• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

نام سے کیا فرق پڑتا ہے، کوئی بھی نام رکھ لیں، پٹواری کہہ لیں یا پھر لفافہ صحافی۔ سوشل میڈیا پر بہادری سے دشمن کا مقابلہ کر رہے جوان مجھے اسی نام سے پُکارتے ہیں۔ میں شروع سے لفافہ صحافی ہرگز نہ تھا۔ بس چند ہی برس میں دیکھتے دیکھتے تبدیلی کی لہر اُٹھی تو میری ساکھ کو خس و خاشاک کی مانند بہا کر لے گئی۔ یوں تو ہر آنے والی حکومت سے میرے تعلقات کشیدہ رہے کیونکہ تنقید کسی کو نہیں بھاتی۔ ہر حکومت چاہتی ہے کہ اہل قلم تب جابر سلطان کے سامنے کلمہ حق کہیں جب ان کی مخالف سیاسی جماعت برسر اقتدار ہو بصورت دیگر ان سے پیشگی اجازت لئے بغیر کلمہ حق کہنے سے گریز کیا جائے۔ بالعموم اپوزیشن جماعتوں کی طرف سے حکومت کی تعریف و توصیف کرنے والے صحافیوں کو شک کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا اور دبے لفظوں میں کہا جاتا تھا کہ یہ جو سب اچھا کی رپورٹ دے رہے ہیں، یہ حکومت کے وظیفہ خوار ہیں مگر نئے پاکستان میں حکومتی جماعت کے لوگ لفافوں کا شور برپا کئے ہوئے ہیں۔ وہ سب صحافی جو مثبت رپورٹنگ کا قومی فریضہ ادا کرنے سے قاصر رہے، انہیں بلاتخصیص لفافے کا خطاب دیدیا گیا ہے۔ آپ سوچ رہے ہوں گے کہ حکومت جو خود لفافے تقسیم کرتی اور مختلف طبقات کی حمایت خریدتی ہے، وہ کسی صحافی پر کیسے لفافہ صحافی کا بہتان لگا سکتی ہے۔ یوتھیا لاجک مگر یہ ہے کہ پٹواری صحافیوں کے لفافے حکومت نے بند کر دیئے ہیں، اس لئے ان کی چیخیں نکل رہی ہیں۔ اگر عمران خان کے پیروکار پورا سچ بیان کریں تو حقیقت یہ ہے کہ صرف خیالی لفافے ہی بند نہیں ہوئے بلکہ حقیقی تنخواہ بھی بند ہو گئی ہے۔ اچھے خاصے مستحکم اداروں میں بھی 6,6ماہ سے تنخواہیں نہیں مل رہیں۔ یقیناً صحافیوں کو بیروزگار کرنے، تنخواہیں بند کرنے اور بھوکے مارنے کا کریڈٹ کپتان کو ہی جاتا ہے یا پھر اسے وزیراعظم بنانے والوں کو۔

میں وعدہ معاف گواہ بن کر ایسے راز آشکار کرنے کو تیار ہوں جو اس سے قبل کسی کو معلوم نہ تھے۔ مثال کے طور پر سب سے بڑی اڑچن یہ ہے کہ لفافہ صحافیوں کی پہچان کیسے ممکن ہے؟ لفافہ صحافیوں کے سر پر سینگ نہیں ہوتے، وہ بھی عام صحافیوں جیسے ہی ہوتے ہیں مگر کچھ ایسی علامات اور نشانیاں ہیں جن سے انہیں پہچانا جا سکتا ہے۔ مثال کے طور پر اگر کوئی صحافی عمران خان، اسد عمر یا پی ٹی آئی کے کسی بھی رہنما کا کوئی پرانا کلپ، پرانے اخباری بیانات اور ٹویٹس شیئر کرتا ہوا پایا جائے تو سمجھ لیں کہ لفافہ بول رہا ہے۔ اگر کوئی صحافی یہ کہہ کر آپ کے معصوم ذہنوں پر اثر انداز ہونے کی کوشش کرے کہ سرمایہ کاری نہیں ہو رہی، صنعتیں بند پڑی ہیں، ڈالر کے نرخ بڑھ رہے ہیں، مہنگائی میں اضافہ ہو رہا ہے، حکومت بہت زیادہ قرض لے رہی ہے، اسٹاک ایکسچینج بیٹھ گئی ہے، ٹیکس وصولی کا ہدف پورا نہیں ہو سکا تو اس کی باتیں ایک کان سے سن کر دوسرے کان سے نکال دیں کیونکہ اس طرح کا پروپیگنڈا کرنا لفافہ صحافیوں کی دوسری بڑی نشانی ہے۔ کچھ کالم نگار اور تجزیہ کار بہت مہذب اور سلجھے ہوئے انداز میں بات کرکے اپنے اندر کا پٹواری چھپانے کی کوشش کرتے ہیں، یہ غیر جانبداریت کا تاثر دینے کے لئے کبھی اپوزیشن پر بھی ہلکی پھلکی تنقید کرتے پائے جاتے ہیں مگر آپ کسی مغالطے کا شکار نہ ہوں، یہ بہت منجھے ہوئے تجربہ کار لفافہ صحافی ہیں۔ انہیں ایک باریک نکتے سے پکڑا جا سکتا ہے۔ یہ جب بھی کوئی بات کریں گے ان کی تان جمہوریت اور سویلین بالادستی پر آکر ٹوٹے گی۔ پس ثابت ہوا کہ یہ بھی لفافہ صحافی ہیں۔ لفافہ صحافیوں کی ایک اور عمومی نشانی یہ ہے کہ تنقید کا کوئی اور پہلو میسر نہ آئے تو کپتان کی تقریروں میں سے کیڑے نکالتے ہوئے پائے جاتے ہیں یا پھر سابقہ فیصلوں سے رجوع کرنے کو یوٹرن کا نام دیکر بھد اُڑانے کی کوشش کرتے ہیں۔

