• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان میں کسی عام یا سنگین نوعیت کے کسی بھی کرمنل کیس میں استغاثہ کی ناکامی، ملزمان کو سزائیں نہ ملنے، یا گرفتار ملزمان کی ضمانتیں ہوجانا یا کیس سے بری ہوجانے کا سو فیصد ملبہ  پولیس اور تفتیشی افسر پر کیا جاتا ہے۔ گو کہ کسی بھی مقدمہ میں ملزمان کو سزائیں دلانا استغاثہ یعنی تفتیشی کرداروں ہی کی ذمے داری ہوتی ہے لیکن پاکستان کے دیگر شعبوں کی طرح انصاف فراہم کرنے کے ذمے دار شعبوں میں بھی ماورائے قانون طاقت رکھنے والے عوامل مجرمانہ طریقے سے غالب ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ کسی بھی قانون شکنی کے الزام میں اگر کوئی بااثر ملزم گرفتار ہوجائے تو آنے والے چند دنوں میں صورتحال عین عوامی اندازوں کے مطابق ہوتی ہے، اسے ضمانت مل جاتی ہے، اس کے ساتھ اس کے کردہ جرم کے مطابق سلوک نہیں کیا جاتا، پولیس ہی نہیں لیگل سائیڈ سے بھی اسے ہر طرح کی سہولتکاری ملتی ہے۔ یوں قانونی تقاضوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے وہ مکھن سے بال کی طرح قانون کے شکنجے سے باہر ہوتا ہے۔ 

دوسری طرف اگر اسی نوعیت کے کسی اور مقدمے میں کسی عام شہری یا کسی غریب کی گرفت ہوجائے تو اسے انصاف کے حصول کی چکی میں سالوں یا مہینوں پسنا پڑتا ہے۔ پاکستان میں امیر اور غریب کے فرق میں بڑھتے فاصلوں کی طرح کرمنل جسٹس سسٹم میں بھی یہ خلیج بڑی تیزی سے سرائیت کرتی جارہی ہے۔ 

آج کل کسی ڈھنڈورے کی طرز کے سوشل میڈیا، ڈیڑھ دہائی سے زائد عرصے سے پاکستان میں غالب الیکٹرونکس میڈیا اور ابھی تک پاکستان میں کسی نہ کسی طرح موثر پرنٹ میڈیا پر اس سلسلے میں کافی لے دے ہوتی رہی ہے۔ ابھی بھی کسی بھی ہائی پروفائل کسی کے ساتھ کرمنل جسٹس سسٹم کے حوالے سے بہت زیادہ گرما گرمی دیکھی جاتی ہے۔ مختلف حلقے اس سلسلے میں پولیس کو قصور وار ٹھہراتے نظر آتے ہیں، الزام ہوتا ہے کہ پولیس کی ناقص تفتیش کی بنا پر ملزمان کو رہائی ملی، پولیس کی ملی بھگت کا الزام عائد کرتے ہوئے بااثر ملزمان کو رعایت یا قانونی مراعات دینے کی بات کی جاتی ہے، وغیرہ وغیرہ۔ 

پولیس سے بات کریں تو،ماضی قریب میں سندھ پولیس کے نظام میں مختلف دورانیے میں مختلف نوعیت کی اہم انتظامی تبدیلیوں کے باوجود تھانہ کلچرل تبدیل یا شہریوں کو انصاف کے حصول میں حائل رکاوٹوں کو دور نہیں کیا جاسکا بلکہ یہ سلسلہ مزید پیچیدہ ہوتا محسوس ہورہا ہے۔ شہری قانونی اسفادہ سے دور ہوتے چلے جا رہے ہیں۔

اعلٰی پولیس حکام کی کوششوں کے باوجود پولیس کے شعبہ تفتیش کی ناکامی کا گراف بڑھتا جارہا ہے۔ جس کی بیشتر مثالیں حقائق کی صورت میں سامنے آتی ہیں۔ مثال کے طور پر پولیس کے شعبہ آپریشن کی کارکردگی دیکھیں تو آئے دن مختلف نوعیت کے اہم ملزمان کی گرفتاریوں کے دعوے ٹی وی اسکرین پر بریکنگ نیوز یا اخبارات میں شہہ سرخیوں کے ساتھ سامنے آتے ہیں۔ اس کے اگلے دن مذکورہ ملزمان کی عدالتوں میں پیشی یا عدالت سے جسمانی ریمانڈ کی خبر عام طور پر اس کیس کے حوالے سے شہریوں کیلئے آخری اطلاع ثابت ہوتی ہے۔

