• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

الحمدللہ! کل یکم جولائی تھی، نئے مالی سال کا پہلا دن۔ قومی اسمبلی نے وسیع تر قومی مفاد پر مکمل عبور رکھنے والی دانشمند قیادت کی نفیس، ماہرانہ اور فیصلہ کن رہنمائی میں جو بجٹ منظور کیا ہے، وہ کل سے نافذ العمل ہو گیا۔ اہل پاکستان خوشی سے پھولے نہیں سما رہے، خارجی اور داخلی صورت حال ہر زاویے سے امید افزا ہے، توانائی کا ایک خوشگوار احساس قوم کے رگ و پے میں دوڑ رہا ہے۔ کاروباری طبقہ کامیابی کے نت نئے منصوبے بنا رہا ہے۔ مختلف شعبوں سے محض دس لاکھ کام چور افراد کی چھانٹی کے بعد تنخواہ دار طبقے کے لئے روزگار کے ان گنت دروازے کھل رہے ہیں۔ محنت کش گھرانے کے دسترخوان پر خوراک کی رسد ایک پرکیف منظر پیش کر رہی ہے۔ اسے شفاف حکومت کی برکت کا ادنیٰ روحانی تصرف سمجھنا چاہیے کہ پیٹرول، گیس، بجلی اور اشیائے ضرورت کی قیمتوں میں اضافے کے باوجود نادار طبقے پر کسی قسم کا معاشی بوجھ نہیں پڑا۔

کرپٹ اور چور اپوزیشن کی صفوں میں انتشار ہے۔ صوفیا کے ملامتی مسلک سے تعلق رکھنے والے متعدد منتخب ارکان جو اب تک محض نفس کشی کی غرض سے چوروں لٹیروں کی صفوں میں موجود تھے، جوق در جوق اسلام آباد کے مرکز انوار کی طرف رواں دواں ہیں۔ ملکی دولت لوٹنے والے حقیقی مجرم گرفتار ہو چکے۔ خفیہ اثاثے ظاہر کرنے کی توسیعی مدت گزرتے ہی زیر زمیں دولت چھپانے والے باقی ماندہ افراد بھی قانون کی گرفت میں آ جائیں گے۔ معاشی صورت حال اس قدر حوصلہ افزا ہے کہ حکومت نے اگلے برس کے لئے محصولات کے ہدف میں ایک تہائی اضافہ کر دیا ہے۔ کچھ بدخواہ سوال اٹھا رہے ہیں کہ اگر درآمدات کم ہو جائیں گی اور برآمد کرنے کو کچھ ہو گا نہیں تو محصولات کا حجم مزید گر جائے گا۔ یہ عاقبت نااندیش نہیں جانتے کہ گزشتہ دس برس میں پے در پے دو بدعنوان حکومتوں کے مدارالمہام قومی وسائل سے اپنی جیبیں بھرتے رہے چنانچہ محصولات کا حقیقی تخمینہ ممکن نہیں تھا۔ اب ایک دیانت دار حکومت میں بدعنوانی کی گنجائش ختم ہونے کے باعث محصولات کسی خوردبرد کے بغیر قومی خزانے میں پہنچیں گے تو کچھ بعید نہیں کہ محض 5500 ارب روپے کا ہدف غبار راہ کی صورت کہیں بہت پیچھے رہ جائے۔ اس رجائیت کی ایک اہم وجہ یہ بھی ہے کہ گزشتہ حکومتوں، بالخصوص دو تین گھرانوں کی لوٹ مار کے باعث ایک ڈالر کے بدلے محض 100 روپے مل رہے تھے۔ نئی حکومت کے ابتدائی دس ماہ میں روپے نے اس قدر ترقی کی ہے کہ اب ایک ڈالر کے بدلے 160 روپے مل رہے ہیں۔ اہل نظر سمجھ سکتے ہیں کہ اس سے قومی دولت میں کس تیز رفتاری سے اضافہ ہو رہا ہے۔ یہ اجل دیدہ، پدر سوختہ سیاسی ٹولہ اس گمان میں تھا کہ پانچ پانچ برس کے وقفے سے باریاں لیتا رہے گا اور ملک کی کھیتی اجاڑتا رہے گا۔ ایسے کوتاہ اندیشوں کے لئے اہل فارس ایک بھلا سا محاورہ استعمال کرتے ہیں، تدبیر کنند بندہ، تقدیر کنند خندہ۔ لفظی ترجمہ ضرور کیا جاتا لیکن اس بیچ میں انتظار حسین یاد آ گئے، خلد آشیانی نے فرمایا کہ مدینہ ہمارا خواب ہے اور کوفہ ہماری تقدیر۔ تو صاحبو، باریاں تو مقرر ہیں، آج تم، کل ہماری باری ہے۔ لیکن میعاد پر توجہ فرمائیے۔ پانچ نہیں، دس برس کا گمان ہوتا ہے، گن جائیے، 58، 69، 77، 88، 99 علیٰ ہذا القیاس، باقی کا حساب خود جوڑ لیجئے۔ وضع داری بھی کوئی چیز ہوتی ہے۔

