• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پچھلے ہفتہ ورلڈ کپ ٹورنامنٹ میں ہماری کرکٹ ٹیم نے دو دبنگ ٹیموں کو اچھے خاصے مارجن سے ہرادیا۔ ایک ٹیم تھی ، سائوتھ افریقہ اور دوسری ٹیم تھی نیوزی لینڈ، مگر ہماری قوم خوش نہیں ہوئی۔ بھنگڑے نہیں ڈالے گئے، گلی کوچوں اور چوراہوں پر ڈھول نہیں پیٹے گئے، مٹھائی نہیں بانٹی گئی۔ ایسے لگ رہا تھا کہ جیسے ہم اپنی ٹیم کی کارکردگی سے خوش نہیں تھے۔ اگر ہم سائوتھ افریقہ اور نیوزی لینڈ سے ہارجاتے تب بھی کوئی فرق نہیںپڑتا۔ انگلینڈ سے جیتے، تب بھی کوئی خاص فرق نہیں پڑا۔ مٹھائیاں نہیں بانٹی گئیں۔ بینڈ باجے بجانے والے اپنے سازوسامان کے ساتھ سڑکوں پر نہیں آئے تھے۔ پہلا میچ ہم ویسٹ انڈیز سے بری طرح ہار گئے تھے۔ تب بھی آسمان نہیں ٹوٹا تھا۔ منگھوپیر کے مگرمچھ احتجاج کرتے ہوئے تالاب سے نکل کر کراچی پریس کلب کے سامنے دھرنا دیکر نہیں بیٹھے تھے۔ ایک ٹیلی وژن پروگرام میں پرانے ٹیسٹ کرکٹ کھلاڑی ایک مسخرے اینکر پرسن کے ساتھ گپ شپ کرکے چلے گئے تھے۔ اس کے علاوہ کچھ نہیں ہواتھا۔ مطلب یہ کہ ہم دنیا بھر کی کرکٹ ٹیموں سے ہار جائیں،ہم دل برداشتہ اور مایوس نہیں ہوتے۔ ہم دنیا بھر کی کرکٹ ٹیموں سے جیت جائیں، بقول ایک خوبصورت اینکر پرسن کے کہ ہم ان کو دھول چٹادیں، تب بھی ہم خوش نہیں ہوتے۔ جشن نہیں مناتے ۔ ایک دوسرے کو جھپی نہیں پاتے۔

ہم خوش تب ہوتے ہیں، جب ہم اپنے یکتا ، اکیلے اور دیرینہ دشمن کی ٹیم سے میچ جیت جاتے ہیں۔ دیرینہ دشمن کی ٹیم سے میچ جیتنے کے بعد ہمارے اظہار کے طور طریقے بدل جاتے ہیں۔ ہمارے رویے بدل جاتے ہیں۔ دشمن ملک کی کرکٹ ٹیم سے میچ جیتنے کے بعد ہم یہ نہیں کہتے کہ ہم نے فلاں ملک کی کرکٹ ٹیم سے میچ جیتا ہے۔ ہم کہتے ہیں کہ ہم نے فلاں ملک کی کرکٹ ٹیم کو شکست دی ہے۔ اگر کچھ موج مستی میں آجائیں تو کہتے ہیں کہ ہم نے فلاں ملک کو شکست فاش دے دی ہے۔ کچھ ایسا ہی حال دشمن ملک کا ہوتا ہے۔ ہماری کرکٹ ٹیم کو میچ میں ہرانے کے بعد وہ ایسا جشن مناتے ہیں جیسے انہوں نے دونوں ملکوں کے درمیان جنگ میں فتح حاصل کی ہو۔ دونوں دشمن ممالک اپنے اپنے رویوں سے کھیل Sports کو نفسیاتی طور پر جنگ میں بدل چکے ہیں۔ میں نہیں جانتا کہ مجھے دشمن ملک کا نام لکھنے کی اجازت ہے یا کہ نہیں ہے۔ میرا ہم نفس ، ہم عمر، ہم عصر دشمن ملک میں رہتا ہے۔ اس کے ملک میں سیاستدان ہمارے ملک کو اپنا دشمن گنواتے ہیں۔ میں نہیں جانتا کہ میرے ہم نفس کو دشمن ملک کا نام لکھنے کی اجازت ہے ، یا کہ نہیں ہے۔ میں اس کے ملک کا نام لکھنے سے اجتناب کرتا ہوں، اور میرا ہم نفس عین اسی طرح میرے ملک کا نام اپنی تحریروں میں لکھنے سے اجتناب کرتا ہے۔ دونوں ممالک کے سیاستدان اظہار کی مکمل آزادی کا دعویٰ کرتے ہیں۔ میرا ہم نفس میرے ملک کے بارے میں دو اچھی باتیں نہیں لکھ سکتا ۔ میں اپنے ہم نفس کےملک کے بارے میں دو اچھی باتیں نہیں لکھ سکتا۔ دونوں ممالک میں ایسے ایسے ادارے ہیں جو ہمیں ایک دوسرے کے بارے میں اچھی باتیں لکھنے نہیں دیتے۔ میرا ہم نفس اور میں اعتراف کرتے ہیں کہ ہمیں ایک دوسرے کے خلاف لکھنے کی مکمل آزادی ہے۔ میرا ہم نفس جتنا چاہے، میرے ملک کو برا کہہ سکتا ہے۔ میں جتنا چاہوں اپنے ہم نفس کے ملک کو برا بھلا کہہ سکتا ہوں، لکھ سکتا ہوں۔ ایک دوسرے کو برا بھلا کہنے اور لکھنے پر کسی قسم کی بندش نہیں ہے۔ اس لحاظ سے دونوں دشمن ممالک میں اظہار کی مکمل اجازت ہے۔ یہ منفی ہیولا دونوں دشمن ممالک کے ہر شعبہ زندگی پہ منڈلا رہا ہے۔