صحافیوں کی ایک اور قسم لفافوں سے بھی کہیں زیادہ شر انگیز اور خطرناک ہے۔ یہ کپتان کو کٹھ پتلی قرار دیتے ہیں اور حکومت کی ناقص کارکردگی کی آڑ لیکر اداروں پر تنقید کرتے ہیں۔ ان آستین کے سانپوں کو غدار نہ کہا جائے تو کیا کہا جائے۔ یہ سب این ڈی ایس، را، خاد، ایم آئی فائیو، موساد، کے جی بی اور سی آئی اے کے ایجنٹ ہیں۔ بالفاظ دیگر آپ انہیں انٹرنیشنل لفافہ صحافی کہہ سکتے ہیں جو روپوں میں نہیں بلکہ ڈالروں، پائونڈز اور یورو میں لفافے وصول کرتے ہیں۔

میرے ضمیر پر ایک عرصہ سے بوجھ تھا، سوچا کیوں نہ اعتراف جرم کرکے دل کا بوجھ ہلکا کیا جائے۔ میں سکہ بند لفافہ صحافی ہوں اور بعض لوگ تو مجھے انٹرنیشنل لفافہ صحافیوں میں بھی شمار کرتے ہیں۔ اب تک میں اس دعوے کو جھٹلاتا آیا ہوں مگر آج ایک شرط پر یہ طوق برضا و رغبت اپنے گلے میں ڈالنے کے لئے تیار ہوں۔ اور وہ شرط یہ ہے کہ براہ مہربانی آپ لفافہ ارسال کرنے والوں کو درست پتا اور صحیح بینک اکائونٹ بتا دیں کیونکہ غلط معلومات کے سبب آج تک مجھے پھوٹی کوڑی نہیں ملی۔ جب سوشل میڈیا پر لفافہ صحافی کی تکرار ہونے لگی تو میری بیوی بھی ان باتوں میں آگئی اور چپکے سے میرا بینک اکائونٹ نوٹ کرکے بیلنس چیک کرنے جا پہنچی۔ بینک جاکر معلوم ہوا کہ چھ ماہ سے تنخواہ نہیں آئی اور اکائونٹ میں محض 216روپے موجود ہیں۔ گھر آکر اس نے سچ اگلوانے کی پوری کوشش کی مگر میں لفافہ صحافی ہونے سے انکار کرتا رہا۔ بیویاں شوہر کی بات پر اعتبار کم ہی کرتی ہیں مگر کچھ پس و پیش کے بعد اسے میری بات پر یقین آگیا تو کہنے لگی، آپ نے سویلین بالادستی کا علم بلند کرکے کیا حاصل کرلیا، گھر میں غربت کے ڈیرے ہیں، اکثر آپ کے کالم ناقابلِ اشاعت قرار پاتے ہیں، جان ہتھیلی پر ہے، ہر وقت دھمکیاں ملتی رہتی ہیں، چھوڑیں یہ سب اور یوتھیوں کی صف میں شامل ہو جائیں۔ سچ پوچھیں تو یہ باتیں سن کر میرے قدم ڈگمگا گئے ہیں اور میں یہ سوچنے پر مجبور ہو گیا ہوں کہ یوتھیا بننے کا کام مشکل ضرور ہے مگر ناممکن تو نہیں۔ اگر میں سب معاملات کو قومی مفاد کی عینک سے دیکھنا شروع کر دوں تو سب ہرا دکھائی دے گا۔ کبھی کوئی کالم ناقابلِ اشاعت قرار نہیں پائے گا، زندگی آسان ہی نہیں خوشحال بھی ہو جائے گی، تنخواہ نہ بھی ملے تو میں سرکاری وظیفے پر اپنے ہم عصر صحافیوں پر لفافے لینے کا بہتان لگاتا رہوں گا، دھمکیوں اور ہر قسم کے خطرات وخدشات سے جان چھوٹ جائے گی۔ اور پھر میرے راہ راست پر آجانے سے ملک ترقی کرتا ہے تو یہ قربانی دینے میں حرج ہی کیا ہے؟ میں نے کبھی کوئی فیصلہ قارئین کی مشاورت کے بغیر نہیں کیا، اس لئے آپ کی رائے درکار ہے۔ آپ سب دوستوں سے التماس ہے کہ فدوی کو درپیش ناگفتہ بہ معاشی حالات اور ناخوشگوار واقعات کو ذہن میں رکھتے ہوئے قابلِ قدر مشورے سے نوازیں۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین