی کی سزا پر عملدرآمد سے قبل پاکستان کے صدر محمد ایوب خان سمیت دنیا کے دیگر رہنماؤں نے بھی پھانسی کی سزا معاف کرنے کی اپیل بھی کی لیکن اس پیل کو مسترد کردیا گیا۔
وزیراعظم عدنان میندرس کو اس سے قبل اللہ تعالیٰ نے نئی زندگی بخشی تھی جب وہ 17 فروری 1959ء کو برطانیہ کے دورے پر طیارے کے حادثے میں بال بال بچ گئے تھے حالانکہ اس حادثے میں ان کے تمام ساتھی ہلاک ہوگئے تھے۔ موت نے ایک بار پھر ان کی دہلیز پر دستک دی اور 17 ستمبر 1961ء کو دوپہر ڈیڑھ بجے ان کو پھانسی دے دی گئی حالانکہ قانون کے مطابق دوپہر کو پھانسی کی سزا پر عملدرآمد نہیں کیا جاسکتا تھا لیکن شدید دباؤ اور اس سے قبل وزیراعظم عدنان میندرس کی خودکشی کرنے کی کوشش نے فوج کو جلد از جلد اس سزا پر عملدرآمد کرنے پر مجبور کردیا تھا۔ جنرل گرسل نے بھاری مینڈیٹ حاصل کرنے والے وزیراعظم کو صرف مذہبی وابستگی کی بنا پر سیاست کی بھینٹ چڑھادیا تھا۔
عدنان میندرس کو سولی پر چڑھانے والے جمال گرسل 21جنوری 1966ء کو برین ہیمریج کا شکار ہوگئے اور سکتے میں چلے گئے جس پر 28 مارچ 1966ء کو قومی اسمبلی میں پیش کردہ بل کے ذریعے ان کو صدر کے عہدے سے ہٹا دیا گیا۔ انہوں نے طویل علالت کے بعد 14 ستمبر 1966ء کو وفات پائی۔ (جاری ہے)
تازہ ترین