• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہماری رہایش ضلع ٹھٹّھہ، میرپور ساکرو میں ہے، جب کہ بہت سے رشتے دار کراچی میں بھی مقیم ہیں۔ وہاں ہمارا آنا جانا رہتا ہے۔ یہ واقعہ کراچی ہی میں ہمارے مختصر قیام کے دنوں میں پیش آیا، جسے میں تازیست نہیں بھلا سکوں گی۔

یہ دسمبر 2007ء کی بات ہے۔ ہم کراچی میں قریبی عزیز کے یہاں ایک تقریب میں مدعو تھے۔ ان کا گھر اورنگی ٹائون، سیکٹر گیارہ میں واقع ہے۔ تقریب سے فراغت کے بعد ہم نند،بھاوج نے اپنے ایک قریبی عزیز کی عیادت کا ارادہ کیا،جو ایک عرصے سے بیمار تھے۔ دسمبر کی ستائیس تاریخ تھی۔ زندگی معمول کے مطابق جاری و ساری تھی، ہم دونوں اورنگی ٹائون سے مطلوبہ بس میں بیٹھی آپس میں باتیں کررہی تھیں۔ ہماری بس جیسے ہی نارتھ ناظم آباد، عبداللہ گرلز کالج کے اسٹاپ پر بس رُکی، تو ایک نوجوان بدحواسی کے عالم میں بس میں چڑھا اور بلند آواز سے بولا ’’ایک بُری خبر ہے کہ راول پنڈی کے جلسے میں محترمہ بے نظیر بھٹو کو شہید کر دیا گیا ہے۔‘‘ابھی اس نوجوان کا جملہ مکمل ہی ہوا تھاکہ قریبی سیٹ سے ایک ادھیڑ عمر شخص اٹھا اور ایک زور دار طمانچا اس کے رخسار پر رسید کر کے ڈانٹنا شروع کر دیا۔ ’’تمہیں شرم نہیں آتی افواہیں پھیلاتے ہوئے، ایسا کیسے ہوسکتا ہے۔ مَیں مُلک میں افراتفری پھیلانے کے جرم میں تمہیں گرفتار کروا سکتا ہوں۔‘‘وہ ایک جذباتی آدمی تھے، مغلظات پر اُتر آئے، اس لیے نوجوان سہم کر ایک طرف کھڑا ہوگیا۔ جب بس میٹرک بورڈ آفس کے چوک پر پہنچی، تو وہاں کا منظر دیکھ کرکچھ گڑبڑ کا احساس ہوا۔ اطراف کی دکانیں تیزی سے بند ہو رہی تھیں، بہت سی ایمبولینسز بھی تیزی سے گزر رہی تھیں اور لوگ پریشانی کے عالم میں مختلف سمتوں میں بھاگ رہے تھے، جس کی وجہ سے ٹریفک بھی جام ہوگیا تھا۔ اب ہمیں صورتِ حال کی سنگینی کا احساس ہوا۔ اتنے میں ایک شخص اپنی موٹر سائیکل دوڑاتا ہوا ڈرائیور کی سیٹ تک آیا اور کہنے لگا۔ ’’استاد، گاڑی واپس اورنگی ٹائون لے جائو، بے نظیر بھٹو کو شہید کر دیا گیا ہے، حالات بگڑ رہے ہیں۔‘‘

یہ سنتے ڈرائیور نے گاڑی کو رانگ سائیڈ سے تیزی کے ساتھ موڑا اور اورنگی ٹائون کی طرف سرپٹ بھگانے لگا۔ بنارس چوک آتے ہی یک دَم ڈرائیور نے گاڑی روک کر مسافروں کو اُترنے کا حکم دے دیا۔ اس علاقے میں اکثریت پشتو زبان بولنے والوں کی ہے۔ ہمارے لیے یہ بالکل انجان جگہ تھی۔ ہم نند ،بھاوج بھی دوسرے مسافروں کی طرح اُتر گئیں، مگر حیران پریشان کھڑی تھیں کہ اب کیا کریں، کدھر جائیں۔ہر طرف افراتفری کا سماں تھا، دُور دُور تک کوئی گاڑی دکھائی نہیں دے رہی تھی۔ ہم ڈری سہمی ایک طرف کھڑی تھیں کہ ادھیڑ عُمر کا ایک پختون شخص ہمارے پاس آکربولا۔ ’’آپ لوگوں کا اس طرح یہاں کھڑے رہنا مناسب نہیں ہے، یہاں کسی وقت بھی گڑبڑ ہوسکتی ہے۔ آپ میرے گھر ا ٓجائیں۔ یہیں قریب ہی ہے۔ جب خطرہ ٹکل جائے، تو اپنے کسی عزیز کو بلوا کر اپنے گھر چلی جائیے گا، اس وقت گھر سے بھی کسی کو بلانا خطرے سے خالی نہیں۔‘‘

