• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کیریئر کا آغاز شادی کے بعد کیا، بچوں کے بعد مزید کامیابیاں ملیں

عکّاسی: اسرائیل انصاری

’’کہتے ہیں ماں ، بیٹی کی بہترین سہیلی ہوتی ہے، مگر میرا خیال ہے کہ باپ، بیٹی کا رشتہ دنیا کے ہر رشتےسے خُوب صُورت و افضل ہے۔ ویسے توبچّے کے کردارکا انحصاراُسے ملنے والی تربیت پر ہوتا ہے، لیکن اُس کی شخصیت میں خوداعتمادی والد کے دئیے گئے بھروسے سے آتی ہے۔ الحمدُللہ! مجھے اللہ پاک نے ہر حوالے سے خوش نصیب بنایا، شادی سے پہلے بے حد اعتماد اور ہر خواہش پوری کرنے والے شفیق والدین کے زیرِ سایہ پلی بڑھی اور شادی کے بعد جان نچھاور کرنے والے، کیریئر بنانے میں میری مدد کرنے والےاور میری کام یابیوں پر فخر کرنے والے شریکِ حیات کا ساتھ نصیب ہوا۔کون کہتا ہے کہ شادی کے بعد لڑکی کا کیریئر ختم ہوجاتا ہےاور بچّوں کے بعد میڈیا انڈسٹری میں اہمیت کم ہوجاتی ہے؟ مَیں نے تو میڈیا انڈسٹری میں قدم ہی شادی کے بعد رکھااور خُوب داد سمیٹی۔‘‘ یہ الفاظ ہیں،پاکستان ٹیلی وژن سے نشر کیے جانے والے مارننگ شو، ’’صبحِ نو‘‘ کی میزبان ، نصرت حارث کے،جو اکاؤنٹینسی کی طالبہ تھیں، مگر قسمت انہیں میڈیا انڈسٹری میں کھینچ لائی۔وہ کیسے اس انڈسٹری میں آئیں، دفتر، گھر، بچّے کیسے مینیج کرتی ہیں، مارننگ شوز کے ’’شادی کلچر‘‘ کے بارے میں کیا کہتی ہیں اور عید شوز میں ہونے والے ناچ گانے پراُن کی کیا رائے ہے…یہ اور ان جیسی اور بھی بہت سی باتیں، سوالات ہیں، جن کے لیے ہم سنڈے میگزین کے مقبولِ عام سلسلے ’’کہی، اَن کہی‘‘ میں آپ کی ملاقات کروارہے ہیں، نصرت حارث سے ۔

کیریئر کا آغاز شادی کے بعد کیا، بچوں کے بعد مزید کامیابیاں ملیں
نمایندہ جنگ سے بات چیت کرتے ہوئے

