• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

25مئی 2019کو ’’استنبول میں ایردوان کا مستقبل داؤ پر‘‘ کے زیرِ عنوان کالم میں استنبول کے مئیر شپ کے 31مارچ 2019کے انتخابی نتائج کو حکومت کی جانب سے تسلیم نہ کیے جانے اور اپوزیشن پر دھاندلی کے الزامات لگانے کے بعد اسے منسوخ کرتے ہوئے 23جون 2019کو نئے سرے سے صرف مئیر شپ ہی کے انتخابات دوبارہ سے کروانے کے یک طرفہ اعلان نے ترکی کو ہلا کر رکھ دیا تھا کیونکہ مئیر شپ کے ان انتخابات میں مخالف جماعتوں کے ’’اتحادِ ملت‘‘ کے مشترکہ امیدوار ’’اکرم امام اولو‘‘ نے بڑے سخت معرکے کے بعد چند ہزار ووٹوں کے فرق سے کامیابی حاصل کی تھی جو اپوزیشن کی 25سال بعد استنبول میں پہلی کامیابی تھی لیکن ’’ترک سپریم الیکشن کمیشن‘‘ نے جس نے اپوزیشن کے مشترکہ امیدوار کی کامیابی کا اعلان کرتے ہوئے مئیر بننے کا سرٹیفکیٹ بھی جاری کردیا تھا، اپنے ہی فیصلے کو کالعدم قرار دیتے ہوئے ان انتخابات کو منسوخ قرار دے دیا حالانکہ دنیا میں عام طور پر حکومت پر دھاندلی کروانے کا الزام عائد کیا جاتا ہے لیکن ترکی میں اس کے بالکل برعکس ہوا۔

مئیر شپ کے انتخابات کو کالعدم قرار دیتے ہوئے دوبارہ سے انتخابات کروانے کا فیصلہ شاید صدر ایردوان کی فاش غلطی تھی جس کا خمیازہ انہیں اس شکست کی صورت میں بھگتنا پڑا ہے۔ عین ممکن ہے کہ یہ شکست ان کی اپنی جماعت میں پھوٹ کا سبب بنے اور یہ ایردوان کے طویل اقتدار کے خاتمے کی وجہ بھی بن جائے۔ اگرچہ آئندہ صدارتی انتخابات 2023میں کروانے کا شیڈول ہے لیکن استنبول میں شکست کے بعد اب قبل از وقت انتخابات ناگزیر دکھائی دیتے ہیں۔ صدر ایردوان خود دوبارہ سے استنبول مئیر شپ کے انتخابات کروانے کے حق میں نہ تھے لیکن ان کے رفقا اور قریبی ساتھیوں نے صدر ایردوان کو غلط مشورہ دیتے ہوئے ان کے مستقبل کو داؤ پر لگانے کی بنیاد رکھ دی تھی جس کا راقم نے اپنے گزشتہ کالم میں اظہار کیا تھا۔ 23جون 2019کے استنبول مئیر شپ کے انتخابات میں برسرِ اقتدار جماعت کے امیدوار بن علی یلدرم جو کہ اس سے قبل ملک کے وزیراعظم اور بعد میں قومی اسمبلی کے اسپیکر بھی رہ چکے ہیں کو شدید ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا جبکہ 31مارچ 2019کے مئیر شپ کے انتخابات میں دونوں امیدواروں کے درمیان فرق صرف چند ہزار کا تھا جو کہ اس بار آٹھ لاکھ تک پہنچ گیا اور اپوزیشن کے امیدوار اکرم امام اولو نے 54فیصد ووٹ حاصل کرتے ہوئے تاریخی کامیابی حاصل کی جبکہ برسرِ اقتدار جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی کے امیدوار بن علی یلدرم کو صرف 45فیصد ووٹ حاصل ہوئے جو کہ صدر ایردوان کے لئے باعثِ تشویش ہے۔

ترکی میں جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی گزشتہ سترہ سالوں سے بلا شرکت غیرے ملک کے اقتدار پر مکمل طور پر اپنی حاکمیت قائم کیے ہوئے ہے، کو ترکی کے تمام ہی بڑے شہروں میں بلدیاتی انتخابات میں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ شاید اس کی بڑی وجہ آق پارٹی کا طویل عرصے ملکی اقتدار جاری رکھنا اور اس کے نتیجے میں عوام کا اس پارٹی سے اکتا جانا ہے۔ عوام کی اکثریت نے آق پارٹی کے دور میں ہونے والی ترقی اور ترکی کو عالمی قوت بنانے کے عمل کو فراموش کرتے ہوئے اسے اقتدار سے ہٹانے کی پہلی اینٹ رکھ دی ہے کیونکہ صدر ایردوان بھی اس بات پر یقین رکھتے ہیں ’’استنبول پر حاکمیت پورے ترکی پر حاکمیت قائم کرنا ہے‘‘۔ دوسری اہم وجہ آق پارٹی کی مالی اور اقتصادی پالیسی ہے جس کی وجہ سے عوام گزشتہ چند سالوں سے شدید مالی اقتصادی مشکلات سے دوچار ہیں اور ترک لیرا مسلسل اپنی قدر و قیمت کھوتا چلا جا رہا ہے۔ عوام کے مطابق ملک میں اقتصادی اور مالی مشکلات کی سب سے بڑی وجہ صدر ایردوان کا ملکی خزانے کی چابیاں اپنے داماد بیرات البائراک کے حوالے کرنا یعنی ان کو وزیرِ خزانہ بنانا ہے۔ صدر ایردوان کے قریبی ساتھی اور سابق وزیراعظم بن علی یلدرم کی شکست کی ایک اہم وجہ صدر ایردوان کے قریبی ساتھیوں کا ایردوان سے بڑھ کر ایردوان اور ان کی پالیسیوں کا دفاع کرنا اور مخالف قوتوں کی آواز کو دبانا یا کان نہ دھرنا ہے۔صدر ایردوان کی مقبولیت میں ہونے والی کمی کی ایک اہم وجہ صدر ایردوان کی نئی کابینہ میں عوام کی عدم دلچسپی اور صدر ایردوان کے قریبی ساتھیوں کا صدر ایردوان کو ’’سب کچھ اچھا ہے‘‘ کی رپورٹ فراہم کرنا ہے جبکہ حقیقی صورتحال سے آگاہ کرنے والے پارٹی اراکین کی صدر ایردوان تک رسائی ناممکن ہو کر رہ گئی ہے۔

صدر ایردوان نے اپنے سیاسی سفر کا آغاز بھی استنبول میں پہلی بار 1994میں میئر منتخب ہو کر کیا تھا۔ انھوں نےاپنے چند ساتھیوں کے ہمراہ 2001میں مرحوم نجم الدین ایربکان کے خلاف علمِ بغاوت بلند کرتے ہوئے جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی کی بنیاد رکھی تھی اور وہ 2003سے 2014تک ترکی کے وزیراعظم رہے اور ملک میں صدارتی نظام سے متعلق 16اپریل 2017کو ریفرنڈم میں کامیابی حاصل کرنے کے بعد 24جون 2018کو کروائے جانے والے پہلے صدارتی انتخابات میں باون فیصد ووٹ حاصل کرتے ہوئے 2023تک اپنے عہدہ صدارت پر براجمان رہیں گے لیکن استنبول کے مئیر شپ کے نتائج کیا ان کو قبل از وقت انتخابات پر مجبور نہیں کردیں گے؟ اور کیا اس شکست سے صدر ایردوان کے زوال کا آغاز تو نہیں ہو جائے گا؟

تازہ ترین