• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ملک کے معاشی حالات جتنے خراب ہیں حکومت انہیں بہتر بنانے کے لئے اتنی ہی تندہی اور تیزی سے ضروری اقدامات کر رہی ہے اور وزیراعظم عمران خان اور ان کی معاشی ٹیم خرابیوں کی تمام تر ذمہ داری سابقہ حکومتوں پر عائد کرتے ہوئے پورے یقین کے ساتھ مستقبل میں ان اقدامات کے مثبت نتائج کی پیشگوئی کر رہی ہے۔ان میں سے کچھ اقدامات کی جھلک وفاقی بجٹ میں بھی نظر آتی ہے جس کے پانچ بنیادی عناصر، بیرونی اکائونٹ میں بہتری، کفایت شعاری، سماجی تحفظ، صنعتوں کی مدد اور محصولات میں اضافہ گنوائے گئے ہیں، مشیرخزانہ حفیظ شیخ نے اتوار کو وزیر مملکت برائے محصولات حماد اظہر، معاون خصوصی اطلاعات ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان اور چیئرمین ایف بی آر شبر زیدی کے ہمراہ اسلام آباد میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے خاص طور پر محصولات میں اضافے اور وصولی کے لئے سخت اقدامات جاری رکھنے کے عزم کا اظہار کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کے امیر افراد دنیا اور خطے کے دوسرے ملکوں کے دولت مند افراد کے مقابلے میں بہت کم ٹیکس دیتے ہیں۔ بجٹ میں مقرر کردہ 5550 ارب روپے کے ہدف کو پورا کرنے کے لئے ان سے ٹیکس لینے کے سوا کوئی چارہ نہیں، انہوں نے ٹیکس ایمنسٹی سکیم (اثاثہ جات ڈیکلیریشن) کی میعاد میں 3جولائی تک توسیع کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ بے نامی قانون پر عملدرآمد کے لئے کمیشن تشکیل دے دیا گیا ہے جو جائیدادیں ظاہر نہ کرنے والوں کا تعاقب کرے گا اور نادہندگان کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی ۔پریس کانفرنس میں بتایا گیا کہ ایمنسٹی سکیم سے ٹیکس نیٹ میں نئے لوگ شامل ہوئے ہیں اور اب تک ایک لاکھ درخواستیں آچکی ہیں، تاجروں، خوردہ فروشوں، ڈاکٹروں اور انجینئروں کو ٹیکس نظام میں لارہے ہیں۔ نیز بجٹ میں روزمرہ اشیا پر ٹیکس نہیں لگایا گیا۔ منی لانڈرنگ روکنے کے لئے کسٹمز کے چیف کلیکٹرز کو خصوصی اختیارات دیئے گئے ہیں، گردشی قرضے کم اور درآمدات و برآمدات میں فرق دور کرنے کے لئے اقدامات کئے جا رہے ہیں حکومت کی معاشی ٹیم نے ملک کے اقتصادی بحران پر قابو پانے کے لئے جن اقدامات کا ذکر کیا ان کے حق میں بہت کچھ کہا جار ہا ہے اور مخالفین انہیں تنقید کا نشانہ بھی بنا رہے ہیں خصوصاً بعض فیصلوں کے نتیجے میں مہنگائی کے طوفان کا اعتراف خود حکومتی حلقے بھی کر رہے ہیں اسی روز حکومت نے پیٹرولیم مصنوعات کے نرخ برقرار رکھنے کا اعلان کیا مگر ساتھ ہی پیٹرول ڈیزل اور مٹی کے تیل پر سیلز ٹیکس کی شرح بڑھا کر17فیصد کر دی جس سے نرخ بالواسطہ طور پربڑھ جائیں گے ۔ گھریلو اور کمرشل صارفین کے لئے گیس مزید مہنگی کردی گئی ہے، جبکہ یہ بھی کہا جارہا ہے کہ عالمی سطح پر تیل کی قیمت میں اضافہ ہوا تو بجلی کی قیمتیں مزید بڑھانا پڑیں گی۔ حکومت کی نیت پر شبہ نہیں کیا جا سکتا مگر یہ کہنا درست نہیں کہ ٹیکسوں کے نفاذ سے عام آدمی پر کوئی اثرنہیں پڑے گا۔ عام آدمی ا پنی ضرورت کی جو بھی اشیاء خریدتا ہے ان پر پہلے ہی سیلز ٹیکس نافذ ہے، اب تاجر، دکاندار قیمتیں اور ڈاکٹر انجینئرفیسیں بڑھا دیں گے جن کا بوجھ امیر غریب سب پر پڑے گا، پیٹرولیم مصنوعات پر سیلزٹیکس بڑھنے سے ٹرانسپورٹ کے کرائے بڑھ جائیں گے اور اس کا اثر روز مرہ استعمال کی اشیا پربھی پڑے گا۔ ا س میں کوئی شبہ نہیں کہ حکومت ایک نئی اور انقلابی سوچ کے تحت معاشی اقدامات کر رہی ہے جو موجودہ مشکل حالات میں ضروری بھی ہیں لیکن کچھ صورتوں میں شاید بعض صنعتوں اور کاروباری لوگوں کی مشکلات کا اندازہ کئے بغیر ٹیکس لگائے گئے ہیں جن کی وجہ سے وہ مزاحمت کر رہے ہیں اس حوالے سے فیصل آباد میں چمڑے کے کارخانے بند ہونے سے مبینہ طور پر دس لاکھ کارکنوں کے بے روزگار ہونے کا خدشہ اور آل پاکستان شوگر ڈیلرز و ہول سیلرز ایسوسی ایشن کی جانب سے شوگر ملوں سے چینی کی خرید اور ا س کی سپلائی بند کرنے کا فیصلہ توجہ طلب ہے حکومت کی اقتصادی ٹیم کو معاشی اقدامات ضرور کرنے چاہئیں مگر ان کے تمام پہلوئوں پر نظر رکھنی چاہئے۔

تازہ ترین