• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یہ 1984کی بات ہے ۔میرے استاد گرامی سید نصیر شاہ نے مجھے ماسکو سے ایک ادبی کانفرنس کا دعوت نامہ منگوا کردیا تھا۔یہ میرے لئے بڑے اعزاز کی بات تھی مگر ان دنوں روس جاناکسی گناہِ کبیرہ سے کم نہیں تھا۔ گھر والوں کو معلوم ہوا توکہرام مچ گیا۔یہ کسک آج تک دل میں ہے کہ میں اُس وقت کا روس نہیں دیکھ سکاتھا ۔ میں نےان دنوں سوویت یونین کی کرنسی سےمتعلق معلومات حاصل کی تھیں ۔اُس وقت چار ڈالر وں کا ایک روبل تھا۔ پاکستان سے ڈالر ہی لے کرجانے تھے کرنسی وہیں تبدیل ہونا تھی۔یعنی پاکستانی بینکوں کے پاس روبل تھے ہی نہیں ۔پہلی مرتبہ میں 1991 میں مجھے ماسکو جانے کا موقع ملا۔سوویت یونین کو ٹوٹے ہوئے ابھی چند ماہ ہی گزرے تھے۔اُس وقت وہاں مجھے ایک ڈالر کےعوض ساڑھے تیرہ سو روبل ملے ۔اس کے بعد روس نے اپنی کرنسی کو مضبوط کرنے کی ہر ممکن کوشش کی مگر اس وقت بھی ایک ڈالر تقریباً63روبل کا ہے۔ڈالر کے خلاف کئی ممالک برسرِپیکار ہیں ۔ڈالر کی حاکمیت سے تنگ آکر یورپ نےاپنی کرنسی ’’یورو‘‘ شروع کرلی ہے۔ڈالر کےساتھ ترکی کا لیرابھی مسلسل حالتِ جنگ میں ہے۔

لیرےکے حوالے سے ایک واقعہ یاد آرہا ہے ۔میرے برطانوی دوست حضرت شاہ کچھ دن لاہور میں میرے پاس مقیم رہے ۔جب گئے تو میں نے دیکھا کہ جس بیڈ روم میں وہ سوئےتھے اس میں کافی کرنسی پڑی ہوئی ہے ۔شمار کیاتو تقریباً ساٹھ ہزارکے نوٹ تھے ۔ اُن سے رابطہ ہوا تو بتایا کہ وہ اپنی رقم چھوڑ گئے ہیں ۔کہنے لگے ۔’’ہاں کچھ لیرے تھے۔کسی فقیر کو دے دینا۔‘‘میں نے کہا ۔ ’’شاہ صاحب دوچار نہیں وہ ساٹھ ہزار لیرے ہیں ‘‘شاہ صاحب نے ایک بھرپور قہقہہ لگایا اور کہنے لگے ’’انہیں فریم کرا کے دیوار پر لگادو‘‘ میں بڑا حیران ہوا ،کئی ماہ کے بعد ایک دن پاس کچھ بھی نہیں تھاسوچا کہ چلو لیرے روپوں میں تبدیل کرا لوں۔ ساٹھ ہزار لیرے لے کرمنی ایکسچینجر کے پاس پہنچ گیا۔اس نے لیرےلینے سے ہی انکار کردیا ۔کہنے لگا ۔دوچار سو روپے بنیں گے مگر ہم کہاں چینج کراتے پھریں گے ۔یعنی1990 میں یہ حالت تھی ترکی کی کرنسی کی۔ترکی نے بڑی محنت کے ساتھ لیرے کی قدر میں اضافہ کیا مگر اس وقت پھر لیرا مسلسل گر رہا ہےمگر روپے کی طرح نہیں ۔اس وقت بھی ایک لیرا خریدنے کےلئے ستائیس روپے دینے پڑتے ہیں ۔ڈالر کے مقابلے میں لیرے کی گرتی ہوئی قدر کو بحال کرنے کےلئے ترکی ہر ممکن کوشش کررہا ہے ۔ترکی کےسینٹرل بینک کی جانب سے ملک کی کرنسی لیرا کی قدر میں ہونے والی کمی کو روکنے میں ناکامی کے بعد ترک صدر رجب طیب اردوان نے امریکہ پر اُن کے ملک کی معیشت کو نقصان پہنچانےکاالزام عائد کیا ہے۔ یعنی کرنسی کی قدر جب گرتی ہے تو زندہ قوموں کو کتنی تکلیف ہوتی ہے ۔ڈالر کے مقابلے میں لیرا کو مستحکم کرنے کےلئے جب اردوان نے اپیل کی تھی کہ جہاں تک ممکن ہوسکے ڈالر کو چھوڑ کر لیرا میں کاروبار کیجئے تو سب سے پہلے قطر نے کہا تھا کہ وہ لیرا میں تیل فروخت کرے گا۔پاکستان نے بھی چین کے ساتھ ڈالر کی بجائے یوآن اور روپے میں کاروبار کرنے کا معاہدہ کیا ہے۔عمران خان نے بھی ڈالر کے متعلق عوام سے اپیل کی تھی مگر افسوس دولتمندوں کو پاکستان سے زیادہ اپنے مال کی فکر ہے۔سوڈالر کے مقابلے پاکستانی کرنسی مسلسل گرتی چلی جارہی ہے اور وہ وقت آگیا ہے کہ شاعر بھی کہنے لگے ہیں۔