س:آپ چارٹرڈ اکاؤنٹینسی کی طالبہ تھیں، تو میڈیا کی طرف کیسے آگئیں؟

ج: جی بالکل! مَیں چارٹرڈ اکاؤنٹینسی ہی کی طالبہ تھی اور مجھے یہی لگتا تھا کہ مَیں ایک کام یاب چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ بنوں گی، لیکن وہ کہتے ہیں ناں ’’قسمت کا لکھا کوئی نہیں بدل سکتا‘‘ تو بس میرے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا۔ در اصل میری شادی بہت جلد ہوگئی تھی،یعنی اُس وقت سے پہلے ، جومیرےیا میرے والدین کے ذہن میں تھا۔لیکن شادی کے بعدبھی میرے ذہن میں یہی تھا کہ سی اے کی تعلیم مکمل کروں گی۔ تاہم، جب شادی شُدہ زندگی کاآغاز ہوا، تو مجھے اور میرے شوہر کو احساس ہوا کہ اگر مَیں اکاؤنٹینسی کے شعبے سے منسلک ہوجاؤں گی، اُسی میں کیریئر بنا ؤں گی، تو فیملی نظر انداز ہوگی، کیوں کہ وہ ایک ٹائم ٹیکنگ شعبہ ہے، تو پھر میرا زیادہ تر وقت دفتر میں گزرتا۔ اس لیے ہم نے یہ طے کیا کہ مَیں اپنا کیریئر تو بناؤں گی، لیکن کسی اور فیلڈ میں۔ اُس وقت مجھے بس اتناپتا تھا کہ مجھے کچھ کام کرنا ہے، کیا کرنا ہے، کس فیلڈ میں جانا ہے کچھ نہیں سوچا تھا۔ سو، مَیں نے کچھ عرصے اپنے ہی کالج میں(جہاں سے مَیں سی اے کر رہی تھی) موڈیول اے کےطلبہ کو انگریزی زبان پڑھائی، پھر ایک انٹر میڈیٹ کالج میں بھی پڑھایا ، مگر میرے ذہن میں ایک آپشن یہ بھی تھاکہ شاید مستقبل میں کسی بینک میں ملازمت کرلوں ۔اسی اثنا میرے شوہر کے پاس اُن کےایک دوست کی کال آئی اور انہوں نے بتایا کہ ایک چینل پر ’’ہسبینڈ نومی نیٹس وائف‘‘ کے نام سے ایک پروگرام کا آغاز ہورہا ہے، جس میں ایک نوجوان شادی شُدہ جوڑے کی ضرورت ہے۔ ہماری اُن دنوں نئی نئی شادی ہوئی تھی، تو ہم بہ خوشی چلے گئے۔ سو، بنیادی طور پرمَیں نے وہاں سے میڈیا انڈسٹری میں قدم رکھا۔

س: ’’مارننگ شو‘‘ کی میزبانی کا آغاز کب اور کیسے کیا؟

ج: 2006ء میں ایک بزنس چینل کوصبح 8 سے 2 بجے تک انگریزی زبان میں خبریں پڑھنے کے لیے نیوز اینکر کی ضرورت تھی،اوقاتِ کار میرے لیے مناسب تھے، تو مَیں نے وہاں سے آن اسکرین جاب کا آغاز کیا،جہاں مَیں خبریں پڑھنے کے ساتھ بزنس شو بھی کرتی تھی، مگر نیوز اینکرنگ صرف ایک ہی ماہ کی، کیوں کہ مجھے اندازہ ہوگیا تھا کہ مَیں یہ کام نہیں کر سکتی۔اسی سال مجھے دوسرے بزنس چینل سے آفر ہوئی، جہاں مَیں نے اسٹاکس/کاروبار/ معیشت پر پروگرامز کیے، خبریں بھی پڑھیں،’’ جیو نیوز‘‘ کے مشہور شو ہوسٹ، شاہ زیب خان زادہ بھی وہاں میرے ساتھ ہوتے تھے اورہم نے بہت اچھا وقت گزارا، وہ تب سے آج تک مجھے ’’بھابھی ‘‘ہی کہتے ہیں۔ کیریئر کے آغاز کے چھے مہینے مختلف بزنس چینلز سے وابستہ رہنے کے بعد مجھے ایک نجی نیوز چینل سے رمضان ٹرانسمیشن کی آفر ہوئی ۔ یوں مَیں نے عام نوعیت کے پروگرامز کا آغاز کیا،اس بات کا ذکر ضروری ہے کہ اُس وقت چوں کہ ’’رمضان ٹرانسمیشن‘‘ کے ٹرینڈ کا آغاز ہو رہا تھا، تو وہ شوز آج کل کی رمضان نشریات سے بالکل الگ ہوتے تھے، چھوٹی سے چھوٹی بات یا سیگمینٹ شروع کرنے سے پہلےباقاعدہ میٹنگز ہوتیں، سنجیدگی کو ملحوظِ خاطر رکھا جاتا ۔2007ء یا 2008ء میں،اُسی چینل پر ’’مارننگ شو‘‘ کا آغاز ہوا، تو مجھے اس کی میزبانی کا موقع ملا، اس شو کی خاص بات یہ تھی کہ اُس میں تین میزبان (مَیں، فرید رئیس اور فاطمہ آدرش) تھے۔وقت کے ساتھ باقی دو میزبان چلے گئےاور پھرمَیں اکیلے ہی میزبانی کے فرائض انجام دینے لگی۔ 2010ء میں، مَیں پاکستان ٹیلی وژن سے وابستہ ہوگئی اور 2013ء تک مارننگ شو کرتی رہی، بعد ازاں ، تین سال ایک نجی چینل میں مارننگ شو کی میزبانی کی اور پھر 2017ء میں دوبارہ پی ٹی وی سے وابستہ ہوکر مارننگ شو کی میزبانی کے فرائض انجام دینا شروع کیے، جو آج تک جاری ہیں۔

س:فیلڈ میں آنے کے بعد کن مشکلات کا سامنا کرنا پڑا؟

ج: مشکلات کا سامنا تو سب کو کرنا پڑتا ہے۔ مَیں اصل میں کافی کم عُمری میں میڈیا میں آئی تھی، تو شروع میں ذرا ذرا سی باتوں پر پریشان ہوجاتی تھی۔ مجھے نہیں معلوم تھا کہ لوگ آپ کی ترقّی کا راستہ روکنے کے لیے بے جا تنقید بھی کرتے ہیں۔ پھر دوسری بات یہ کہ میری اپنی کچھ حدود و قیود ، کچھ اصول و ضوابط تھے ، لوگوں نے اس حوالے سے مجھے تنگ کرنے کی کوشش کی، مجھے اُن حدود سے باہر نکلنے کی ترغیب دی، لیکن اللہ پاک کا احسان ہے کہ اُس نے مجھے استقامت دی اور مَیں نے اپنی حدود میں رہتے ہوئے ہی کام یابیاں حاصل کیں۔ ہماری فیلڈ میں کہا جاتا ہے کہ شادی یا بچّوں کے بعد کیریئر ختم ہوجاتا ہے، لیکن مَیں نے اس نظریے کو غلط ثابت کیا۔ مَیں تو آئی ہی شادی کے بعد تھی اور یہ بات کسی سے ڈھکی چُھپی نہیں ۔ میرےتینوں بچّے(حمزہ، عائزہ اور محمّد) میڈیا میں آنے کے بعد ہوئے اور ہر بچّے کی دنیا میں آمد کے ساتھ مزید کام یابیاں نصیب بنتی چلی گئیں۔ میرا خیال ہے کہ دنیا میں آنے والا ہربچّہ اپنے والدین کے لیے رحمتیں لے کر آتا ہے۔ البتہ، یہ ضرور ہے کہ مَیں نے اپنے بچّوں کی تعلیم و تربیت کے لیے کچھ قربانیاں ضرور دیں، جو اگر مَیں نہ دیتی تو شاید مجھے اور زیادہ نام اور کام یابیاں ملتیں، مگر مَیں نے ایسی تمام آفرز کو ٹھکرا دیا ،جن میں ٹریولنگ زیادہ کرنی پڑتی یا بچّوں، فیملی سے دور رہنا پڑتا۔

