• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
یہ ایک سپاہی کی داستان عشق و جنوں ہے۔ لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ شاہد عزیز کی کتاب ”یہ خاموشی کہاں تک؟“ کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ انہوں نے اپنی اس داستان کو اپنی زبان میں لکھا ہے۔ یہ خوبی اس کتاب کی سب سے بڑی خامی ہے کیونکہ شاہد عزیز صاحب نے اپنے درد دل کو کہیں فیض احمد فیض کی زبان میں بیان کیا ہے کہیں احمد فراز کے الفاظ کا سہارا لیا ہے اور کہیں ان کے جنوں پر شکیب جلالی کا رنگ غالب ہے۔ اس کتاب کا کسی دوسری زبان میں ترجمہ کافی مشکل ہو گا۔ کتاب کے پہلے باب کا نام ہے… ”چُبھ نہ جائے دیکھنا باریک ہے نوکِ قلم“ علامہ اقبال کے مصرعے سے شروع کئے گئے پہلے باب کے پہلے صفحے باب پر سادہ دل سپاہی نے اپنا احساس جرم بیان کرتے ہوئے کہہ دیا کہ فوجی زندگی کے آخری موڑ پر، قانون توڑ کر کسی اور کا ساتھ دیا اور سب کچھ بدل گیا۔ پاکستان کا مطلب بھی، ہماری پہچان بھی، قوم کی تقدیر بھی، قبلہ بھی لیکن جو بدلنا چاہا تھا، جوں کا توں ہی رہا بلکہ اور بگڑ گیا۔ ایک چمکتے ہوئے خواب کو حقیقت میں بدلتے بدلتے اس میں اندھیرے گھول دیئے۔
عام تاثر یہ ہے کہ شاہد عزیز صاحب کی کتاب کارگل کی جنگ کے بارے میں ہے۔ میں نے کتاب پڑھی تو معلوم ہوا کہ یہ تو ان کی اپنی داستان حیات ہے جس میں انہوں نے بچوں کی سی معصومیت کے ساتھ وہ سب لکھ دیا جسے وہ سچ سمجھتے ہیں۔ میں نے یہ کتاب ایک صحافی کی آنکھ سے پڑھی ہے اور اس میں کئی خامیاں اور تضادات تلاش کر لئے ہیں لیکن مجھے یہ اعتراف ہے کہ شاہد عزیز صاحب کا انداز بیان بہت خوبصورت ہے اور بہت عرصے بعد اردو میں ایک اچھی کتاب پڑھنے کو ملی۔ ان کی کتاب میں بیان کئے گئے کئی واقعات کے کچھ زاویوں اور ان کے نظریات سے اختلاف کیا جا سکتا ہے لیکن مجھے بدنیتی نظر نہیں آئی۔ انہوں نے فوج کی خامیاں بیان کی ہیں لیکن خوبیاں بھی کھل کر لکھی ہیں۔ پاکستان ملٹری اکیڈمی میں ہونے والی اقربا پروری سے لے کر سٹاف کالج کوئٹہ میں داخلے کے امتحان میں ہونے والی نقل کے قصے لکھ کر مصنف نے فوج کا مذاق نہیں اڑایا بلکہ فوج کی خامیاں دور کرنے کی خواہش کا اظہار کیا ہے۔ یہ کتاب پڑھ کر احساس ہوتا ہے کہ جو خامیاں ہمارے معاشرے میں پائی جاتی ہیں وہی خامیاں فوج میں بھی موجود ہیں جب تک ہم ان خامیوں کو اپنے معاشرے سے ختم نہیں کریں گے یہ خامیاں فوج سے بھی ختم نہیں ہو سکتیں۔ لفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ شاہد عزیز لکھتے ہیں… ”جیسے ہمارے ملک میں کنبہ پروری کا رواج چلتا ہے کہ اپنوں کا خاص خیال رکھا جائے، ویسے ہی فوج میں بھی ہے۔ کہا جاتا ہے بڑا حوصلے والا شخص ہے، یاروں کا یار ہے، دوستوں کے لئے کچھ بھی کر سکتا ہے چاہے کسی اور کا گلا ہی کیوں نہ کٹتا ہو۔ فوج میں عام رواج ہے کہ اپنی یونٹ کے لئے سب کچھ جائز ہے، جھوٹ بھی دھوکہ بھی اور چوری بھی۔ میں کوئی انوکھی بات نہیں کہہ رہا۔ یہی دستور ہے۔“