باندھ کے رکھتا ہوں مضبوط گرہ میں لیکن

پاکستانی نوٹ کی قیمت گر جاتی ہے

بے شک جب کرنسی کی قدر گرتی ہےتومہنگائی کے اژدھے پھنکارتے ہیں ۔ میں نے پہلے بھی کہیں لکھا تھا کہ ’’آخر کب تک روپیہ میں گراوٹ آتی رہے گی ۔کب تک قرضوں کے عفریت آتی نسلوں کو نگلتے رہیں گے۔کب تک دشتِ غربت میں ہڈیاں اگتی رہیں گی۔ کب تک جھونپڑیوں میں دئیے بجھتے رہیں گے۔کب تک بنگلوں میں شادیانے بجتے رہیں گے ۔کیا واقعی آسمان ہم سے مایوس ہو گیا ہے ۔نہیں نہیں ۔ ہماری معیشت کوئی مردہ معیشت نہیں، اُس کی رگوں میں خون کی گردش جاری ہے۔ ہماری کرنسی کے قدم کسی ایسی ڈھلوان پر نہیں جہاں پائوں جمانا ممکن ہی نہ ہو۔ مجھے یقین ہے روپیہ کی قدر میں اب اور کمی نہیں آئے گی۔‘‘

مگر افسوس روپے کی قدرمیں مسلسل کمی ہورہی ہے۔میرے خیال میں تو موجود مشیر ِمعیشت سے اپنے اسد عمر ہزاردرجہ بہتر تھے ۔میری ایک دن اس موضوع پر ان سے تفصیلی گفتگو ہوئی تھی جب وہ ڈالر کے خلاف جنگ لڑ رہے تھے ۔آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات برابری کی سطح پر کررہے تھے ۔ان کا کہنا تھا ۔میں روپے کی قدر کو مستحکم رکھنے کےلئے آخری حد تک جائوں گا مگر احتیاط کے ساتھ۔مجھے یقین ہے آئی ایم ایف آخرکار ہماری شرائط پر ہمیں قرضہ دے گا۔آخر اس نے قرضہ واپس بھی تو لینا ہے ۔اسد عمر کے مقابلے میںعبدالحفیظ شیخ تو ابھی سےہتھیار ڈال کر بیٹھ گئے ہیں کہ روپیہ گرتا ہے تو گرتا رہے ۔مجھے یاد ہے کہ جب اسد عمر نے وزارت چھوڑی تھی تو ایک سوال کے جواب میں کہا تھا کہ ڈالر کی قیمت میں کتنا اضافہ ہوناہے ۔اب یہ نیا وزیر بتائے گا ۔

سو عمران خان سے دست بستہ اپیل ہے کہ روپے کی قدر مستحکم کرنے کےلئے کچھ کریں۔یہ جو اپوزیشن تحریک چلانے کا سوچ رہی ہے ۔اِس کی فکر نہ کریں ۔اگر اس میں کوئی جان ہوتی تو اس کی سربراہی مولانا فضل الرحمن کے پاس نہ ہوتی ۔اپوزیشن حکومت کا کچھ نہیں بگاڑ سکتی۔ لوگ کم از کم پانچ سال تک انتظار کریں گےاورپھر بھی اِن کے کہنے پر باہر نہیں آئیں گے۔اِن کا زمانہ بیت چکا ہے۔عوام جان چکے ہیں کہ اس کی جیب کس نے کاٹی ہے۔قوم کو اسد عمر یہ بھی بتاچکے ہیں کہ ملک ڈیفالٹ ہوچکا تھا ۔ بس اتنی سی بات ہے کہ ہم نےاعلان نہیں کیااور خاموشی سےآئی ایم ایف کے پاس چلے گئے۔مگر یہ بھی طے ہے کہ ملک کواس مقام پر صرف شریف اور زرداری فیملی نے نہیں پہنچایا ۔ملک کو لوٹنے والےاور بھی ہزاروں ہیں۔دکھ یہی ہے کہ ابھی تک انہیں کچھ نہیں کہا گیا۔ صرف اُن سے ٹیکس دینے کی اپیلیں کی گئی ہیں۔

تازہ ترین