• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اسلام آباد میں آئی ایم ایف مشن کے نمائندے نے18جنور ی2013ء کو اس بات کا عندیہ دیا کہ اگر پاکستان قرضے کی درخواست کرے تو نجاتی پیکیج کے تحت پاکستان کو ایک نیا قرضہ دیا جا سکتا ہے۔ پاکستان کو امداد دینے والے کچھ مالدار ملکوں نے بھی حکومت پاکستان پر دباؤ ڈالا ہوا ہے کہ وہ آئی ایم ایف سے قرضے کے لئے رجوع کرے۔ عالمی کریڈٹ ریٹنگ ایجنسی کیوں پیچھے رہتی، اس نے بھی مشورہ دیا کہ پاکستان جلد از جلد آئی ایم ایف سے قرضہ لینے کے متعلق سوچے، آئی ایم ایف یہ قرضہ کڑی معاشی شرائط پر اور امریکہ کی سفارش پر دے گا جبکہ امریکہ یہ مطالبہ کرے گا کہ پاکستان شمالی وزیرستان میں فوجی آپریشن کے ضمن میں اس کے ایجنڈے پر عمل کرے۔ اس طرح ایک مربوط حکمت عملی کے تحت پاکستان کے گرد گھیرا مزید تنگ کر دیا جائے گا۔
پاکستان کو آئی ایم ایف کے چنگل میں ایک مرتبہ پھر پھنسانے کی جو مربوط حکمت عملی موجودہ حکومت کے تعاون سے استعماری طاقتوں نے اپنائی ہوئی ہے وہ حیرت انگیز طور پر ان کی اس حکمت عملی سے گہری مماثلت رکھتی ہے جو 2008ء میں موجودہ حکومت کے تعاون سے وضع کی گئی تھی یعنی اول، اگست2008ء میں سٹی بینک نیویارک نے پاکستان کو مشورہ دیا کہ نادہندگی سے بچنے کے لئے وہ قرضے کے حصول کے لئے آئی ایم ایف کے سامنے دست سوال دراز کرے۔ دوم،26 ستمبر2008ء کو امریکی وزیر خارجہ نے کہا کہ ہم عالمی مالیاتی اداروں بشمول آئی ایم ایف سے کہیں گے کہ وہ پاکستان کو قرضے فراہم کریں۔ سوم، ایک عالمی کریڈٹ ریٹنگ ایجنسی نے6/اکتوبر کو تنبیہ جاری کی کہ اس بات کے خطرات بڑھ رہے ہیں کہ پاکستان آئندہ چند ماہ میں اپنے قرضوں کی بروقت ادائیگی نہیں کر پائے گا۔ چہارم، پاکستان کے سیکرٹری دفاع نے7/اکتوبر2008ء کو کہا کہ اگر امریکہ اقتصادی پابندیاں لگا دے تو پاکستان گھٹنے ٹیک دے گا اور پنجم،20/اکتوبر 2008کو آئی ایم ایف نے حوصلہ افزائی کی کہ پاکستان قرضہ لینے کے لئے اس سے رجوع کرے۔ دریں اثناء حکومت نے ملک کے زرمبادلہ کے ذخائر گرنے دیئے تاکہ قرضہ لینے کا جواز پیدا ہو جائے۔ قوم سے متعدد دروغ گوئیاں کر کے آئی ایم ایف سے قرضہ لینے کے چند ماہ بعد امریکی شرائط کے تحت پہلے سوات اور پھر جنوبی وزیرستان میں فوجی آپریشن کیا گیا ۔ نتیجتاً ملک میں دہشت گردی کے واقعات اور ڈرون حملوں میں زبردست اضافہ ہوا اور معیشت تباہ ہوتی چلی گئی۔ یہ بات بھی ریکارڈ کا حصہ ہے کہ طویل وقفے کے بعد نگران حکومت نے1988ء میں اپنے اقتدار کے آخری دنوں میں پاکستان کو آئی ایم ایف کے چنگل میں پھنسوایا تھا اور معیشت کی کارکردگی کے لحاظ سے اگلے25برس مجموعی طور پر ناکام سال کہے جا سکتے ہیں۔
اس بات کے شواہد نظر آ رہے ہیں کہ آئی ایم ایف نئے قرضے کی منظوری کے لئے شرائط رکھے گا کہ 19کروڑ عوام کو مزید نچوڑنے کے لئے اونچی شرح سے ویلیو ایڈڈ ٹیکس نافذ کیا جائے، بجلی کے نرخوں میں مرحلے وار اضافہ کیا جائے، روپے کی قدر گرائی جائے اور اسٹیٹ بینک شرح سود میں اضافہ کرے۔ یہ بات ہر محب وطن پاکستانی کے لئے باعث تشویش ہونی چاہئے کہ زرعی شعبے ،حصص مارکیٹ اور جائیداد سیکٹر کو موثر طور پر ٹیکس کے دائرے میں لانے کی شرط آئی ایم ایف عائد نہیں کرے گا جن کے ذریعے عوام پر بوجھ ڈالے بغیر کئی سو ارب روپے کے اضافی ٹیکس اکٹھے کئے جا سکتے ہیں۔ یہ بات بھی تکلیف دہ ہے کہ آئی ایم ایف نے ناجائز آمدنی سے بنائے ہوئے اثاثوں پر مروجہ قوانین کے تحت انکم ٹیکس وصول کرنے کے بجائے جس سے دو ہزار ارب روپے سے زائد کی اضافی آمدنی ہو سکتی ہے، نام نہاد ٹیکس ایمنسٹی اسکیم کی حمایت کر دی ہے، آئی ایم ایف کی اس حمایت اور عوام دشمن معاشی شرائط سے پاکستان کی معیشت کو غیر مستحکم کرنے اور پاکستان کو قرضوں کے شیطانی چکر میں جکڑنے کے استعماری مقاصد روز روشن کی طرح عیاں ہو گئے ہیں۔