شاہد عزیز صاحب کے بیان کردہ حقائق پڑھ کر سمجھ آتی ہے کہ ماضی کے فوجی ڈکٹیٹر اتنے جھوٹے اور دھوکے باز کیوں تھے اور صرف اپنے آپ کو صحیح باقی سب کو غلط کیوں سمجھتے تھے؟ شاہد عزیز صاحب پہلے پی ایم اے کے طالب علم بنے پھر اسی ادارے میں استاد بھی بنے۔ لکھتے ہیں کہ پی ایم اے میں سب پر آگے بڑھنے کی جستجو اور محنت کا دباؤ ہوتا ہے۔ یہ کوئی نہیں دیکھتا کہ فوج میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی بجائے ایک ہی مقصد کے لئے مل جل کر کام کرنے کی زیادہ اہمیت ہے۔ سبقت لے جانے کی کاوش انسان کی سیرت کو مسخ کر دیتی ہے اور اس کی اخلاقی قوت ماند پڑ جاتی ہے۔ یہ سوچ ذرا اور گہری ہو جائے تو جھوٹ اور فریب کو جنم دیتی ہے اور بھائی چارے کی بجائے دشمنیاں پیدا کرتی ہے کمانڈر کے کردار میں ایسے نقائص جنم لیتے ہیں کہ وہ اچھا لیڈر نہیں بن پاتا میں نے پی ایم اے میں مقابلے کے اس ماحول کے بڑے کڑوے رنگ دیکھے ہیں، پھر ساری عمر فوج میں جگہ جگہ اس کے دل سوز اثرات دیکھتا رہا۔ اپنے بچوں کو بھی یہ کہتا رہا کہ جو بچہ فرسٹ آئے گا الٹا لٹکایا جائے گا۔
میں جیسے جیسے پاکستانی فوج کے ایک سابق کور کمانڈر اور سابق چیف آف جنرل اسٹاف کی زندگی کی کہانی پڑھتا گیا میری نظروں کے سامنے بار بار 2006ء کے اس شاہد عزیز کا چہرہ گھومنے لگتا جو چیئرمین نیب تھا۔ ایک دن اس شاہد عزیز نے مجھے اپنے دفتر بلایا اور شوگر اسکینڈل کی انکوائری کے متعلق کچھ باتیں بتا دیں۔ شاہد عزیز نے حکومت کے کچھ وزراء کے نام لئے اور کہا کہ وزیراعظم شوکت عزیز اور صدر مشرف کے قریبی ساتھی طارق عزیز کا دباؤ ہے کہ شوگر اسکینڈل کی انکوائری روک دی جائے۔ شاہد عزیز ہمیں اپنی ہی حکومت کے قیدی نظر آئے تھے لیکن کچھ سال کے بعد وہ قیدی تمام پابندیاں توڑ کر آزاد ہو گیا اور اس نے اپنی کتاب میں بہت کچھ لکھ ڈالا۔ 2006ء میں شاہد عزیز نے مشرف حکومت کے جن وزراء کی کرپشن کے خلاف انکوائری کی تھی اب ان میں سے کوئی مسلم لیگ (ن) کے ساتھ جا ملا کوئی پاکستان تحریک انصاف میں شامل ہو گیا۔ میں سوچ رہا ہوں کہ اگر یہ سیاستدان ایک فوجی ڈکٹیٹر کا دست و بازو نہ بنتے تو شائد پاکستان کے حالات اتنے خراب نہ ہوتے۔ شاہد عزیز صاحب کی کتاب کا سب سے زیادہ تشویشناک حصہ وہ ہے جہاں انہوں نے اپنے ذاتی تجربات کی روشنی میں لکھا ہے کہ امریکی فوج اور خفیہ اداروں نے تین مرتبہ ان کی وفاداریاں خریدنے کی کوشش کی۔ صفحہ 102 پر لکھتے ہیں کہ کمپنی کمانڈر کورس کرنے سات ماہ کے لئے فورٹ بیننگ FORT BENNING گئے تو امریکی فوج کے ایک افسر نے پیشکش کی کہ تم اسی رینک اور سروس کے ساتھ امریکی فوج جائن کر سکتے ہو لیکن شاہد عزیز نے انکار کر دیا۔ کچھ عرصے کے بعد ایک اور کورس کے لئے پھر امریکا گئے اس مرتبہ ان کے ساتھ میجر اشفاق پرویز کیانی بھی تھے۔ ایک دفعہ پھر شاہد عزیز کو امریکی فوج میں بھرتی کی پیشکش ہوئی جو انہوں نے ٹھکرا دی۔ پھر کہا گیا پاکستانی فوج میں رہ کر ہمارے لئے کام کرو۔ شاہد عزیز نے انکار کر دیا“۔ یہ سب بیان کرنے کے بعد مصنف نے لکھا ہے۔ ”یہ صرف مجھ پر ہی تو عنایت نہیں کر رہے تھے، سب کو ہی دانہ ڈالتے ہوں گے کامیابی بھی پاتے ہوں گے تب ہی تو سلسلہ جاری تھا۔“ کتاب کے صفحہ 141 پر شاہد عزیز نے لکھا ہے کہ امریکا میں اس کورس کے اختتام پر پیرو کے ایک افسر نے مجھے فری میسن تنظیم میں شامل ہونے کی آفر کی لیکن شاہد عزیز یہاں سے بچ نکلے، کئی سالوں کے بعد پرویز مشرف کے جال میں پھنس کر انہوں نے پاکستان میں وہی کچھ کیا جو دشمن چاہتے تھے۔ انہوں نے جن چار جرنیلوں پر کارگل ایڈونچر کی ذمہ داری ڈالی کچھ عرصے کے بعد انہی چاروں کے ساتھ مل کر نواز شریف حکومت کا تختہ الٹ دیا۔ اپنے دل کو تسلی دینے کے لئے لکھتے ہیں کہ کیا پاکستان کے آئین سے وفاداری کا حلف صرف میں نے اٹھایا تھا، ججوں نے نہیں اٹھایا تھا؟ کہتے ہیں کہ اگر جرنیلوں نے آئین توڑا تو اس غیر آئینی اقدام کی حمایت کرنے والے ججوں کے بارے میں کیا خیال ہے؟ شاہد عزیز وائس چیف آف دی آرمی اسٹاف بننے کے قریب تھے کہ ایک دن جنرل مشرف نے بلاکر کہا کہ لاہور ریس کورس میں چھ ستمبر کو شہیدوں کے نام پر گھوڑوں کی ریس کا اہتمام ہے طارق عزیز چاہتے ہیں تم چیف گیسٹ بن کر انعامات تقسیم کرو۔ شاہد عزیز نے کہا کہ یہ غیر اسلامی کام ہے۔ انکار کر دیا اور کچھ عرصے کے بعد ریٹائرڈ ہو گئے۔ چیئرمین نیب بنائے گئے اور جب مشرف کا زوال شروع ہوا تو استعفیٰ دے دیا۔ شاہد عزیز کی کتاب امریکا کے خلاف نفرت سے بھری پڑی ہے۔ انہوں نے لکھا ہے کہ فوجی و سیاسی حکمران ہمیشہ امریکی اشاروں پر ناچتے ہیں… انہیں یہ اعتراف کرنا چاہئے کہ ان کی کتاب کسی فوجی حکمران کے دور میں شائع نہیں ہو سکتی تھی۔ یہ جمہوریت بہت کمزور اور گندی ہے لیکن اس کا فائدہ یہ ہے کہ شاہد عزیز جیسے ریٹائرڈ جرنیل صرف اسی گندی جمہوریت میں اپنے گناہوں کی گندگی بیان کر سکتے ہیں۔
تازہ ترین