کوئی انتہائی غیرمعمولی کیس ہوتو چند دن بعد کوئی مزید خبر ان کی عدالت میں پیشی کی صورت میں سامنے آجاتی ہے اس کے بعد کیا ہوا؟؟ کسی کو کچھ پتہ نہیں ہوتا۔ چند ہفتوں یا مہینوں بعد یہ خبر سامنے آتی ہے کہ فلاں ملزم عدالت سے ضمانت حاصل کرنے میں کامیاب ہوگیا یا اسے مقدمے سے بری کردیا گیا۔ اس تمام صورتحال میں پس پردہ عوامل یا حالات کے بارے میں کسی کو کچھ خبر نہیں ہوتی۔

ملزم کو کس نے کیسے مقدمے سے نکل باہر کیا؟ یا اسے کس طریقے سے ضمانت مل گئی؟؟ یہ احوال یا رازداری صرف اس معاملے میں براہ راست ملوث افراد کے ہی علم میں ہوتی ہے مگر ایسے معاملات نامعلوم وجوہات کی بنا پر پس پردہ ہی رہتے ہیں۔ متعلقہ پولیس افسران تمام ملبہ عدالتی سسٹم پر ڈال دیتے ہیں کہ ملزمان عدالتوں نے ضمانتیں حاصل کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔ وکلاء کی ملی بھگت کو مورد الزام ٹھہرایا جاتا ہے لیکن اگر اس معاملے میں باریک بینی سے جائزہ لیا جائے تو کسی نہ کسی طرح قصور کیس سے متعلق تفتیشی افسر کا ہی نکلتا ہے۔  

یہ حقیقت ہے کہ بیشتر گرفتاریوں اور مقدمات کا خالق کسی بھی تھانے کا ایس ایچ او ہوتا ہے۔ وہ مقدمہ درج کرکے اسے تفتیش کیلئے شعبہ تفتیش کے انچارج کے حوالے کرتا ہے اور یہیں سے کسی بھی کیس کی پستی کا عمل شروع ہوجاتا ہے۔ ایک عام سی بات ہے کہ جس فریق کے خلاف قانونی چارہ جوئی کی گئی ہے متعلقہ پولیس افسر یعنی ایس ایچ او اس سے کسی بھی صورت رعایت نہیں کرتا لیکن اگلے مرحلے یعنی شعبہ تفتیش سے اسے ہر طرح کے ریلیف کی مکمل امید ہوتی ہے اور اکثر کیسز میں ایسا دیکھا گیا ہے کہ ملزم ’پرکشش موقف‘ پیش کرکے تفتیشی افسر کا دل موہ لینے میں کامیاب ہوجاتا ہے۔

ایس ایچ او اپنی کارکردگی دکھا چکا ہوتا ہے اس لئے اس کے بعد اس کے کیس یا ملزم کے ساتھ کیا ہوا؟ اسے اس سے کوئی سروکار نہیں ہوتا اور اکثر بیشتر ایس ایچ اوز کی طرف سے یہ جملے سننے کو ملتے ہیں کہ بھائی شعبہ تفتیش کا کام ہی کیسز کا ڈسپوزل کرنا ہے۔ تفتیشی افسر کو اپنے’اغراض و مقاصد‘ چاہیے ہوتے ہیں اس لیے وہ اپنے من پسند’انصاف‘ کو ترجیح دیتا ہے یعنی مبینہ ملی بھگت سے مقدمہ کی دفعات میں نرمی اس سلسلے کی شروعات ہوتی ہیں۔

اس کیس کی دفعات کم کردی جاتی ہیں، گرفتار ملزم کے اصل انکشافات کے مطابق مقدمے کا چالان تیار نہیں کیا جاتا، ملزم کے انکشاف کے عین مطابق جرم میں شریک دیگر ملزمان کو اس مقدمے میں شامل نہیں کیا جاتا،بیشتر کیسز میں دیکھا گیا ہے کہ عدم گرفتار ملزمان کو گرفتار کرنے کا خوف دلاکر بھاری رقوم چلی جاتی ہیں اور انہیں مقدمے سے تفتیش میں ہی فارغ کردیا جاتا ہے، عدم گرفتار ملزمان کو ضمانت کرنے کا پورا موقع فراہم کیا جاتا ہے۔ یہ تو چند ایک نکات ہیں عام نوعیت کے کیسز میں ایسا اور بہت کچھ کیا جاتا ہے جس کا فائدہ سراسر ملزم کو ملتا ہے۔ 

عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ تفتیشی افسر کو اس سے کوئی سروکار نہیں ہوتا کہ مقدمے کا مدعی پولیس افسر ہے۔ کیس کے گواہ بھی پولیس ملازمان ہیں، مقدمہ کی سنگینی کیا ہے؟ تفتیشی افسر کو کوئی غرض نہیں ہوتی کہ اس کی غیرقانونی تفتیش سے ملک، شہر یا معاشرے پر کیا اثرات مرتب ہوں گے؟ بیشتر پولیس افسر اپنے مبینہ اور ذاتی فائدے کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے کارروائی کر گزرتے ہیں۔ 

یہی نہیں اس سلسلے میں دوسرا بڑا کردار عدلیہ اور اس سے جڑے کرداروں کا ہے۔ بیشتر کیسز میں دیکھا گیا کہ ملزمان گرفتار کرکے ابھی تھانے نہیں پہنچتے کہ ان کے زرخرید کردار وکیلوں کے بھیس میں تھانے پہنچ جاتے ہیں۔ حالانکہ وکلاء کا کام عدالت کے اندر شروع ہوتا ہے لیکن بیشتر کیسز میں دیکھا گیا ہے کہ دہشت گرد، قبضہ مافیا، منشیات فروشوں یا دیگر جرائم پیشہ گروہوں نے کئی کئی وکلاء پے رول پر رکھے ہیں جو ان کی گرفتاریوں یا مقدمات میں انتہائی ایکسٹرا جوڈیشل کردار ادا کرتے ہیں۔ ایسے بیشتر عناصر کا عدالتی عملے سے بھی گٹھ جوڑ ہوتا ہے جو انصاف کے حصول یا ملزمان کو سزاؤں کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہیں۔ یوں پولیس کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق 40 سے 50 فیصد ملزمان ابتدائی مرحلے میں ہی مقدمات سے فارغ کرادیئے جاتے ہیں۔ اس حوالے سے مختلف اوقات میں مختلف سوالات اٹھتے رہتے ہیں۔ پولیس حکام کی تحقیقات کے دوران پولیس کے شعبہ تفتیش کی کارکردگی کے حوالے سے انتہائی گھمبیر اور چونکا دینے والے اعدادوشمار سامنے آئے ہیں۔ 

پولیس کیسز کی تحقیق کے دوران سال 2013 سے سال 2018 کے پانچ سال کے دوران مختلف مقدمات میں گرفتار 4939 ملزمان کی مرحلہ وار رہائی کا خلاصہ بیان کیا گیا ہے۔

اعداد و شمار کے مطابق مقدمات کے اندراج اور گرفتاری کے پہلے ہی ہفتے میں 717 ملزمان پولیس کی ناقص تفتیش، انویسٹی گیشن افسر کی مبینہ ملی بھگت یا اثر و رسوخ کی بنا پر ضمانت حاصل کرکے رہا ہونے میں کامیاب ہوگئے جبکہ 6 ملزمان مقدمات سے فارغ ہوئے۔ یوں 723 ملزمان کیس کی انتہائی ابتدائی نوعیت کی تفتیش کے دوران ہی رہا ہوگئے۔ یہ سلسلہ رکا نہیں۔ مقدمات میں عائد دفعات سنگین تھیں یا بعض قانونی پیچیدگیاں رکاوٹ بنیں کہ مزید ملزمان کو ضمانت پر رہا ہونے میں کچھ تاخیر ہوئی یوں دوسرے ہفتے میں 862 ملزمان نے ضمانت پر رہائی پالی۔