بے شک اس شخص نے یہ بات خلوصِ دل سے کہی تھی، مگر ہم دونوں سدا کی بزدل اپنی جگہ سے ایک انچ ہلنے کو تیار نہیں تھیں۔ وہ سمجھ گیا کہ ہم ڈری ہوئی ہیں۔بہرحال، وہ گھر چلا گیا اور دس منٹ میں لوٹ کر آیا، تو اس کے ساتھ ایک بوڑھی خاتون بھی تھیں، جن کے بارے میں اس شخص نے بتایا کہ یہ اُس کی والدہ ہیں۔ بوڑھی خاتون، جو تقریباً اسّی سال کے لگ بھگ تھیں، ہم سے پشتو زبان میں غالباً اپنے گھر جانے کی بات کررہی تھیں، جو ہماری سمجھ میں نہیں آرہی تھی۔ انہوں نے یہ بات محسوس کی، تو میرے سر پر ہاتھ رکھ کر اپنے بیٹے سے کچھ کہا۔ بیٹے نے اس کا اُردو میں ترجمہ کر کے ہمیں بتایا کہ ’’امّاں کہہ رہی ہیں کہ ہم پر بھروسا کرو۔ تم ہماری بیٹیوں کی طرح ہو، اس ہنگامے میں یہاں کھڑے رہنا مناسب نہیں، یہاں تمہاری جانوں کو شدید خطرہ ہے۔ ہمارے ساتھ گھر چلو۔‘‘ اس خاتون کے لہجے میں تشویش اور سچائی کے اظہار نے ہمارا خوف دُور کر دیا اور ہم دونوں اُن کے جَلو میں اُن کے گھر کی طرف چل پڑیں۔ راستے میں لوٹ کھسوٹ کے مناظر دکھائی دیئے، تو اپنے فیصلے پر اطمینان ہوا۔ اُن کے گھر پہنچے، تو وہاں جس محبت سے ہمارا استقبال ہوا، اس نے ہم دونوں کو حیران کر دیا۔ ہمیں معزز مہمانوںکی طرح تخت پر صاف ستھری چادر بچھا کر بٹھایا گیا اور پھر ٹھنڈا شربت پیش کیا گیا۔ سردی کے موسم کے باوجود ہمیں شدت سے ٹھنڈے پانی کی ضرورت محسوس ہو رہی تھی۔ ’’زبانِ یارمن ترکی‘‘ والا معاملہ ہوتے ہوئے بھی ہمیں وہ اپنے اپنے سے لگنے لگے تھے۔ یہاں پہنچ کر ہمیں احساس ہوا کہ ہم محفوظ جگہ پر ہیں۔ شام کے سات بجے وہ لوگ کھانا کھانے بیٹھ گئے۔ وہ جس صاف ستھرے دسترخوان پر مہذّب انداز میں کھانا کھا رہے تھے۔ اس پر بھی ہمیں شدید حیرت ہوئی۔ انہوں نے ہمیں کھانے کی آفر کی ، مگر ہم نے بتایا کہ یہ ہمارے کھانے کا وقت نہیں ،ہم لوگ دس بجے کھانا کھانے کے عادی ہیں۔ انہوں نے اصرارکیے بغیر اپنا کھانا جاری رکھا۔ کھانا ختم ہوا، تو ہم نے ان سے درخواست کی کہ کسی طرح ہمارے گھر جانے کا کوئی بندوبست کر دیں، تواس شخص نے ہمیں تسلّی دی اور کہا ’’آپ قطعی پریشان نہ ہوں۔ میں باہر جا کر حالات کا جائزہ لے کر کچھ انتظام کرتا ہوں۔ اتنی دیر میں آپ دونوں میری بیوی اور بچّوں سے دوستی کریں۔ حالات زیادہ خراب ہوئے، تو شاید آپ کو یہیں رکنا پڑجائے۔‘‘

