• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہندوستان کی تقسیم کے اعلان کے بعد ہمارا گھرانا ضلع فیروز پور سے قصور شہر آکر آباد ہوا۔ بے سروسامانی کے ان دنوں میں طویل عرصہ تنگ دستی میں گزارنے کے بعد جب والد صاحب کو ملازمت ملی، تو معاشی طور پر ہمیں کچھ سکون میسّر آیا۔ ہم چار بہن بھائیوں میں امجد علی سب سے چھوٹا ہونے کی وجہ سے گھر بھرکا لاڈلا تو تھا ہی، غیر معمولی خُوب صُورتی کے باعث خاندان بھر میں بھی مقبول تھا۔ وہ نہایت حسین بچّہ تھا۔ سبز مائل آنکھیں، سر پر ہلکے بھورے بال اور سرخ وسفید رنگت، گویا حُسن و جمال کا پیکر تھا۔ سب اسے ’’انگریزکا بچّہ‘‘ کہتے تھے۔ بڑا ہونے پر رفتہ رفتہ اس کے دیگر جوہر بھی کُھلنے لگے۔ قدرت نے اسے ذہن بھی زرخیز عطا کیا تھا۔ والدہ کی تو آنکھ کا تارہ تھا، مگر بدقسمتی سے وہ اس کی پرورش نہ کرسکیں۔ ایک روز اچانک شدید بیمار پڑیں اور آناً فاناً دنیا سے رخصت ہوگئیں۔ ان کے انتقال کے بعد گھر کا شیرازہ بکھر کر رہ گیا۔ سب بہن بھائی الگ الگ ہوگئے۔ والدہ کی بیماری کے دوران امجد کو میری اہلیہ نے سنبھالا۔ نوکری کے باعث مجبوراً ہمیں لاہور شفٹ ہونا پڑا، تو امجد کو بھی اپنے ساتھ لے گئے، اسے گھر کے قریب ہی ایک اسکول میں داخلہ کروادیا۔ اس نے میٹرک کے امتحان میں اعلیٰ پوزیشن حاصل کرنے کے بعد، ایک ایک کرکے سارے تعلیمی مدارج امتیازی نمبرز کے ساتھ طے کرکے بیچلر آف انجینئرنگ بھی کرلی۔ ہمارے خاندان میں اعلیٰ تعلیم کے حصول کا رجحان نہیں تھا۔ لیکن مَیں وہ واحد فرد تھا، جسے تعلیم کا شوق تھا، اپنی محنت سے تعلیم حاصل کرنے کے بعد ایک اچھی کمپنی میں ملازم ہوگیا۔ میرے بعد امجد تھا، جو میری مدد سے اس مقام تک پہنچا۔ پھر جلد ہی اُسے اپنی قابلیت کی بنیاد پر ایک باوقار ملازمت مل گئی۔ جب میں پہلی بار اس کے دفتر گیا اور اسے آفس میں طویل وعریض میز اور اونچی کرسی پر براجمان دیکھا، تو دل خوشی سے جھوم اٹھا۔ کیوں کہ وہ میرا بھائی ہی نہیں، میرا بیٹا بھی تھا۔ میں نے اور میری بیوی نے اسے بچّوں کی طرح پالا پوسا تھا اور وہ بھی تابع دار اور محنتی لڑکا ثابت ہوا۔ میں نے اور خصوصاً میری اہلیہ نے اپنی محدود آمدنی کے باوجود ہر طرح سے اس کا خیال رکھا۔ اس نے بھی میری مالی پوزیشن کو مدنظر رکھتے ہوئے کبھی کسی چیز کا بے جا تقاضا نہیں کیا۔ گھر کے مالی حالات کے پیشِ نظر اکثر ٹیوشنز پڑھاکر اپنے تعلیمی اخراجات پورے کرتا تھا۔ اُس کی شخصیت میں کچھ ایسی کشش اور جاذبیت تھی کہ ہر عُمر کا شخص اس کا گرویدہ ہوجاتا۔ اپنے ہم عصروں میں بھی بے حد مقبول تھا۔ میں نے اسے اگر اپنے بیٹے کی طرح پالا تھا، تو اس نے بھی ایک آئیڈیل بیٹا ہونے کا ثبوت دیا۔ ایک روز گھر میں سب جمع تھے۔ میرے منجھلے بھائی نے مذاق میں کہا ’’امجد! تم تو اتنے قابل ہوکہ کچھ ایجاد کرکے بھی پاکستان میں خُوب شہرت حاصل کرسکتے ہو۔‘‘ اس نے فوراً جواب دیا۔ ’’اس کام کے لیے کچھ ایجاد کرنا ضروری نہیں، آپ لوگ دیکھ لیجیے گا، ایک دن اچھے کاموں کی وجہ سےبھی میرا نام، ٹی وی اور اخبارات میں ضرور آئے گا۔‘‘

کچھ عرصے بعد میری اہلیہ نے اپنے رشتے داروں میں ایک لڑکی پسند کرکے اس کی شادی کردی۔ زندگی کے ہر مرحلے میں کام یابی کی طرح اس کی ازدواجی زندگی بھی خوش گوار رہی۔ اس کی کام یابیوں پر نگاہ ڈالتا ہوں، تو ایک خوبی نمایاں پاتا ہوں کہ وہ بڑے بڑے فیصلے بغیر کسی حیل وحجّت اور ہچکچاہٹ کے اعتماد سے کرگزرتا تھا۔ کچھ عرصے بعد اس نے گاڑی بھی خریدلی اور شہر کے ایک پوش علاقے میں 10مرلے کا گھر بھی بنالیا۔ اتنی کم عُمری میں اس نے وہ سب کچھ حاصل کرلیا تھا، جو ایک آدمی اپنی پوری زندگی میں بھی نہیں کرپاتا۔ مزید ترقی و کام رانی کے لیے اس نے کینیڈا کی شہریت کے لیے اپلائی کیا، تو فیملی سمیت شہریت مل گئی اور وہ اپنے دیس، بہن بھائیوں اور سب دوستوں کو خیرباد کہہ کر ہزاروں میل دُور واقع کینیڈا جابسا۔ اس کے جانے کے بعد گھر میں اداسیوں نے ڈیرے ڈال لیے تھے، میں اور میری اہلیہ اُسے بہت یاد کرتے تھے، ہمارا اس کے ساتھ رابطے کا واحد ذریعہ ٹیلی فون رہ گیا تھا۔ اسی طرح کتنے ہی ماہ وسال بیت گئے۔ ایک روز اس نے فون کیا اور کہا ’’آپ سب مجھے بچپن سے ’’انگریز‘‘ کہتے تھے۔ دیکھ لیں بھائی، میں نے انگریزوں کی سی قابلیت اور محنت سے یہاں بھی خود کو منوالیا۔ اب میں واپس آنے والا نہیں ۔ انگریزوں ہی میں جیوں اور مروں گا۔ مَیں اب کبھی پاکستان نہیں آئوں گا۔ آپ میرا دس مرلے والا مکان بیچ دیں۔‘‘ مجھے اس کی بات اچھی نہیں لگی۔ میں نے کہا ’’اور ہم تمہارے بغیر کیسے رہیں گے؟‘‘ کہنے لگا ’’میرا تو اب یہیں ٹھکانہ ہوگیا ہے، مجبوری ہے۔‘‘ اس بات چیت کے بعد چوتھے روز اچانک بے وقت فون کی گھنٹی بجی، تو دل دہل کے رہ گیا، ریسیو کیا، تو کینیڈا سے امجد کے ایک ہمسائے کی کال تھی، جس نے غم و افسوس کے ساتھ خبر سنائی کہ ایک ٹریفک حادثے میں آپ کے بھائی جاں بحق ہوگئے ہیں۔ اس کی ناگہانی موت سے گھربھر میں ایک کہرام مچ گیا۔ اس کے سوگ میں ہر آنکھ اشک بار تھی۔ میرا اور اہلیہ کا براحال تھا۔ اس کی تدفین کینیڈا ہی میں کردی گئی۔ ہم اس کا آخری دیدار بھی نہ کرسکے۔ چند روز بعد اس کے بچّوں نے حادثے کی تفصیل پر مبنی اخبارات کے تراشے بھجوادیئے۔ جس میں یہ خبر نمایاں طور پر شایع ہوئی تھی کہ’’ خراب موسم اور برف باری میں ایک نوجوان امجد نے سڑک پر پھنسی ایک گاڑی دیکھی، تو ان کی مدد کے خیال سے اپنی گاڑی سے اتر کر ان کی طرف بڑھا ہی تھا کہ پیچھے سے آنے والے ایک تیز رفتار ٹرالر کی زد میں آکر ہلاک ہوگیا۔