• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یہ انیس سو تراسی کا کوئی ادب پروردہ دن تھا۔میں اپنی کتاب ’’آفاق نما‘‘ کا فلیپ لکھوانے کےلئے احمد ندیم قاسمی کے پاس لاہور گیا ہوا تھا۔وہاں خالد احمد نے مجھے میانوالی کی ایک شاعرہ لیلیٰ نیازی کا شعر سنایا۔

مجھے تو کوئی غم نہیں میں خوش ہوں دیکھ لیجئے

مگر کسی کا ذکر کیوں مرے ہی سامنے چھڑے

میانوالی واپس آیا تو میں نے لیلی نیازی کی تلاش شروع کردی۔کافی تگ ودو کے بعد پتہ چلا کہ یہ اشرف سنبل نام کی ایک خاتون ہیں جو لیلیٰ نیازی کے قلمی نام سے لکھتی ہیں۔کافی سالوں کے بعد مجھے پھرکسی نے کہا کہ میانوالی سے کوئی ارم ہاشمی کے نام کی خاتون بھی اخباروں اور رسالوں میں لکھتی ہیں تو میرے ذہن میں پہلا خیال یہی آیا کہ پھر میانوالی کی کسی اشرف سنبل نے اپنا کوئی قلمی نام رکھ لیا ہوگامگر جب مجھے پتہ چلا کہ یہ کوئی قلمی نام نہیں۔وہ واقعی میانوالی کی ایک بیٹی ہیں۔موچھ سے تعلق رکھتی ہیں۔ان دنوں میانوالی شہر میں مقیم ہیں تو مجھے ایک خوشگوار حیرت ہوئی۔یہ میانوالی کی عورتوں کی پہلی جرأتمند آواز تھی۔یہی آواز پھیلتے پھیلتے اُس مقام تک پہنچی کہ عمران خان کے جلسے میں خواتین کا علیحدہ پنڈال سج گیا۔

پھر سوشل میڈیا کا دور آیا تو میرا رابطہ بلقیس خان سے ہوا۔انہی دنوں شاید اُن کے والد محترم کا انتقال ہوا تھا۔ میں نے میانوالی کی اِس توانا شاعرہ کو اپنی منہ بولی بیٹی بنالیا۔بلقیس خان سے مجھے ارم ہاشمی کے بارے میں بہت کچھ معلوم ہوا۔وہ جو میگزین نکالتی تھیں اُس کے کئی شمارے دیکھنے کو ملے اور اب جب میں نے محترمہ ارم ہاشمی کے افسانوں کے مجموعے ’’ ٹی ہائوس ‘‘ کا مطالعہ کیاتو میری حیرت فخر و انبساط میں بدل گئی۔ مجھے اُن کا ہر افسانہ میانوالی کی صدیوں کی دھول میں گم ہوتی خواتین کےلئے ایک نئی جنگ کا پیش خیمہ لگا۔

اُس کے افسانے میانوالی کی عورتوں کے ادھورے پن کا مرثیہ ہیں۔تنہائی کے اندھے کنووں میں چھلانگیں لگاتی ہوئی مسکراہٹوں کا نوحہ ہیں۔وہ جب لکھتی ہیں:

’’اماں میں ایم ا ے کرنا چاہتی ہوں۔یونیورسٹی میں داخلہ لینا چاہتی ہوں۔کیا کہا تُو یونیورسٹی میں جاکر پڑھے گی۔بس بہت ہوگئی پڑھائی۔خبردار جو وہاں جانے کا سوچا بھی۔میرے ہونٹ سل گئے۔ میرامنہ لٹک گیااور میری آنکھوں کی چمک غائب ہوگئی۔میں نے اپنے کزن کے ساتھ شادی کی خواہش کا اظہار کیا تو جواب میں مجھےاپنے ابا کا چنگیزی لب و لہجہ بے ساختہ یاد آیا۔حالانکہ زندگی میں نے گزارنی تھی۔ مجھے فیصلے کا حق ہونا چاہئے تھا۔‘‘

تو جبر کی جیلوں کی دیواروں میں دراڑیں پڑتی دکھاتی دیتی ہیں۔جب یہ جملہ میری نظر سے گزرا۔

’’ناس پٹے میانوالی کے میاں لوگ کا۔مرکھنے۔ اکڑے ہوئے۔جلالی۔ ناک پر مکھی نہ بیٹھیں دیں۔ایک دم نکھٹو۔‘‘