س: خاندان،ابتدائی تعلیم و تربیت کے متعلق کچھ بتائیں؟

ج: میرا تعلق کراچی سے ہے ۔ والدین کی اکلوتی اولاد ہوں۔ والد ایڈووکیٹ، سپریم کورٹ (اب پریکٹس نہیں کرتے) اور والدہ گھریلو خاتون ہیں۔ اکلوتی ہونے کے باعث بچپن ہی سے والدین کی ساری توجّہ کا مرکز و محور رہی۔ مَیں نے 2000ء میں فیلکن ہاؤس گرامر اسکول، کراچی سےاو لیولز کیا، اے لیولز میں داخلہ لینا چاہتی تھی، لیکن لوگوں نے کہا کہ ابھی پاکستان میں لوگوں کو کیمبرج سسٹم کے حوالے سے اتنی آگہی نہیں ہے، تو ہو سکتا ہے آگے جا کر داخلہ ملنے میں پریشانی ہو۔ سو، مَیں نے انٹر میں داخلہ لے لیا۔بعد ازں، سی اے اور اسی کے ساتھ بی کام میں بھی داخلہ لے لیا، تاکہ پروفیشنل ڈگری بھی مل جائے۔ ابھی مَیں سی اے کے موڈیول سی میں تھی کہ نکاح ہوگیا اور سی اے، موڈیول ڈی اور بی کام فائنل کا امتحان شادی کے بعد پاس کیا۔ اُس کے بعد کچھ عرصے کے لیے پڑھائی کا سلسلہ رُک ضرور گیا، لیکن مَیں نےاسے منقطع نہیں ہونے دیا، انگریزی ادب میں ماسٹرز کیا اور اب بزنس ایڈ منسٹریشن میں ماسٹرز کر رہی ہوں، جس کے دو سیمسٹرز تو کلیئر کر لیے ہیں ۔اللہ کرے، کوئی رکاوٹ نہ آئے، تو ایم بی اے بھی جلدمکمل کر لوں گی۔

س: بچپن کیسا گزرا؟

ج: بچپن ہر حوالے سےبہت اچھا اور یاد گار ہا۔ ابّو میری ہر خواہش پوری کرتے ، کبھی اونچی آواز میں بات نہیں کی اور امّی تو آج تک بچّوں کی طرح ٹریٹ کر تی ہیں۔البتہ، وہ پڑھائی سے لے کر ہر معاملے میں ذرا سخت تھیں۔ ابّو چھٹیوں سے پہلے ہی سوچ لیتے تھے کہ مجھے کہاں لے کر جانا ہے، انہوں نے بہت سیر و تفریح کروائی۔مختلف مُلکوں اور شہروں کی سیر تو زیادہ تر والدین کرواتے ہی ہیں، مگر میرے ابّو نے مجھے دیہات، دیہی زندگی، پہاڑ، جھرنے، دریا، ریگستان، سمندر سب کچھ دکھایا۔ویسے تو بچّے کی زندگی اور شخصیت پر ماں ، باپ دونوں کی تربیت کا اثر ہوتا ہے، لیکن مَیں اس حوالے سے بہت زیادہ خوش قسمت ہوں کہ میرے ہر فیصلے میں ابّو نے میرا ساتھ دیا۔جب مَیں سیکنڈری اسکول میں تھی، ایک دن اسکول میں کیمبرج سسٹم کے حوالے سے نوٹس آیا ، تو مَیں نےگھر آکے ابّوسے پوچھا کہ کیمبرج سسٹم کیا ہوتا ہے؟ مجھے بھی او لیولز کرنا ہے، تو ابّو نے مجھے او لیولز میں داخلہ دلوادیا، پھر اسی طرح مَیں نے کہا مجھے سی اے کرنا ہے، یہ جانتے ہوئے بھی کہ چارٹرڈ اکاؤنٹینسی کی تعلیم قطعی آسان نہیں ، انہوں نے مجھ پر یقین کیا اورداخلہ دلوادیا۔ ہمیشہ مجھ سے یہی کہا کہ ’’تم سب کچھ کر سکتی ہو۔‘‘ اکثر لوگ اُن سے پوچھتے کہ ’’آپ کی ایک ہی بیٹی ہے؟ کوئی بیٹا نہیں ؟‘‘ تو ابّو فوراً کہتے ’’میری ایک بیٹی، دس بیٹوں کے برابر ہے۔‘‘اُس وقت مجھے اُن کی یہ باتیں سمجھ نہیں آتی تھیں، بلکہ مجھے الجھن ہوتی ، ایک دباؤ محسوس ہوتا تھا کہ ’’پتا نہیں ابّو مجھے کیا سمجھتے ہیں، امّی کیوں کہتی رہتی ہیں کہ بڑے ہو کر تمہیں بھی ابّو کی طرح نام کمانا ہے۔‘‘لیکن جیسے جیسے بڑی ہوتی گئی ، مجھےاُن کی خودسے وابستہ اُمیدوں کی وجہ سمجھ آتی گئی۔ ابّو کی اِک اِک بات میری خود اعتمادی میں اضافہ کرتی گئی۔ اور اب وہی لوگ میرے والدین سے کہتے ہیں کہ ’’واقعی بیٹی نے آپ کا نام روشن کردیا، بیٹے کی کمی پوری کر دی وغیرہ وغیرہ…‘‘