دشمن ملک کی کرکٹ ٹیم سے ہمارے ملک کی کرکٹ ٹیم ہارگئی ۔ جیسے لوگوں پر قیامت ٹوٹ پڑی ۔ ہماری ٹیم پہلے میچ میں ویسٹ انڈیز سے بہت طرح ہاری تھی۔ تب ملک پر قیامت نہیں ٹوٹی تھی۔ دشمن ملک سے ہارنے کے بعد ہماری قوم کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ وہ اپنے غصے کا اظہار کیسے کرے۔ ہر طریقے سے ٹیم کو ذلت کا نشانہ بنایا گیا۔ میں پورے یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ اگر دشمن ملک کی کرکٹ ٹیم ہماری کرکٹ ٹیم سےہار جاتی ، تو ان کا حشر بھی بڑا عبرتناک ہوتا۔ یہ بات اس قدر یقین سے میں نے اس لئے کی ہے کہ میرا تعلق برصغیر کے آخری اور ختم ہوتی ہوئی نسل سےہے جس نے بٹوارے سے پہلے برصغیر دیکھا تھا۔ برصغیر کے مسلمان، ہندو، سکھ ، عیسائی ، یہودی ، پارسی ، بدھ مت اور جین دھرم کے پیروکاروں کو ایک ساتھ رہتے ہوئے دیکھا تھا۔ شرپسند بھی ہوتے تھے۔ دنگا فساد کرانے کے مواقع ڈھونڈتے رہتے تھے۔ مندر کے آگے گائے کا کٹاہوا سر ڈال آتے تھے۔ مگر لوگ ایک دوسرے سے نفرت نہیں کرتے تھے۔ سندھ امن اور آشتی کا گہوارہ تھا۔ مارچ انیس سو انتالیس میں سندھ کے درویش ، صوفی ، گائیک بھگت کنوررام کو سندھ کے ایک طاقتور پیرسائیں نے شہیدکروا دیا تھا۔ تب سندھ میں اکا دکا ہندو مسلم فسادات ہوئے تھے۔ لیکن کوئی کسی سے نفرت نہیں کرتا تھا۔ نفرت کی آگ ہمارے وجود میں جلتی رہتی ہے۔ یہ آگ بھائی چارے ، اخلاق ، اخلاص ، عزت و احترام، محبت اور چاہتوں کو جلا کر راکھ کردیتی ہے۔ ہم تو ہیں آخر شب کے مسافر۔ دونوں ممالک کی نئی نسلوں کی آبیاری کیا نفرتوں سے ہوتی رہے گی؟

دونوں ممالک کے لوگ مجھے ایک جیسے لگتے ہیں۔ یقین نہیں آئے تو ورلڈ کپ کے وہ میچز دیکھیں جن میچوں میں دونوں ممالک کی ٹیمیں یورپی ٹیموں سے میچ کھیلتی ہیں۔ اگر ہماری ٹیم کھیل رہی ہو تو اسٹیڈیم ہمارے دیسی سپورٹروں سے کھچاکھچ بھر جاتا ہے۔ اگر دشمن ملک کی ٹیم کھیل رہی ہو ، تو ان کے سپورٹروں سے اسٹیڈیم بھر جاتا ہے۔ یورپ کے لوگ بڑی وضع داری سے میچ دیکھتے ہیں اور کھلاڑیوں کو سراہتے ہیں۔ اس کے برعکس برصغیر کے دونوں ممالک سے تعلق رکھنے والے تماشائی گھٹیا ہلڑبازی سے میچ دیکھتے ہیں۔ میدان میں لگے ہوئی بڑی بڑی ٹیلیوژن اسکرین پر اپنی شکل دیکھ کر آپے سے باہر ہوجاتے ہیں۔ مضحکہ خیز شکلیں بناتے ہیں۔ چیختے ہیں، گلا پھاڑ کر چلاتےہیں۔ تب دونوں دشمن ممالک کے تماشائی ایک ہی ملک اور ایک ہی معاشرے کے لوگ لگتے ہیں۔

تازہ ترین