• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ رشتہ اخوت میں منسلک ہونے کے باوصف پاکستان اور افغانستان مثالی تعلقات تو کیا باہمی کشیدگی کا مکمل خاتمہ کر سکے نہ حالات کی کوکھ سے جنم لینے والے تنازعات کی بیخ کنی میں کامیاب ہو پائے۔ زیادہ قابلِ افسوس امر یہ رہا کہ اس معاملے میں غیروں کے ایما پر افغانستان نے پہلے پختونستان کا مسئلہ کھڑا کیا اور اقوام متحدہ میں پاکستان کی شمولیت کی مخالفت میں آنے والا واحد ووٹ اور کسی کا نہیں افغانستان کا ہی تھا۔ پاکستان ہمیشہ سے اس بات کا قائل رہا ہے کہ ایک پُرامن اور مستحکم افغانستان ہی اس کے مفاد میں ہے۔ پاکستان نے اس ضمن میں ہر ممکن کوشش کی اور کر بھی رہا ہے۔ عرصہ دراز سے بیرونی قوتوں کی پنجہ آزمائی کے لئے اکھاڑہ بن جانے والے افغانستان پر یہ حقیقت آشکار ہو چکی ہو گی کہ بھلائی خطے کے امن میں ہی ہے، یہ بھی کہ دوست تو تبدیل کئے جا سکتے ہیں ہمسائے نہیں اور اگر ہمسائے ہی دوست بن جائیں تو اس سے بہتر اور کیا ہو گا۔ اس ضمن میں امید افزا خبر یہ ہے کہ وزیراعظم عمران خان اور افغان صدر اشرف غنی نے دوستی اور تعاون کا نیا باب رقم کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ یہ اتفاق رائے دونوں رہنمائوں کی اسلام آباد میں ہونے والی ون آن ون ملاقات میں ہوا اور بعد ازاں وفود کی سطح پر مذاکرات کے بعد مشترکہ اعلامیہ جاری کیا گیا۔ اعلامیے کے مطابق دونوں رہنمائوں نے پاک افغان روابط بڑھانے کی تشکیل کی اہمیت پر اتفاق کیا۔ وزیراعظم عمران خان نے اس بات پر زور دیا کہ ’’افغان قیادت اور عوام کی حمایت کا حامل امن عمل ہی افغانستان کے عشروں پرانے تنازعات ختم کرنے کا واحد موزوں حل ہے، پاکستان افغانستان کی خودمختاری اور سالمیت کا احترام کرتا ہے اور اس نازک وقت میں اس کے شانہ بشانہ کھڑا ہے‘‘۔ دونوں رہنمائوں نے اتفاق کیا کہ پائیدار امن سے دونوں ملکوں کو شاندار اقتصادی ثمرات حاصل ہوں گے، علاوہ ازیں دو طرفہ تجارت کو وسعت دینے اور راہداری تجارت کو صحیح خطوط پر استوار کرنے کے لئے مل کر کام کرنے اور رابطہ کاری کو تقویت دینے کے عزم کا بھی اعادہ کیا گیا۔ یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ جنگوں کی ہولناکیوں سے دنیا کے ہر ذی شعور نے یہ سبق ضرور سیکھ لیا ہے کہ دنیا کو اب صرف اور صرف امن کی ضرورت ہے، یہ ضرورت اور اہمیت جتنی اس وقت ہے شاید پہلے کبھی نہ تھی کہ اب روایتی جنگوں کا دور ختم ہو چکا اور آئندہ خدانخواستہ کوئی بھی جنگ ہوئی تو پوری دنیا کو آنِ واحد میں اپنی لپیٹ میں لے کر خاکستر کر دے گی۔ جہاں تک بات ہے افغانستان کی تو یہ اپنی جغرافیائی حیثیت کے باعث ہی اس حالت کو پہنچا ہے، گرم پانیوں تک رسائی کے مشتاقوں نے اس کو خود اسی کے شہریوں کے لہو سے کئی بار غسل دیا۔ دو مہیب جنگوں نے اسے کھنڈرات میں تبدیل اور اس کی معیشت کا تیا پانچا کر کے رکھ دیا، افغانستان کے حصے میں محض تباہی و بربادی آئی۔ اب بھی افغانستان اندرونی خلفشار میں مبتلا ہے، طالبان کے ساتھ اگرچہ مذاکرات ہو رہے ہیں اور صد شکر کہ فی الحال دہشت گردی بھی دکھائی نہیں دے رہی لیکن بے یقینی کے بادل بھی نہیں چھٹ رہے۔ اس کی بنیادی وجہ افغان حکومت کی رٹ کا قائم اور مضبوط نہ ہونا اور اس ملک میں بیرونی طاقتوں کا حد سے زیادہ اثر و رسوخ ہے۔ افغان حکومت کو اس سلسلے میں پاکستان سے تعلقات کو مضبوط تر کر کے اس کی رہنمائی میں اپنے معاملات طے کرنا چاہئیں کہ آخر کب تک یہ وسیع و عریض ملک میدانِ جنگ بنا رہے گا؟ پاک افغان تعلقات کی بحالی کے لئے اپوزیشن کی طرف سے بھی نیک تمنائوں کا اظہارِ عیاں کرتا ہے کہ پاکستان افغانستان کی سالمیت اور امن کے لئے کیسے جذبات رکھتا ہے۔ دونوں ملکوں کو سب سے زیادہ توجہ اعتماد کی بحالی پر دینا ہو گی کہ اسی سے بے بنیاد الزامات عائد کرنے کی راہ رکے گی اور معاملات کو حل کرنے میں مدد ملے گی، خاص طور پر امن عمل کے حوالے سے اس کو بنیادی حیثیت حاصل ہے۔ دونوں ملکوں کے تعلقات کو ازسرنو اور پرعزم انداز میں بحال کرنے کی جانب پیش رفت ایک انتہائی احسن اقدام ہے اور خطے میں امن کی نوید بن سکتا ہے۔ یہ تعلقات مضبوط و مستحکم ہونے ہی چاہئیں۔

تازہ ترین