کیریئر کا آغاز شادی کے بعد کیا، بچوں کے بعد مزید کامیابیاں ملیں
شریکِ زندگی، رفیقِ سفر، شوہر اور کُل کائنات، بچّوں کے ساتھ

س: شادی سے پہلے کی زندگی بہتر ہوتی ہے یا شادی کے بعد کی؟

ج: دونوں ہی زندگیوں کا اپنا ایک لُطف ہے۔ مَیں نے شادی سے پہلے بھرپور زندگی جی، والدین، بالخصوص والد نے تحفّظ و اعتماد دیا اور الحمدُ للہ ! شادی کے بعد بھی خوشیوں بھری زندگی گزار رہی ہوں۔ اور یہ تب ہی ممکن ہے ، جب آپ کا رفیقِ حیات محبّت کرنے والا، ساتھ دینے والا، اعتماد کرنے والا اورروشن خیال ہو۔ میرے شوہر (حارث) نے ہر قدم پرمیرا ساتھ دیا، میری ہر کام یابی کی خوشی اور چمک ان کی آنکھوں میں صاف نظر آتی ہے۔

س: شوہر کیا کرتے ہیں؟

ج: حارث کا ٹیکسٹائل اوگزیلیریز، رئیل اسٹیٹ کا بزنس ہے ۔ اِس کے علاوہ ہم دونوں کی ’’ایونٹ کو‘‘ کے نام سے ایک کمپنی بھی ہے، جس میں ہم پی آر، پروڈکشن، بزنس ڈویلپمنٹ وغیرہ سے متعلق کام کرتے ہیں۔

س: کبھی خیال آیا کہ اکاؤنٹینسی ہی میں کیریئر بنا لیتی، میڈیا کے حالات دیکھ کر اپنے فیصلے پر افسوس ہوتا ہے؟

ج: بالکل نہیں! میرا یہ خیال ہے کہ اللہ تعالیٰ سے بہتر انسان کو اور کوئی نہیں جانتا، وہ ہماری صلاحیتیں، قابلیت اورطاقت کو ہم سے بہت بہتر جاننے والا ہے۔ آپ میری زندگی دیکھیں، اکاؤنٹینسی سے ٹیچنگ اور پھر میڈیا میں آنا، محض اتفاق نہیں ہے، اللہ تعالیٰ مجھ سے جو کام لینا چاہتا تھا، وہی لے رہا ہے،مَیں ہر جگہ سے گھومتی پھرتی اُس مقام پر پہنچ گئی، جہاں پہنچنا تھا۔اس فیلڈ میں آنے کے بعد مجھے اندازہ ہو اکہ مجھ پرشو کے ذریعے معاشرے کی اصلاح، لوگوں کی تعلیم و تربیت یا مدد کرنے کی بہت بڑی ذمّے داری عاید ہوتی ہے۔ میڈیا کو بہت سے لوگ اپنے اپنے تجربات اور نظریات کے حساب سے دیکھتے ہیں،مگر مجھے لگتا ہے کہ یہ بہت طاقت وَر پلیٹ فارم ہے، جس کے ذریعے معاشرے میں خیرکی تعلیمات عام کی جا سکتی ہیں۔ البتہ، مَیں یہ ضرور کہوں گی کہ جو لوگ میڈیا میں آنا چاہتے ہیں،وہ اس فیلڈ کی باقاعدہ تعلیم لے کر آئیں، تاکہ بہتر کام سامنے آسکے۔

