• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستانی معیشت انتہائی سست روی اختیار کرچکی ہے اور ملک کے اندر پولیٹکل پولرائزیشن میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے ۔ یہ پاکستان کی موجودہ حقیقت پرمبنی صورت حال ہے۔ ایک جملے میں بیان کردہ اس معروضی حقیقت سے بہت کم لوگ اختلاف کریں گے ۔ اس صورت حال کا منطقی انجام کیا ہو گا ؟ امید ویاس کا شکار دونوں حلقے آج کل اسی ایک سوال پر غور کر رہے ہیں ۔ یہ اور بات ہے کہ یہ سوال کچھ حلقوں کے مزاج نازک پر گراں بھی گزر رہا ہے۔

یہ صورت حال کیوں پیدا ہوئی ؟ عام خیال یہ ہے کہ ’’ معیشت کو ٹریک پر لانے اور کرپشن کے خاتمے ‘‘ کی کوششوں کی وجہ سے یہ صورت حال پیدا ہوئی ۔ پاکستان میں زیادہ تر تجزیے اس مفروضے پر کیے جاتے ہیںکہ کوئی ایک ایسی روحانی طاقت ہے ، جو پاکستان کے لیے اچھا سوچ رہی ہے اور جو پاکستان کو تباہی سے بچالے گی ۔ یہ روحانی طاقت معیشت کو برباد کرنے والوں کا احتساب بھی کرے گی اور سیاست کو کرپشن سے بھی پاک کرے گی ۔ پاکستان ایک ’’ یوٹو پیائی ‘‘ ریاست بن جائے گی ۔ یہ مفروضہ 1947 ء میں قائم ہوا اور وقت کے ساتھ یہ عقیدہ بن چکا ہے ۔ اب یہ سوال نہیںکیاجا سکتا کہ پاکستان کے لیے اچھا سوچنے والی او ر برے لوگوں کو سزا دینے والی یہ روحانی طاقت پہلے بھی موجود تھی تو پاکستان اس حال میں کیوں پہنچا ۔ عقائد میں سوالات نہیں ہوتے ۔ بہرحال عقیدے میںتبدیل ہونے والے اس مفروضے کی وجہ سے آج لوگ اس حقیقت کا ادراک رکھتے ہیں کہ ’’ معیشت کو درست کرنے اور کرپشن کو ختم کرنے ‘‘ کے لیے جو کچھ ہو رہا ہے ، وہ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نہیں کر رہی ہے ۔ یہ وہی روحانی طاقت کر رہی ہے ۔ یہ قوت کون ہے ؟ اس سوال پر بھی لوگ غور کرنے کی زحمت نہیں کر رہے کیونکہ سردجنگ کا عہد ختم ہونے کے بعد دلائل کی جنگ ختم ہوگئی ہے ۔ اب سنگل ٹریک پر کچھ وقت کے لیے لوگوں کو رہنا ہے ۔

اس بحث میں الجھنے کی بجائے ہم حقیقی صورت حال پر بات کرتے ہیں ۔ معیشت ’’ Dead Slow ‘‘ ہو چکی ہے اور سیاست تصادم کی طرف بڑھ رہی ہے ۔ معیشت کو درست کرنے اورسیاست میں کرپشن کا خاتمہ کرنے والی روحانی طاقت نے پاکستان کے عظیم تر مفاد میں ایک ساتھ ایسے سخت اقدامات کیے ، جو پہلے کبھی نہیں کیے تھے۔ ہم یہ کہنے کی جرات نہیں کر سکتے کہ اس نے یہ اقدامات پہلے کیوں نہیں کیے۔ کرپشن کے نظام کو کیوں پروان چڑھنے دیا اور پوری معیشت عالمی مالیاتی اداروں کے شکنجوں میں کیوں دے دی؟ اب معیشت کی جس طرح دستاویز بندی ( Documentation ) ہو رہی ہے ، اس میں عام آدمی بھی یہ نہیں بتا سکتا کہ اس نے ایک گھر اور گاڑی کس طرح لی کیونکہ اس نے سوچا تھا کہ یہ سب کچھ جائز کمائی سے اس نے بنایا ہے ۔ لہذا اس سے کوئی پوچھے گا نہیں ۔ سالہا سال کی محنت ، دودونوکریوں اور کنجوسی کو وہ کس طرح اپنا ذریعہ آمدنی ظاہر کرے ۔ جن لوگوں نے روحانی طاقتوں کے نظام کی بقاکے لیے پیدا ہونے والے مواقع سے فائدہ اٹھایا ، وہ بھی اب پریشان ہیں کہ کس طرح اپنی دولت کے ذرائع ثابت کریں ۔ اس تکلیف دہ صورت حال میں سب نے نہ صرف اپنی دولت چھپالی ہے بلکہ انہوںنے کاروبار کرنا بھی چھوڑ دیا ہے ۔ پاکستان کے لیے اچھا سوچنے والی روحانی قوت نے معیشت کو بہتر بنانے کے لیے رواں مالیاتی خسارے اور تجارتی خسارے کو کم کرنے اور قرضوں کی ادائیگی کے لیے زیادہ وصولیاں کرنے کا جو ہدف مقرر کیا ہے، وہ اس لیے حاصل نہیں ہو گا کہ معیشت نے اپنی سرگرمی ختم کردی ہے۔

اسی طرح سیاست سے کرپشن کے خاتمے کے لیے سیاست دانوں کے احتساب کا سلسلہ شروع کیا گیا ہے ۔ پاکستان کے لیے اچھا سوچنے والی روحانی قوتیں یہ سمجھتی ہیں کہ پاکستان کا مستقبل جمہوریت ہے اور سیاست دان بے داغ ہوں ۔ یہ اور بات ہے کہ 18 ویں آئینی ترمیم کے بعد جمہوریت کو پاکستان کا مستقبل قرار دیا جا رہا ہے ۔ سیاست دانوں کے اس احتساب میں جو بھی نیک نیتی ہو لیکن پاکستان کے عوام اور سیاست دان اس کو ماضی کے احتساب کی بدنیتی سے جوڑتے ہیں۔ سیاسی جماعتیں اس احتساب کو غیر سیاسی قوتوں کے انتقام کا تسلسل قرار دے رہی ہیں اور وہ تحریک انصاف کی منتخب حکومت کے آئینی، جمہوری اور قانونی جواز کو چیلنج کر رہی ہیں۔ ملک میں سیاسی تصادم میں اضافہ ہورہا ہے۔

معیشت کی سست روی اور سیاسی تصادم کے ماحول میں کچھ حلقے ایسے بھی ہیں، جو آج بھی یہ سمجھتے ہیں کہ معیشت ٹھیک ہوجائے گی۔ سیاست کرپشن سے پاک ہو گی اور پاکستان یوٹوپیائی ریاست بن جائے گی۔ ان کی اس امید کی بنیاد یہ ہے کہ وزیراعظم عمران خان بہت مقبول سیاست دان ہیں۔ ان کی مقبولیت کی وجہ سے سارے ’’مشکل فیصلے‘‘ نتیجہ خیز ہوں گے۔ یہ حلقے آج عمران خان کی مقبولیت کا خود اندازہ لگائیں تو حقائق پر نہیں، عقائد پر بھی بات ہو سکتی ہے۔

تازہ ترین