موجودہ حکومت نے نومبر2008ء میں آئی ایم ایف سے قرضہ منظور کرایا تھا۔ اس سے چند ہفتے قبل ہم نے اپنی یہ تنبیہ دہرائی تھی کہ جان بوجھ کر معیشت کو اس حد تک بگاڑا گیا کہ دہشت گردی کی جنگ میں ”مزید اور کرو“ کے امریکی مطالبے کو بے چوں و چرا ماننے کے سوا کوئی اور چارہ نہ رہے۔ (جنگ 14/اکتوبر2008ء ) اس طرح اب دوسری مرتبہ آئی ایم ایف سے قرضہ لینے کا جواز پیدا کرنے کے لئے حکومت اور اسٹیٹ بینک نے زرمبادلہ کے ذخائر کو گرنے دیا پھر حکومت کی جانب سے کہا گیا کہ ”پاکستان کو نیٹو کو سامان کی راہداری بحال کرنے کی بڑی جلدی ہے تاکہ پیسے ملنا شروع ہوں۔ (جنگ 13مئی2012ء) ہم گزشتہ چار برسوں سے تواتر سے کہتے رہے ہیں کہ پاکستان 2012-13ء میں دوبارہ آئی ایم ایف کے پاس قرضے کی درخواست کے ساتھ جائے گا (جنگ 9دسمبر2008ء)
یہ بات باعث تشویش ہے کہ حکومت نے اس طویل مدت میں امریکی ایجنڈے کے تحت زرمبادلہ کے ذخائر بڑھانے کی سرے سے کوئی کوشش کی ہی نہیں جوکہ ناقابل معافی جرم ہے۔ ہم گزشتہ14برسوں سے انہی کالموں میں یہ تجویز دہراتے رہے ہیں کہ قانون سازی کر کے حکمرانوں، ممبران پارلیمینٹ ،صوبائی اسمبلیوں کے ممبران، سیاستدانوں اور سول و ملٹری بیورو کریسی کو پابند کیا جائے کہ وہ چند ہفتوں کے اندر بیرونی ملکوں میں بینکوں کے کھاتے پاکستان منتقل کروا لیں اور سمندر پار پاکستانیوں کو پاکستان میں بیرونی کرنسی کے کھاتوں پر چار فیصد سالانہ شرح منافع دینے کی پیشکش کی جائے۔ آئی ایم ایف کے چنگل میں ایک مرتبہ پھر پھنسے سے بچنے کا یہ واحد طریقہ ہے وگرنہ خودکشی کا راستہ کھلا ہے۔ پاکستان اگر آج اپنے بیرونی قرضے اپنے وسائل سے ادا کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے تو اس کی ذمہ داری این آر او سے مستفید ہو کر اقتدار میں آنے والی حکومت اور ملک میں این آر او سیٹ اپ برقرار رکھنے والی قوتوں کے ساتھ پارلیمینٹ پر بھی عائد ہوتی ہے۔ پاکستان مالیاتی ذمہ داریوں اور قرضوں کو محدود کرنے کے ایکٹ کی تسلسل کے ساتھ خلاف ورزیاں کرتا رہا ہے لیکن پارلیمینٹ خاموش رہی۔ اب موجودہ حکومت اور پارلیمینٹ کے پاس یہ آخری موقع ہے کہ وہ بیرونی ملکوں میں بینکوں کے کھاتوں کے ضمن میں قانون سازی کر کے نہ صرف اپنے پچھلے گناہوں کا کفارہ ادا کرے بلکہ تاریخ میں بھی اپنا نام سنہری حرفوں سے لکھوا لے۔
اب وقت آ گیا ہے کہ الیکشن کمیشن انتخابات میں حصہ لینے والے امیدواروں سے بھروائے جانے والے فارم میں متعلقہ امیدوار سے ایک حلف نامہ اور اگر وہ کسی سیاسی پارٹی کے ٹکٹ پر انتخاب لڑ رہا ہے تو سیاسی پارٹی سے بھی سرٹیفکیٹ طلب کرے کہ امیدوار آئین کی شق62/اور 63پر پورا اترتا ہے، ماضی میں اس نے بینکوں سے اپنے قرضے معاف نہیں کرائے ہیں، وہ کسی بینک کا نادہندہ نہیں ہے، اس کا معیار زندگی اس کے انکم ٹیکس کے گوشوارے سے مطابقت رکھتا ہے، اس نے کبھی بھی ٹیکس ایمنسٹی اسکیم سے استفادہ نہیں کیا اور وہ سنگین جرائم میں ملوث نہیں ہے یا رہا ہے۔
تازہ ترین