تومیانوالی کےایک مرد کی حیثیت سے مجھے اُس کے افسانے اپنی روح پر چابک کی طرح لگے۔ایک اور ٹکڑا دیکھئے

’’بس رکی اور انسانوں کی ایک اور موج اندر آئی۔ میری ہمسفر جاچکی تھی۔

کہاں جارہی ہو۔ نئی آنے والی نے پوچھا

لاہور

کہاں سے آرہی ہو

میانوالی سے

میں ایک بار پھر سوالوں کی زد میں آچکی تھی

میکے جارہی ہو یا سسرال

میں چپ رہی اور مظلوم صورت بنالی

وہ سمجھ گئی۔ اچھے لڑکے اب کہاں ملتے ہیں ‘‘

محترمہ ارم ہاشمی کا افسانوی کردار تو جو سمجھا، سمجھا مگرمیرے جیسے پڑھنے والوں کو معلوم ہو گیا کہ ابھی تک مرد کے معاشرے میں اکیلی عورت کسی بگڑے ہوئے زخم سے کم نہیں۔یہ کتاب پڑھ کر میں (تبدیلی کے نعرے لگانے والا )اپنا سامنہ لے کر رہ گیا۔مجھے معلوم ہو گیا کہ تبدیلی ’’سی پیک ‘‘سے نہیں آنی۔ تبدیلی گوادر میں آئل ریفائنری لگانے سےبھی نہیں آنی۔ تبدیلی بلین ڈالرز پاکستان میں آنے سے بھی نہیں آنی۔تبدیلی معاشرت کی تبدیلی سے آنی ہے۔تبدیلی عورت کو حقوق ملنے سے آنی ہے۔تبدیلی انسانی شخصیت کو پروان چڑھانے سے آنی ہے۔ سڑکوں، پلوں،ٹرینوں اورکارخانوں پر سرمایہ کاری کرنے کی بجائے انسانی فرد پر سرمایہ کاری کی ضرورت ہے۔خاص طور پر فی میل فرد پر۔عمران خان نے خود کہا تھا کہ قومیں موٹروے بنانے سے نہیں بنا کرتیں۔ قومیں بنانے کےلئے لوگوں پر پیسہ خرچ کرنا پڑتا ہے۔ ان کی تعلیم پر ان کی صحت پر ان کی ضروریاتِ زندگی پر۔انہیں روٹی کپڑا اور مکان دینے پر۔سنا تو یہی ہے کہ حکومت پنجاب نے بجٹ کا چالیس فیصد حصہ تعلیم،صحت اور صاف پانی کی فراہمی کےلئے مختص کیا ہے۔حکومت کو چاہئے کہ وہ کمزورخواتین کو طاقتور بنانے کےلئے بھی ایک بجٹ مختص کرے۔

افسانوں کے مجموعے پر بات کرتے کرتے تھوڑا سا بھٹک گیا تھا۔ معذرت خواہ ہوں۔ ارم ہاشمی کے افسانے جدید افسانے کے معیار پر پورااترتے ہیں۔ان کے ہاں جدید طرز احساس یعنی Modern Sensibility پوری طرح موجود ہے۔ سماجی اور ثقافتی عوامل بڑےمنفرد انداز سے کہانی میں تہہ در تہہ نظر آتے ہیں۔موضوعات میں تنوع ہے۔کثرتِ الفاظ کا بہیمانہ استعمال نہیں ہوا۔اسلوبِ نگارش قاری کومشکل میں نہیں ڈالتا۔زبان سہل ہے۔ہیئت اورتکنیک کا کوئی ایسا تجربہ نہیں کیاگیا جو افسانے کو افسانہ نہ رہنے دے۔ علامتوںاور استعاروں کا چڑیا گھر بنا دے۔یہ خارج کی تمام کہانیاں داخلی زندگی کی عکاس ہیں۔محسوسات اور ذہنی کیفیات کو کامیابی سے کہانی کی شکل دی گئی ہے۔میں محترمہ ارم ہاشمی کو اس کامرانی پر مبارک باد پیش کرتا ہوں۔

(یہ کالم ارم ہاشمی کی کتاب’’ ٹی ہائوس ‘‘کی تقریب رونمائی میں پڑھا گیا )

تازہ ترین