• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کسی بھی ریاست میں قومی معیار زندگی میں مسلسل اضافے کے دسیوں ذرائع ہوتے ہیں جو بہتر سماجی تبدیلی میں اپنا اپنا کردار ادا کرتے ہیں۔ ان Change Agents (تبدیلی کے ذرائع) میں سب سے بڑا ذریعہ خود حکومت ہوتی ہے۔ جمہوری ریاست میں ایک ملک گیر سیاسی جماعت (بعض صورتوں میں اس کی معاون سیاسی جماعتیں) پارلیمنٹ کا غالب حصہ، انتظامی اختیارات سے لیس وسیع تر انتظامیہ اس کی پشت پر ہوتی ہیں۔ سب سے بڑھ کر حکومت کو حاصل عوام کا مینڈیٹ۔ یہ عوامی تائید اصل میں کسی پروگرام اور حکمران سیاسی جماعت کی اس کمٹمنٹ پر اسے حاصل ہوتی ہے، جو وہ عوام سے قبل از انتخاب کرتی ہے۔ اپنی اس بھرپور حیثیت کے ساتھ حکمران جماعت مکمل طور پر اس پوزیشن میں ہوتی ہے کہ وہ عوام کی بنیادی قابل فہم اور پوری ہونے والی ضرورتوں کا اندازہ لگا کر انہیں ترجیح بہ ترجیح پورا کرے۔ اسی کے نتیجے میں مسلسل تبدیلی کا عمل ترقی جاریہ کی شکل میں جاری و ساری رہتا ہے۔
وائے بدنصیبی پاکستان میں پانچویں بار اقتدار میں آنے والی پیپلز پارٹی، تبدیلی و ترقی کے اس عمل سے کوسوں دور ہے۔ بطور چینج ایجنٹ یہ بری طرح ناکام و نامراد ہو چکی ہے۔ یہ تبدیلی کے برعکس سٹیٹس کو کی ایجنٹ بن کر رہ گئی ہے کیونکہ اسی طرح بطور حکمراں جماعت اپنے ناخداؤں اور جیالوں کے لئے کرپشن کا بازار گرم کرتی ہے۔ سماجی پسماندگی کی طاقت کی بنیاد پر 5 بار برسر اقتدار آنے والی جماعت اسی ذہنیت اور کردار کے باعث قدرتی وسائل اور اعلیٰ انسانی صلاحیتوں سے مالا مال پاکستان کو اپنے قیام کے 65 سال بعد بھی دس روگ لگے ہوئے ہیں، جو ہماری ترقی اور سماجی تبدیلی کے مطلوب عمل مسلسل میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ جاگیردارانہ جمہوریت کی پجاری اس جماعت نے اپنے سفر کا آغاز بڑے عوامی انقلاب، ترقی پسندی اور مساوات محمدی کے نعروں سے چالیس سال قبل کیا تھا، آج اس کی ترقی کا حاصل یہ ہے کہ جاگیردارانہ جمہوریت کے مسلسل فروغ کے بعد ملک کو دس روگ لگانے والی یہ جماعت بھٹو خاندان سے زرداری خاندان کے ہتھے چڑھ گئی ہے۔ اختتام الپذیر اقتدار کی پانچویں باری (بمطابق آئین) مکمل کر چکی ہے تو ملکی قومی معیشت اور معمول کی سماجی زندگی کو قائم دائم رکھنے والا انرجی سیکٹر حکومتی کرپشن کا شکار ہو کر برباد ہو چکا ہے، عوام کو آمدورفت کی سہولت مہیا کرنے والی ریلوے، پبلک ٹرانسپورٹ اور پی آئی اے آدھ موئے ہو چکے ہیں۔ جاتے جاتے حکومت ہائر ایجوکیشن کمیشن کی خود مختاری غصب کر کے اسے جاگیردار سیاست دانوں کے تابع کرنے پر تلی بیٹھی ہے۔ اس پر وقفے وقفے سے طرح طرح کے حملے کئے جا رہے ہیں۔ کبھی اسے روایتی وزارتوں اور سرکاری محکموں کی طرح کرپٹ حکمرانوں کی وفا دار بنانے کے لئے خلاف قانون ہتھکنڈے استعمال کئے جاتے ہیں تو کبھی اعلیٰ تعلیم و تحقیق کے اس خود مختار قومی ادارے کو جیالا ازم مسلط کرنے کی دھمکیاں دی جا رہی ہیں۔ اس کی خود مختاری کو ختم کرنے کے لئے حکومت مسلسل سازشوں پر تلی ہوئی ہے۔ پیپلز پارٹی کو اپنے پورے اقتدار میں دہشت گردی پر قابو پانے کے لئے تو قانون سازی کرنے کا ہوش نہیں آیا، نہ ہی سماج میں کوئی بہتر تبدیلی لانے اور عوامی ضرورتوں کے آسان حصول کے لئے کوئی قانون سازی ہوئی۔ اب اسے جاتے جاتے اپنی جاگیردارانہ جمہوریت کو تحفظ دینے کے لئے قانون سازی کی سوجھی ہے۔ جس طرح ملک میں احتساب کے عمل کو کمزور کرنے کے لئے رائج احتساب آرڈیننس کی جگہ نیا لیکن غیر موثر احتساب ایکٹ منظور کرانے اور جنوبی پنجاب کو نیا صوبہ بنانے کے لئے قانون سازی اور آئین میں ترمیم کے لئے بے تاب ہے، اسی طرح اب وہ اسمبلیوں میں بیٹھے ان 393 پارلیمنٹیرین کو جعلسازی کے الزام سے بچانے کے لئے ایچ ای سی کے نظم و نسق اور خود مختاری کو تبدیل کرنے والا قانون منظور کرانا چاہتی ہے۔ اس سے قبل غیر قانونی مداخلت سے ایچ ای سی کے قابل اور مسلسل ڈلیور کرنے والے ڈائریکٹر جنرل کو ہٹا کر ان کی جگہ دیدہ دلیری سے جیالا بٹھانے اور ایچ ای سی میں جیالے گھسانے کا ہتھکنڈہ استعمال کیا گیا ہے۔ ایچ ای سی کے ارباہا روپے کے ترقیاتی و تحقیقاتی فنڈز پر بھاری کٹوتی لگا کر اسے برسوں پہلے کنٹریکٹ پر کام کرنے والے جیالوں کی بحالی پر ایئریز کی رقوم میں منتقل کرنے کا کام تو موجودہ حکومت نے اقتدار سنبھالتے ہی کر دیا تھا 70 کے عشرے میں اپنی ہی حکومت کے طرز کی جو انتقامی کارروائیاں ایچ ای سی کے موجودہ چیئرمین ڈاکٹر لغاری کے ساتھ کی گئیں وہ پیپلز پارٹی کی جاری حکومت کا سیاہ باب ہے۔ اب جس قانونی مسودے کو پارلیمنٹ سے منظور کرا کر حکومت جاتے جاتے ایچ ای سی کو حکومت کا باجگزار بنانا چاہتی ہے، اس کی فقط وجہ یہ ہے کہ ہائر ایجوکیشن 393 پارلیمنٹرین کی جعلی اسناد کو کلیئر کرنے پر کسی طور تیار نہیں۔ یہ وہ پارلیمنٹرین ہیں جو مشرف دور میں انتخابی امیدوار بننے کے لئے گریجویٹ کی پابندی کے باعث بی اے کی جعلی ڈگریاں الیکشن کمیشن میں جمع کرا کر جعلسازی کے مرتکب ہوئے۔ اگرچہ امیدواری کی اہلیت کی یہ شرط 18 ویں ترمیم میں ختم کر دی گئی، لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مشرف دور میں جن لوگوں نے جعلی پاسپورٹ، شناختی کارڈ، یا دوسری سرکاری دستاویزات تیار کرائیں، کیا انہیں کلیئر کر دیا گیا، جعلسازی، جعلسازی ہوتی ہے، خواہ یہ مشرف کے دور میں ہو یا زرداری کے۔ ممبر پارلیمنٹرین بھی جعلسازی پر اتنا ہی بڑا مجرم ہے جتنا عام آدمی لیکن پیپلز پارٹی صرف جعلسازی کے الزام میں ملوث (جن کی اکثریت پی پی کی ہے) کو کلیئر کرانے اور آئندہ انتخاب میں پھر انہیں ہی امیدوار بنانے کے لئے ایچ ای سی پر مطلب کی قانون سازی کے لئے بے چین ہے۔ اس پر ایچ ای سی کے بانی اور اعلیٰ تعلیم کو معیار اور وسعت عطا کرنے والے ڈاکٹر عطاء الرحمن سراپا احتجاج ہیں اور ملک بھر کے وائس چانسلر صاحبان اور یونیورسٹیوں کے اساتذہ بھی۔ اس صورتحال کے بعد دیکھنا یہ ہے کہ اپوزیشن پیپلز پارٹی کے اس تعلیم دشمن اقدام کو کس طور لیتی ہے۔ ابھی تک تو اس کی جانب سے کوئی قابل ذکر رپانس آیا نہیں۔ اس کوخاموشی نیم رضا کے معنوں میں نہ لیا جائے؟ اعلیٰ تعلیم و تحقیق کے لئے اس بڑے چیلنج پر مسلم لیگ (ن) کو اپنی زبان بندی بالآخر ختم کرنا ہو گی اگر حکومت اس حوالے سے اپنے تعلیم دشمن حربے میں کامیاب ہو گئی تو کوئی بعید نہیں کہ ملک بھر کی یونیورسٹیوں کے اساتذہ، آزاد عدلیہ کے قیام کے لئے وکلاء کی طرز پر ملک گیر تحریک چلا دیں کہ تمام ملکی یونیورسٹیوں کے اساتذہ اعلیٰ تعلیم کے کمیشن اور جامعات کی خود مختاری پر مکمل متفق اور متحد ہیں سو، اپوزیشن کو بلاتاخیر اس اہم قومی مسئلے پر اپنا موقف سامنے لانا ہو گا۔
تازہ ترین