نئے پاکستان میں دیانت نسیم صبح کے لطیف جھونکوں کی طرح دلوں کو چھو رہی ہے۔ قومی تعمیر کی دوڑ میں ایک دوسرے سے آگے نکلنے کا صحت مند جذبہ مقابلے کی فضا پیدا کر رہا ہے۔ چنانچہ ایک آئینی ادارے نے دعویٰ کیا ہے کہ دوسرے اداروں کی کارکردگی مایوس کن ہے جب کہ اس کی کارکردگی کا گراف اگلے پچھلے ریکارڈ توڑ رہا ہے۔ میڈیا کی مستعدی اور فعالیت دیکھ کر اس توندیل شخص کا خیال آتا ہے جس نے دن رات مسلسل دوڑ کر سب اضافی چربی ختم کر لی ہے۔ کچھ بے کار صحافتی ادارے بند ہو گئے ہیں، نکمے اور لفافہ صحافی بیک بینی دو گوش نکال باہر کئے گئے ہیں۔ باقی میڈیا ہلکا پھلکا ہو کر سبک خرامی سے مثبت خبروں کی صورت میں مضامیں نو کے انبار لگا رہا ہے۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ اب ہم دنیا کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کر رہے ہیں۔ اتنی معمولی بات تو آپ کو ایک پولیس انسپکٹر بھی بتا سکتا ہے کہ جس کے دل میں چور ہوتا ہے، وہ مخاطب سے آنکھیں ملانے کی تاب نہیں لا سکتا، آنکھوں میں آنکھیں ڈالنا تو صفائے قلب کا وہ درجہ ہے جس کے لئے ملک کے اندر ہی نہیں، باہر بھی ایک پیج پر ہونے کی ضرورت پیش آتی ہے۔ دل پر ہاتھ رکھ کے کہیے، ادھر بجٹ منظور ہوا، ادھر واشنگٹن سے آواز آئی کہ صاحب آئیے، تین جولائی کو ماحضر تناول فرمائیے۔ اور جو نان نفقہ آپ سے طے پایا تھا، اس کا توڑا آپ کے ہمراہ کر دیا جائے گا۔

جیسا کہ آپ نے اظہر من الشمس حقائق پر مبنی درج بالا سطور نہایت تحمل سے ملاحظہ کیں، اس سے یہ تو معلوم ہو گیا کہ آپ میں برداشت کی صفت بدرجہ اتم پائی جاتی ہے۔ تو چلئے ڈیڑھ بات آرتھر کوئسلر(Arthur Koestler) کی ہو جائے۔ کوئسلر صاحب ایک وارفتہ طبع صحافی، سیاسی کارکن، فلسفی اور ادیب تھے۔ 1905ء میں ہنگری کے یہودی گھرانے میں پیدا ہوئے، آسٹریا میں پلے بڑھے۔ اسرائیل کی ابتدائی آباد کاری میں شریک تھے۔ کمیونسٹ ہوئے، منحرف ہوئے۔ نازی عقوبت خانے کی یاترا کی۔ پھر انگلینڈ میں بس گئے۔ Darkness at Noon (ظلمت نیم روز) نامی ناول سے شہرت پائی۔ Sleep Walkers نامی داستان میں بھی بہت کچھ ہمارے سمجھنے کو لکھا ہے۔ مگر آپ سے درخواست ہے کہ کوئسلر کے مضامین کا مجموعہ ’جوگی اور کمسیار‘ کہیں سے ہاتھ آئے تو ضرور پڑھیے۔ خوش عقیدہ مخلوق کو مطیع کرنے کے ریاستی نسخوں کا بہت عمدہ بیان ہے۔ ساٹھ کی دہائی میں ہلال احمد زبیری نے اسے اردو میں ترجمہ کیا تھا۔ اس کتاب کی دستیابی شاید آسان نہ ہو، تو اس بیچ قتیل شفائی کے دو شعر سن لیجئے۔ ہمارا تمہارا خدا بادشاہ۔

کچھ لوگ خضر کے ساتھ چلے تھے دریا کرنے پار

وہ پانی میں ڈوب گئے اور میں حیرانی میں

ہم کو ملے ہر بار، نمک سے بنے ہوئے پتوار

اک جیسا انجام تھا اپنا ہر طغیانی میں

تازہ ترین