وہ تسلّی دے کر باہر چلا گیا۔ ہمارا خوف کافی حد تک کم ہوچکا تھا۔ اُس کی بیوی چائے بنا کر لے آئی۔ ساتھ بسکٹس وغیرہ بھی تھے۔ ہم نے ان کے اصرار پر چائے پی۔ چائے اتنی مزے دار تھی کہ ساری کوفت اور تھکن ختم ہوگئی۔ اس کی بیوی ٹوٹی پھوٹی اُردو میں بات کرتی رہی۔ اس کے چار صاف ستھرے، خوب صورت بچّے تھے، جو بہت جلد ہم سے گھل مل گئے۔ کچھ دیر بعد وہ شخص ایک نوجوان کے ساتھ واپس آیا اور بتایا کہ ’’یہ میرا بھتیجا ہے، یہیں پیدا ہوا اور پلا بڑھا ہے۔ اس لیے راستوں سے خوب واقفیت ہے، یہ آپ لوگوں کو محفوظ راستوں سے آپ کے گھر پہنچادے گا۔‘‘ ہم نے اس محبت بھرے خاندان کا تہ دل سے شکریہ ادا کیا۔ ماں اور اس کی بیوی کو گلے سے لگایا۔ بچّوں کو پیار کر کے گھر سے باہر نکلنے لگے، تو اس کی والدہ نے دَم کرکے ہم پر پھونکا اور خیرخیریت سے گھر پہنچنے کی دعائیں مانگنے لگیں۔ وہ نوجوان ہمیں علی گڑھ کالونی کی تنگ گلیوں اور محلّوں سے نکالتا ہوا اورنگی ٹائون نمبرایک میں لے کر پہنچا۔ راستے میں ہمیں جگہ جگہ ٹولیوں میں نوجوان کھڑے ملے، جو پریشان حال راہ گیروں کو پانی پلارہے تھے اور راستہ بھی بتاتے جارہے تھے۔ کئی دکانوں میں آگ لگی ہوئی تھی۔ جگہ جگہ گاڑیاں بھی جل رہی تھیں۔ وہ نوجوان ہمارے ساتھ چلتے چلتے ایک جگہ رک گیا، وہاں اُسی کی عُمر کے چند اور لڑکے بھی کھڑے تھے۔ وہ اورنگی ٹائون، مجاہد آباد نمبر6کا علاقہ تھا۔ وہاں اس نے ان لڑکوں سے بات کی اور انہیں ہمارے پاس لاکر کہنے لگا۔ ’’یہ آپ کے محلّے سے واقف ہیں، آپ کو گائیڈ کریں گے اور گھر تک چھوڑ کرآئیں گے۔‘‘پھر وہ نوجوان ہمیں ان کے حوالے کرکے اور سلام کرکے چلا گیا۔ ہم اپنے علاقے سے زیادہ دُور نہیں تھے۔ وہ ہمیں خیریت سے گھر پہنچا کر چلے گئے۔ گھر پہنچ کر سب سے پہلے ہم نے شکرانے کے نوافل ادا کیے اور ان سب لوگوں کے لیے دعائے خیر کی، جنہوں نے اس کٹھن موقعے پر قدم قدم پر ہمارا خیال رکھا۔ ان میں پٹھان، مہاجر، پنجابی، بلوچ اور سندھی سب ہی شامل تھے۔ سب باہمی محبت کے رشتے میں جڑے ہوئے صرف پاکستانی تھے، جو غیروں کی لگائی اس آگ میں اپنے ہم وطنوں کی بلاتخصیصِ زبان و نسل مدد کررہے تھے۔

یہ ہے میری ’’پاکستانی قوم‘‘ کا حقیقی چہرہ کہ کسی بھی بُرے وقت میں ایک سیسہ پلائی دیوار کی طرح مضبوطی سے کھڑی ہوجاتی ہے۔

(گوہر قریش، میرپور ساکرو، سندھ)

آپ ہی سے کچھ کہنا ہے

اگر آپ کے ذہن میں کوئی ایسا واقعہ محفوظ ہے جوکسی کردار کی انفرادیت، پُراسراریت یا واقعاتی انوکھے پن کی بنا پر قارئین کے لیے دل چسپی کا باعث ہے تو فوراً قلم اٹھائیے اور اس صفحے کا حصہ بن جائیے۔ یہ واقعات قارئین کے شعور وآگہی میں اضافے کے ساتھ ان کے لیے زندگی کاسفر آسان کرنے میں ممدومعاون ثابت ہوسکتے ہیں۔ واقعات بھیجنے کے لیے تحریر کا پختہ ہونا ضروری نہیں، صرف سچّا ہونا لازم ہے، نیز ،اپنا نام و پتا بھی لکھیے تاکہ رابطے کی ضرورت پڑے تو آسانی ہوسکے۔ ہمیں اپنی کہانیاں اور آراء اس پتے پر بھیجیں ۔

انچارج صفحہ، ناقابلِ فراموش، جنگ سنڈے میگزین،روزنامہ جنگ، اخبار منزل، آئی آئی چندریگر روڈ، کراچی

تازہ ترین