پاکستان میں کسی عام یا سنگین نوعیت کے کسی بھی کرمنل کیس میں استغاثہ کی ناکامی، ملزمان کو سزائیں نہ ملنے، یا گرفتار ملزمان کی ضمانتیں ہو جانا یا کیس سے بری ہوجانے کا سو فیصد ملبہ پولیس اور تفتیشی افسر پر ڈال دیا جاتا ہے۔ گو کہ کسی بھی مقدمےمیں ملزمان کو سزائیں دلانا استغاثہ یعنی تفتیشی کرداروں ہی کے ذمے ہوتا ہے۔ پاکستان میں امیر اور غریب میں فرق بڑھتے فاصلوں کی طرح کرمنل جسٹس سسٹم میں بھی یہ خلیج بڑی تیزی سے بڑھتی جا رہی ہے۔ اب بھی کسی بھی ہائی پروفائل کے ساتھ کرمنل جسٹس سسٹم کے حوالے سے بہت زیادہ گرما گرمی دیکھی جاتی ہے۔ مختلف حلقے اس سلسلے میں پولیس کو قصوروار ٹھہراتے نظر آتے ہیں، الزام ہوتا ہے کہ پولیس کی ناقص تفتیش کی بنا پر ملزمان کو رہائی ملی، پولیس پر ملی بھگت کا الزام عائد کرتے ہوئے بااثر ملزمان کو رعایت یا قانونی مراعات دینے کی بات کی جاتی ہے، وغیرہ وغیرہ۔ اعلیٰ پولیس حکام کی کوششوں کے باوجود پولیس کے شعبہ تفتیش کی ناکامی کا گراف بڑھتا جارہا ہے۔ جس کی بیشتر مثالیں حقائق کی صورت میں سامنے آتی ہیں۔ مثال کے طور پر پولیس کے شعبہ آپریشن کی کارکردگی دیکھیں تو آئے دن مختلف نوعیت کے اہم ملزمان کی گرفتاریوں کے دعوے ٹی وی اسکرین پر بریکنگ نیوز یا اخبارات میں شہ سرخیوں کے ساتھ سامنے آتے ہیں۔ اس کے اگلے دن مذکورہ ملزمان کی عدالتوں میں پیشی یا عدالت سے جسمانی ریمانڈ کی خبر عام طور پر اس کیس کے حوالے سے شہریوں کیلئے آخری اطلاع ثابت ہوتی ہے۔ کوئی انتہائی غیرمعمولی کیس ہو تو چند دن بعد کوئی مزید خبر ان کی عدالت میں پیشی کی صورت میں سامنے آجاتی ہے اس کے بعد کیا ہوا؟ کسی کو کچھ پتا نہیں ہوتا۔ چند ہفتوں یا مہینوں بعد یہ خبر سامنے آتی ہے کہ فلاں ملزم عدالت سے ضمانت حاصل کرنے میں کامیاب ہوگیا یا اسے مقدمے سے بری کر دیا گیا۔ اس تمام صورتحال میں پس پردہ عوامل یا حالات کے بارے میں کسی کو کوئی خبر نہیں ہوتی۔ متعلقہ پولیس افسران تمام ملبہ عدالتی سسٹم پر ڈال دیتے ہیں کہ ملزمان عدالتوں سے ضمانتیں حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ وکلاء کی ملی بھگت کو مورد الزام ٹھہرایا جاتا ہے لیکن اگر اس معاملے میں باریک بینی سے جائزہ لیا جائے تو کسی نہ کسی طرح قصور کیس سے متعلق تفتیشی افسر کا ہی ہوتا ہے۔ اکثر کیسز میں ایسا دیکھا گیا ہے کہ ملزم ’’پرکشش موقف‘‘ پیش کرکے تفتیشی افسر کا دل موہ لینے میں کامیاب ہوجاتا ہے۔ ایس ایچ او اپنی کارکردگی دکھا چکا ہوتا ہے اس لئے اس کے بعد اس کے کیس یا ملزم کے ساتھ کیا ہوا؟ اسے اس سے کوئی سروکار نہیں ہوتا اور اکثر ایس ایچ اوز کی طرف سے یہ جملے سننے کو ملتے ہیں کہ بھائی شعبہ تفتیش کا کام ہی کیسز کا ڈسپوزل کرنا ہے۔ یہی نہیں اس سلسلے میں دوسرا بڑا کردار عدلیہ اور اس سے جڑے کرداروں کا ہے۔ بیشتر کیسز میں دیکھا گیا کہ ملزمان گرفتار کرکے ابھی تھانے نہیں پہنچتے کہ ان کے زرخرید کردار وکیلوں کے بھیس میں تھانے پہنچ جاتے ہیں۔ حالانکہ وکلاء کا کام عدالت کے اندر شروع ہوتا ہے لیکن بیشتر کیسز میں دیکھا گیا ہے کہ دہشت گرد، قبضہ مافیا، منشیات فروشوں یا دیگر جرائم پیشہ گروہوں نے کئی کئی وکلاء پے رول پر رکھے ہیں جو ان کی گرفتاریوں یا مقدمات میں انتہائی ایکسٹرا جوڈیشل کردار ادا کرتے ہیں۔ یوں پولیس کے جاری کردی اعداد و شمار کے مطابق 40سے 50فیصد ملزمان ابتدائی مرحلے میں ہی مقدمات سے فارغ کرادیئے جاتے ہیں۔ اس حوالے سے مختلف اوقات میں مختلف سوالات اٹھتے رہتے ہیں۔ پولیس حکام کی تحقیقات کے دوران پولیس کے شعبہ تفتیش کی کارکردگی کے حوالے سے انتہائی گمبھیر اور چونکا دینے والے اعداد و شمار سامنے آئے ہیں۔
پولیس کیسز کی تحقیق کے دوران سال 2013 سے2018کے پانچ سال کے دوران مختلف مقدمات میں گرفتار 4939ملزمان کی مرحلہ وار رہائی کا خلاصہ بیان کیا گیا ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق مقدمات کے اندراج اور گرفتاری کے پہلے ہی ہفتے میں 717ملزمان پولیس کی ناقص تفتیش، انویسٹی گیشن افسر کی مبینہ ملی بھگت یا اثر رسوخ کی بنا پر ضمانت حاصل کرکے رہا ہونے میں کامیاب ہوگئے جبکہ چھ ملزمان مقدمات سے فارغ ہوئے۔ یوں 723ملزمان کیس کی انتہائی ابتدائی نوعیت کی تفتیش کے دوران ہی رہا ہو گئے۔ یہ سلسلہ رکا نہیں۔ مقدمات میں عائد دفعات سنگین تھیں یا بعض قانونی پیچیدگیاں رکاوٹ بنیں کہ مزید ملزمان کو ضمانت پر رہا ہونے میں کچھ تاخیر ہوئی یوں دوسرے ہفتے میں 862ملزمان نے ضمانت پر رہائی پالی۔ ملزمان کی گرفتاری کے تیسرے اور چوتھے ہفتے یعنی ایک مہینے کے اندر اندر مزید 1040ملزمان نے رہائی حاصل کی۔ اعداد و شمار کے مطابق گرفتاری کے پہلے تین ماہ تک گرفتار ملزمان دھڑا دھڑ ضمانت حاصل کرکے رہائی پانے میں کامیاب ہوتے رہے۔ تین ماہ کے بعد ضمانت پر رہائی کے سلسلے میں کچھ کمی آئی اور تین سے پانچ ماہ کے دوران 504ملزمان نے رہائی پائی اس دورانیے تک مقدمےسے فراغت پانے والے ملزمان کی تعداد صفر رہی۔ تجزیاتی رپورٹ کے اعداد و شمار کے مطابق ابتدائی ہفتے میں 6ملزمان کی مقدمے سے فراغت کے بعد اگلے 5ماہ تک مزید کوئی ملزم کسی کیس سے فارغ نہیں ہوا بلکہ اگلے پانچ سے نو ماہ کے دورانیہ میں اچانک یہ سلسلہ شروع ہوا اور یکدم 414ملزمان نے عدالتی چارہ جوئی کی بنا پر مقدمات سے فراغت پائی، اس عرصہ میں ضمانت پر رہائی حاصل کرنے والے ملزمان کی تعداد 70 ہے۔ 5 سے 9 ماہ کے دورانیے میں 484ملزمان رہائی پاگئے۔ لمحہ فکریہ ہے کہ یہ سلسلہ ناصرف جاری ہے بلکہ اس سے جڑے کردار کتنے بھی ایماندار ہوں تھک ہار کر اس کا حصہ بننے پر مجبور ہوتے جارہے ہیں۔