س: عمومی مارننگ شوز میں یہ جو ’’ شادی کلچر‘‘ کو اس قدر فروغ دیا جاتا ہے، اس حوالے سے کیا کہیں گی؟

ج: دیکھیں جہاں تک بات ہے مارننگ شوز میں ’’شادی کلچر‘‘ کے فروغ کی ،تو یہ فردِ واحد یا میزبان کی اپنی مرضی سے نہیں ہوتا۔ اس میں بہت سے لوگ، بہت سے عناصرجیسے مارکیٹنگ، سینئر ڈائریکٹرز، پروڈیوسرز، چینلز پالیسیز وغیرہ شامل ہیں۔اب وہ زمانہ نہیں رہا کہ جب ڈائریکٹر، پروڈیوسر یا اسکرپٹ رائٹر کے مطابق شو چلتے تھے، اب زیادہ تر چیزیں مارکیٹنگ کے حساب سے چلتی ہیں۔ آغاز میں ایک آدھ مرتبہ جب عوام نے مارننگ شوز میں شادیاں دیکھیں اور ریٹنگ بڑھی، تو سب نے اُسی ٹرینڈ کو فالو کرنا شروع کردیا اور ایسا صرف مارننگ شوز میں نہیں ہوتا، ڈراما انڈسٹری کا بھی یہی حال ہے، کرائم شوز میں بھی ایسا ہی ہوتا ہے۔ جب سچّی کہانیوں پر مبنی شوز بننا شروع ہوئے ، ہر چینل نے وہی ٹرینڈ اپنا لیا۔ دَر حقیقت یہ ہماری پوری میڈیا انڈسٹری کا المیہ ہے کہ تخلیقی کام نہیں ہورہا، سب بھیڑ چال کے شکار ہیں۔ میڈیا کا تو کام ہی لوگوں میں شعورو آگہی بیدار کرنا ہے،جب کہ ریٹنگ کم ہونے کے خوف میں مبتلا لوگ کبھی تخلیقی کام نہیں کر سکتے۔ یہاں اس بات کا ذکر ضروری ہے ، چوں کہ ’’پاکستان ٹیلی وژن‘‘سرکاری ادارہ ہے، اس لیے یہاں مارکیٹنگ کا عمل دخل اتنا زیادہ نہیں ، ہمارے لیے ریٹنگ سے زیادہ ضروری عوام کی تربیت، ان میں شعور و آگہی بیدار کرنااور ان کی مدد کرنا ہے۔ویسے بھی مَیں نےاپنے پورے کیریئر میں ماسوائے ایک مرتبہ ، کبھی شو میں شادیاں نہیں کروائیں۔ وہ ایک شادی بھی اس لیے کروائی، کیوں کہ ایک خاتون نے ہمیں خط لکھا کہ ’’ میرے شوہر معذور اور ہم بہت غریب ہیں، مَیں کبھی دُلہنوں کی طرح نہیں سجی اور میری خواہش ہے کہ آپ اپنے شو میں میری شادی کروائیں۔‘‘ بس اس خواہش کی تکمیل کے لیے ہم نے شادی کروائی ، ورنہ مجھے خود یہ ٹرینڈ پسند نہیں۔ مَیں اپنے شو ’’صبحِ نو‘‘ میں صرف بیوٹی، کپڑوں، میک اَپ، کھانوں وغیرہ ہی کی بات نہیں کرتی ، بلکہ ہر موضوع جیسے کرنٹ افیئرز، سماجی مسائل پر بھی بات کرتی ہوں۔

س: کیا آپ اب بھی سی پی ایل سی سے وابستہ ہیں؟

ج: مَیں 2014ء میں قائم ہونے والے سٹیزن پولیس لائژن کمیٹی (سی پی ایل سی) کے ویمن وِنگ، کراچی کی چیئر پرسن تھی، مگر اب صرف اُس مخصوص شعبے سے وابستہ نہیں ہوں۔ سی پی ایل سی کی ممبر تو اب بھی ہوں، مگر اب ہمارے پاس صرف خواتین سے متعلق نہیں ، ہر طرح کے کیسز آتے ہیں، جنہیں حل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔

س: آج کی عورت کن مشکلات کا شکار ہے؟

ج: ہمارے معاشرے میں خواتین مسائل کا شکار ہیں بھی اور نہیں بھی۔ یعنی کچھ جگہوں یا خاندانوں میں تو بیٹی کو ہر سہولت میّسر اور ہر قِسم کی آزادی حاصل ہےاور کہیں وہ بے چاری وٹّے سٹّے، تعلیم سے محرومی کا شکار نظر آتی ہے۔ سی پی ایل سی اور شو میں آنے والی کالز، خطوط ، ای میلز سے مَیں نےجو نتیجہ اخذ کیا، وہ یہ ہے کہ آج کل شادی کے بعد کے مسائل بڑھتےجا رہے ہیں۔ میاں، بیوی ذار ذرا سے مسائل کورٹ کچہری تک لے جاتے ہیں، صبر وتحمّل، برداشت ختم ہوگئی ہے، ایسا لگتا ہے گھر نہیں بسایا ،گڈّے ، گڑیا کا کھیل رچایا ہے، جو ذرا سی لڑائی میں ختم ہوگیا۔

س: گھر اور دفتر کیسے بیلنس کرتی ہیں؟

ج: مجھ پہ اللہ تعالیٰ کا کچھ زیادہ ہی کرم ہےکہ مجھے انتہائی سپورٹیو فیملی ملی ہے۔ ویسے تو میرے شوہر کھانے پینے کے بے حد شوقین ہیں، لیکن اُن کی کبھی یہ خواہش نہیں رہی کہ میری بیوی ہر وقت میرے لیے طرح طرح کے پکوان بناتی رہے ۔ دِل چسپ بات یہ ہے کہ میری طرح میرے شوہر بھی اکلوتے ہیں اور بد قسمتی سے اُن کے والدین کا انتقال ہوچکا ہے، تو اب میرے والدین ہمارے ساتھ ہی رہتے ہیں۔ اس لیے گھر کے تمام معاملات امّی ہی دیکھتی ہیں، پھر میرے شوہر بھی روایتی شوہروں کی طرح نہیں ، جو بیوی کا ہاتھ نہ بٹائیں، میری بہت سی ذمّے داریاں انہوں نے اُٹھائی ہوئی ہیں۔ گھر میں میری بنیادی ذمّے داری بچّے، اُن کی پڑھائی، ہوم وَرک ، پراجیکٹس وغیرہ دیکھنا، اُن کی تربیت کرنا اور ان کی روز مرّہ کی کہانیاں سُننا ہے۔

س: رمضان میں تمام مارننگ شوز میں خواتین سر ڈھک کر آتی ہیں اور ’’عید شو‘‘ میں ناچ گانا شروع ہوجاتا ہے، تو ایک روز بعد اتنی بڑی تبدیلی کچھ عجیب سی نہیں معلوم ہوتی؟