ملزمان کی گرفتاری کے تیسرے اور چوتھے ہفتے یعنی ایک مہینے کے اندر اندر مزید 1040 ملزمان نے رہائی حاصل کی۔  اعداد و شمار کے مطابق گرفتاری کے پہلے تین ماہ تک گرفتار ملزمان دھڑا دھڑ ضمانت حاصل کرکے رہائی پانے میں کامیاب ہوتے رہے۔ تین ماہ کے بعد ضمانت پر رہائی کے سلسلے میں کچھ کمی آئی اور تین سے پانچ ماہ کے دوران 504 ملزمان نے رہائی پائی اس دورانیے تک مقدمہ سے فراغت پانے والے ملزمان کی تعداد صفر رہی۔ 

تجزیاتی رپورٹ کے اعداد و شمار کے مطابق ابتدائی ہفتے میں 6 ملزمان کی مقدمے سے فراغت کے بعد اگلے 5 ماہ تک مزید کوئی ملزم کسی کیس سے فارغ نہیں ہوا بلکہ اگلے پانچ سے نو ماہ کے دورانیہ میں اچانک یہ سلسلہ شروع ہوا اور یکدم 414 ملزمان نے عدالتی چارہ جوئی کی بنا پر مقدمات سے فراغت پائی، اس عرصہ میں ضمانت پر رہائی حاصل کرنے والے ملزمان کی تعداد 70 ہے۔ 5 سے 9 ماہ کے دورانیے میں 484 ملزمان رہائی پاگئے۔ گرفتاری کے بعد 9 سے 12 ماہ 148 ملزمان مقدمہ سے فارغ ہوئے جبکہ ضمانت پانے والوں کی تعداد کم ہوکر 17 رہ گئی یعنی ایک سال کے اندر اندر سے 165 ملزمان رہا ہوگئے۔ اعداد و شمار کے مطابق ایک سے دو سال کے دوران مقدمہ سے فارغ ہونے والوں کی تعداد 174 اور ضمانت پر رہائی پانے والوں کی تعداد محض 11 تھی اور مجموعی رہائی پانے والوں کی تعداد 185 رہی۔ دو سے تین سال کے دورانیے میں 54 ملزمان مقدمہ سے فارغ ہوئے جبکہ دو نے ضمانت پر رہائی پائی۔ 

تین سے چار ماہ کے دورانیے میں 13 ملزمان مقدمات سے فارغ ہوئے جبکہ دو نے ضمانت پائی۔ چار سے پانچ ماہ کے عرصے میں بھی 13 ملزمان مقدمہ سے فارغ ہوئے جبکہ ضمانت پر رہائی پانے والوں کی تعداد صفر ہے۔ 

پولیس تحقیقات کے دوران یہ بھی ریکارڈ کیا گیا کہ مختلف سنگین نوعیت کے الزامات کے تحت ایک ملزم  کئی کئی بار گرفتار اور ضمانتوں پر رہا ہوا۔ یعنی وہ کسی واردات کے دوران پکڑا گیا پولیس کے ناقص یا اسی نوعیت کے مخصوص نظام کی وجہ سے ضمانت پر رہائی پائی۔ اس دوران اس کا کیس عدالت میں زیرسماعت تھا وہ اپنے گروہ کے ساتھ مل کر دوبارہ مجرمانہ سرگرمیوں میں بھی ملوث رہا اور پھر گرفتار ہوا۔ 

اس دورانیہ میں یہ بھی خاص طور پر نوٹ کیا گیا کہ عام نوعیت کے جرائم میں ملوث ملزمان نے مخصوص قسم کے وکلاء کی خدمات حاصل کر رکھی ہیں، وہ کسی ایک مخصوص علاقے میں ہی واردات کرتے ہیں، اس علاقے میں گرفتار کیے جانے کی صورت میں انہیں مخصوص پولیس افسران سے رعایت حاصل کرتے ہیں اور پیشہ ور کے طور پر اپنی مجرمانہ سرگرمیوں کو جاری رکھتے ہیں۔ لمحہ فکریہ ہے کہ یہ سلسلہ ناصرف جاری ہے بلکہ اس سے جڑے کردار کتنے بھی ایماندار ہوں تھک ہار کر اس کا حصہ بننے پر مجبور ہوتے جارہے ہیں۔

تازہ ترین