• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کبھی خوبی قاتل بن جاتی ہے۔کامران فیصل کے المیے کا عنوان یہی ہے۔وہ قومی احتساب بیورو کے افسر کی حیثیت سے کرائے کے بجلی گھروں کے اسکینڈل کی تحقیقات کر رہے تھے جس پر 22/ارب روپے خرچ ہوئے لیکن ایک وولٹ بجلی حاصل نہ کی جاسکی۔رینٹل پاور ایک فراڈ منصوبہ تھا۔تمام اقتصادی ماہرین اس بات پر متفق ہیں۔اس منصوبے میں غیر ملکی کمپنیوں کو اربوں روپے ایڈوانس دیئے گئے اور کک بیکس کے ذریعے بھاری کمیشن وصول کیا گیا۔اس بلندوبالابدعنوانی کو اعلیٰ ترین سطح پر چھپانے کی کوشش کی گئی لیکن پھر معاملہ سپریم کورٹ کے ازخود نوٹس کی زد پر آگیا۔کامران فیصل تفتیشی افسر مقرر کردیئے گئے۔کامران فیصل کی تحقیقاتی رپورٹ سے کئی حکومتی شخصیات کی حیثیت دگرگوں ہوگئی۔رپورٹ میں قرار دیا گیا کہ اس اسکینڈل میں وزیراعظم راجہ پرویزاشرف سمیت تین سابق سیکریٹری خزانہ اور تیل اور توانائی سے متعلق اداروں کے سربراہ ملوث ہیں لیکن سب سے اہم شخصیت راجہ پرویزاشرف کی ہے۔ تفتیشی ٹیم نے انہیں سوالنامہ بھی بھیجااوراس کا جائزہ کامران فیصل اور ان کے ایک ساتھی افسر نے لیا تھا۔یہ کامران فیصل کی تفتیشی رپورٹ ہی تھی جس کی وجہ سے دائرہٴ اقتدار میں شریک اہم اور طاقتور ترین افراد زیرتفتیش ملزمان نامزدکردیئے گئے اور سپریم کورٹ نے وزیراعظم راجہ پرویز اشرف سمیت 16ملزمان کی گرفتاری کاحکم جاری کیا۔
کامران فیصل کی رپورٹ میں اعلیٰ عہدوں پر فائز جن لوگوں کی بدعنوانی کو نشانہ بناکرانہیں شدید نقصان پہنچایا گیاوہ نرم ونازک جذبوں اور ضمیرکی آواز کے طفیل ان عہدوں اور اثرورسوخ کی منزلوں تک نہیں پہنچے ہیں لہٰذا کامران فیصل کو روکنے کے لئے جس قوت کی ضرورت تھی وہ بروئے کار لائی گئی۔ نیب کے سربراہ ایڈمرل(ر)فصیح بخاری نے کامران فیصل کی رپورٹ کو ناقص قرار دے دیا اور تلخ اور ناخوش انداز میں انہیں تفتیش سے الگ کردیا گیا۔سپریم کورٹ اس انتقامی کارروائی میں رکاوٹ بنی۔جس کے نتیجے میں کامران فیصل دوبارہ عہدے پر بحال کر دیئے گئے لیکن مقدمے کی اگلی پیشی سے پہلے ہی انتہائی پُراسرار حالات میں فیڈرل لاج کے کمرے میں مردہ پائے گئے۔کامران فیصل کی المناک موت کو کئی زاویوں سے دیکھا جا سکتا ہے لیکن چیئرمین نیب فصیح بخاری کے لئے اس موت کی ایک ہی جہت تھی۔انہوں نے کامران کی تدفین کے اگلے ہی دن اعلان کردیاکہ کامران فیصل کی انکوائری مکمل ہونے تک رینٹل پاور کیس مؤخر رہے گا۔ کامران کی موت کا رینٹل پاور کیس سے تعلق مستحکم ہوگیا۔
کئی برس پہلے ٹریفک حادثے میں وفات پانے والے ایک صاحب کے بارے میں خبر چھپی تھی کہ ”ڈاکٹروں کی زبردست اور سر توڑ کوشش کے باوجود وہ جاں بحق نہ ہوسکے“۔خبر میں غلطی سے ”جانبر“کی جگہ”جاں بحق“چھپ گیا۔کامران کی موت کو بھی زبردست اور سرتوڑکوشش کے باوجود خودکشی باور نہ کرایا جا سکا۔ مبینہ قتل کو خودکشی ثابت کرنے کے لئے بڑی پھرتی اور تندہی سے کام کیا گیا۔ پوسٹ مارٹم رپوٹ بڑی جلدی میں جاری کی گئی جس میں کچھ اہم نکات کو نظر انداز کرتے ہوئے موت کو خودکشی قرار دیا گیا۔ کمیشن بڑی عجلت میں بنایا گیا۔ جسٹس جاوید اقبال کمیشن کے سربراہ مقررکئے گئے۔یہ تو تحقیقات کے بعد ہی پتہ چلے گا کہ کامران کی موت خودکشی تھی یا قتل لیکن نیب افسران جس شدت سے احتجاج کررہے ہیں اور جو سوال اٹھارہے ہیں انہیں نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔پمز اسپتال میں اعلیٰ ڈاکٹروں کی موجودگی کے باوجود پوسٹ مارٹم پولی کلینک اسپتال میں کیوں کرایا گیا۔پولی کلینک میں چھ ڈاکٹروں کاجو بورڈ بنایا گیا تھا اس ٹیم کی سربراہی کرنے والا ڈاکٹر پوسٹ مارٹم کا تجربہ نہیں رکھتا تھا۔موت کے بعد سب سے پہلے نیب حکام ان کے کمرے میں پہنچے اور لیپ ٹاپ اور فائلیں اٹھا کر لے گئے۔موبائل سے ڈیٹا بھی نکال لیا گیا۔سوشل میڈیا پر جاری کامران کی پنکھے سے لٹکی لاش کے پاؤں میز پر لگے ہوئے تھے۔اس صورت میں خودکشی ممکن نہیں۔ان کے جسم پر تشدد اور کلائیوں پر باندھے جانے کے نشانات تھے۔کوئی شخص اپنے ہاتھ باندھ کر خودکشی کیسے کر سکتا ہے۔کمرے کی تمام لائٹیں بند تھیں پھندا لگنے کے باوجود کامران کی آنکھیں باہر نکلی ہوئی نہیں تھیں۔قتل کہیں یا خودکشی حرف آخر یہ ہے کہ ایک حوصلہ مند اور ذمہ دار تفتیشی افسر راستہ سے ہٹا دیا گیا۔کامران فیصل پہلا افسر نہیں تھا۔پاکستان میں تفتیشی افسران کا قتل معمول کی بات ہے۔1995ء میں کراچی آپریشن میں شریک تمام S.H.Oہلاک کئے جاچکے ہیں۔1992ء کے آپریشن میں حصہ لینے والے 254پولیس اہلکار زندگی سے محروم کردیئے گئے۔عدل و انصاف کا جو نظام ہمارے ملک میں رائج ہے وہ تفتیشی افسران کے ساتھ ساتھ گواہوں کے ذریعے فیصلے تک پہنچنے کی کوشش کرتا ہے۔گواہوں کو اس حد تک خوفزدہ اور پریشان کرنا کہ وہ گواہی سے منحرف ہوجائیں ہمارے یہاں کوئی مشکل نہیں۔ قتل کے سو سے زائد مقدمات میں ملوث ہونے کے باوجود اجمل پہاڑی رہا کردیا گیا۔ گواہوں نے بیانات تبدیل کرلئے تھے جیو کے ولی بابر کیس کا حشر دیکھ لیجئے ایک ایک گواہ قتل کردیا گیا۔قتل و غارت کا وہ ماحول ہے کہ اب کوئی خبر حیران نہیں کرتی۔ ہم پندرہ سولہ افراد کے قتل کی خبر سنتے ہیں اور پھر ٹی وی بند کرکے آرام سے سو جاتے ہیں۔ خوف اور بے بسی ہمیں بے حسی کی منزل تک لے آئی ہے۔جرائم پیشہ گروہوں کے لئے یہ فضا مثالی ہوتی ہے۔ جس کو پیدا کرنے اور برقرار رکھنے کے لئے وہ ظلم اور وحشیانہ پن کی تمام حدیں پار کر دیتے ہیں۔ ہمیں سو ڈیڑھ سو سال پہلے کی سسلی جیسی صورتحال درپیش ہے۔سسلی میں مجرموں کے گینگ اور مافیاز اس وقت اتنے طاقتور تھے کہ سماج ان کے آگے سر نگوں تھا انہوں نے ایک قانون وضع کر رکھا تھا جسے "OMETRA" کہا جاتا تھا اور بالجبر اس کا اطلاق کرایا جاتا تھا۔ قاتل کو پہچاننے کے باوجود گواہوں پر لازم تھا کہ وہ خاموش رہیں تفتیشی افسر کیلئے طے تھا کہ وہ قاتلوں کو گرفتار نہ کرے اور جج کی زندگی اسی صورت میں محفوظ تھی کہ وہ قاتل کو سزا نہ دے۔ پاکستان میں بھی اس قانون کو سانس لیتا محسوس کیا جاسکتا ہے۔
تازہ ترین