‘‘ اخبارات اور ٹی وی میں امجد کو ایک ہم درد اور انسانیت سے پیار کرنے والا شخص قرار دیا گیا تھا اور واقعے کے ذمّے داروں کی مذمت کی گئی تھی، جن کی غفلت سے ایک اچھا اور ہمدرد شہری جان کی بازی ہارگیا۔ برسوں پہلے اس کی کہی ہوئی بات سچ ثابت ہوگئی تھی کہ اُس کا نام اُس کے اچھے کاموں کی وجہ سے اخبارات اور ٹی وی پر ضرور آئے گا۔ واقعی اس خبر کے ساتھ اس کا نام ٹی وی اور اخبارات کے ذریعے ساری دنیا میں پھیلا اور اسے بھرپور خراجِ عقیدت پیش کیاگیا۔ بچپن میں انگریز کے لقب سے پکارا جانے والا ہمارا یہ ہونہار بچّہ، جو بڑے ہوکر اعلیٰ صلاحیتوں کا حامل نوجوان ثابت ہوا، صرف 45برس کی عمر پاکر گوروں کے دیس میں ہمیشہ کی نیند سوگیا۔ اس کی تدفین وہیں ہوئی، بیوی بچّے بھی وہیں رہے۔ مَیں ہزاروں میل کی حائل مسافت کے باعث اس کی قبر پر اپنی عقیدت اور محبت کے پھول تک نہ چڑھا سکا۔ واقعی، اس نے اپنی پیدایش سے لے کر موت تک ہمیں حیران ہی کیا۔ میں جب فون پر اس سے کی گئی آخری گفتگو یادکرتا ہوں، تو دُکھ کے ساتھ حیرانی بھی ہوتی ہے کہ اس نے چند روز پہلے ہی مجھے بتادیا تھاکہ وہ واپس پاکستان نہیں آئے گا، حالاں کہ اسے اپنے ملک سے بے حد محبت تھی۔ یقیناً اسے وقت سے پہلے ہی علم ہوگیا تھا کہ وہ کینیڈا کی سرزمین پر دفن ہونے والا ہے، اسی لیے اپنا مکان بیچنے کو کہا، تاکہ اس کی بیوی بچّوں کو ان کی امانت بھجواسکوں۔

( شفقت علی، لاہور)

آپ ہی سے کچھ کہنا ہے

اگر آپ کے ذہن میں کوئی ایسا واقعہ محفوظ ہے جوکسی کردار کی انفرادیت، پُراسراریت یا واقعاتی انوکھے پن کی بنا پر قارئین کے لیے دل چسپی کا باعث ہے تو فوراً قلم اٹھائیے اور اس صفحے کا حصہ بن جائیے۔ یہ واقعات قارئین کے شعور وآگہی میں اضافے کے ساتھ ان کے لیے زندگی کا سفر آسان کرنے میں ممدومعاون ثابت ہوسکتے ہیں۔ واقعات بھیجنے کے لیے تحریر کا پختہ ہونا ضروری نہیں، صرف سچّا ہونا لازم ہے، نیز ،اپنا نام و پتا بھی لکھیے تاکہ رابطے کی ضرورت پڑے تو آسانی ہوسکے۔ ہمیں اپنی کہانیاں اور آراء اس پتے پر بھیجیں ۔

انچارج صفحہ، ناقابلِ فراموش، جنگ سنڈے میگزین،روزنامہ جنگ، اخبار منزل ،آئی آئی چندریگر روڈ، کراچی

تازہ ترین