ج: میرا خیال ہے کہ ڈانس والا ٹرینڈ اب کافی حد تک کم ہوگیا ہے۔ جہاں تک بات ہے، عید شو میں ناچ گانے کی، تو ویسے اس کا صحیح جواب وہی لوگ دے سکتے ہیں، جو اس کا حصّہ ہیں یا جن کے شوز میں ایسا ہوتا ہے۔ ہمارے شو میں تو ایسا کچھ نہیں ہوتا۔ البتہ، مَیں یہ ضرور کہنا چاہوں گی کہ عید شو کی ریکارڈنگ پہلے ہی ہوجاتی ہے، تو جو ناظرین یہ سوچتے ہیں کہ رمضان کے اگلے ہی دن ناچ گانا شروع کر دیا ،تو ایسا صرف اُنہیں لگ رہا ہوتا ہے، زیادہ تر شوز ریکارڈِڈ ہوتے ہیں۔ اب بات کرتے ہیں ،سر پہ دوپٹا لینے کی، مَیں نے بارہا یہ تنقید سُنی ہے کہ رمضان میں ساری اینکرز یا شو ہوسٹس سر ڈھک لیتی ہیں، باقی مہینوں میں ایسے کیوں نہیں رہتیں ،تو بھئی ! جب ہم حج، عُمرے، مقدّس مقامات کی زیارت یاکسی محفلِ میلاد میں جاتے ہیں، تو احتراماً سر ڈھک لیتے ہیں، رمضان المبارک بھی ہمارے لیے انتہائی مقدّس مہینہ ہے، تو اس کے احترام میں سر ڈھکنا کوئی غلط بات نہیں۔ آج کل تو بہت سی ٹاک شو میزبانوں نے بھی سر پہ دوپٹا اوڑھنا شروع کردیا ہے، جو بہت اچھی بات ہےاور شاید مَیں بھی مستقبل میں آن ایئر اورآف ایئرسر ڈھانپنا شروع کردوں، لیکن جب ایسا کروں گی، تو وہ کچھ دنوں، مہینوں کے لیے نہیں، ہمیشہ کے لیے ہوگا۔

س: زندگی کا بہترین یا یادگار شو کون سا تھا؟

ج: آپ کو ایک بات بتاؤں ،ضروری نہیں کہ کوئی یاد گار یا بہترین شو کسی بہت بڑی شخصیت کے ساتھ ہی ہو، کبھی کبھار بہت عام و سادہ سےلوگ بھی آپ کو رُلادیتے ہیں۔ اُن کی باتیں دل پر اثر کر جاتی ہیں۔ جیسے جب ہمارے مُلک میں انتہا پسندی اور دہشت گردی کے واقعات عروج پر تھے ، تو ایک روز ہمارا ایک رپورٹر، رپورٹنگ کر رہا تھا اور دھماکا ہوگیا، جس میں وہ جاں بحق ہوگیا،تو جب وہ واقعہ یاد کرتی ہوں، رونگھٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ اسی طرح کچھ برس پہلےگیاری سیکٹر، سیاچن میں برف کا تودہ گرنے سےجب ہمارے کچھ فوجی جوان شہید ہوئے، تو ہم نے اُس پر شو کیا ۔ ان جوانوں کے والدین سے بات کرکے، اُن کےآنسو ، جذبات دیکھ کردل بڑا ہی گھائل ہوا۔ پھرمَیں نے بہت سے دارالامان میں ایسے والدین اور بچّوں سے ملاقات کی، جن کے والدین یا اولاد انہیں وہاں چھوڑ گئی، تو ان کا غم، تکلیف، صدمہ اور بے بسی بھی دیکھی نہیں گئی کہ اُسےکوئی کیمرا قید کر سکتا ہے اور نہ ہی کوئی قلم بیان ۔

س: کہتے ہیں میڈیا میں کوئی کسی کا دوست نہیں ہوتا، آپ اس بات سے کتنا اتفاق کریں گی؟

ج: یہ صرف میڈیا تک محدود نہیں ، آج کل ویسے بھی سچّے دوست کم ہی ملتے ہیں۔ جہاں تک میری بات ہے، تو مَیں ہر کسی سے اچھی سلام دُعا رکھتی ہوں، لیکن دوست بہت کم ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ میری پہچان صرف ’’مارننگ شو ہوسٹ‘‘ کی نہیں، بلکہ ماں، بیوی اور بیٹی کی بھی ہے۔ شو کے بعد مجھے اپنا گھر بار، بچّےدیکھنے ہوتے ہیں،مَیں رات گئے پارٹیز یا فیملی کے بغیر ڈنرز وغیرہ پر نہیں جاتی۔اس لیے میڈیا میں جن لوگوں سے فیملی ٹرمز ہیں ، بس انہی سے دوستی ہے۔

تازہ ترین