• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عام انتخابات میں تحریک انصاف کو حکومت بنانے کا مینڈیٹ ملک میں سرکاری سطح پر کرپشن سمیت تمام مالی انتظامی و اخلاقی بدعنوانیوں کے خاتمے کیلئے دیا گیا تھا جس پر عملدرآمد کیلئے اس نے سامنے آنے والی سیاسی مزاحمت اور دوسری مشکلات کے باوجود اداروں کو سخت ترین اقدامات کرنے کی آزادی دی ہے۔ اس کے نتیجے میں جہاں اپوزیشن لیڈروں کے خلاف مقدمات بنے اور ان کی گرفتاریاں ہوئیں وہاں حکومتی شخصیات سے بھی کوئی رعایت نہیں برتی گئی۔ جہاں بڑے بڑے بیورو کریٹس پر ہاتھ ڈالا گیا وہاں ارب پتی تاجروں اور ان کے سہولت کاروں کو بھی عدالتوں میں لا کھڑا کیا گیا۔ مسلم لیگ پنجاب کے صدر اور قومی اسمبلی کے رکن رانا ثناء اللہ کی گرفتاری کا تازہ ترین واقعہ بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ انہیں انسدادِ منشیات کے ادارے اینٹی نارکوٹکس فورس نے فیصل آباد سے لاہور جاتے ہوئے راستے میں سکھیکی کے قریب حراست میں لیا۔ ان پر ابتدائی اطلاع کے مطابق منشیات فروشوں سے روابط کی بنیاد پر کارروائی کی گئی اور وزیراعظم کی معاون خصوصی برائے اطلاعات ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان کے بیان کے مطابق ان کی گاڑی سے جس میں وہ اور ان کے باڈی گارڈ بھی سوار تھے ،خفیہ خانوں میں چھپائی گئی 29کلو مبینہ منشیات جس میں 20کروڑ مالیت کی15کلو ہیروئن بھی شامل ہے، برآمد ہوئیں۔ یہ بھی بتایا گیا ہے کہ تین ماہ قبل اے این ایف کے سپیشل انویسٹی گیشن سیل نے منشیات کے غیر قانونی کاروبار سے تعلق رکھنے والے چھ سات افراد کو گرفتار کیا تھا جن سے تحقیقات کے دوران یہ بات سامنے آئی کہ یہ لوگ رانا ثناء اللہ کے ساتھ مل کر کام کرتے ہیں۔ ان شواہد اور ان کی کال ریکارڈنگ کی بنیاد پر ایک اور شخص کو بھی پکڑا گیا۔ ان سب پر یہ الزام ہے کہ وہ کالعدم تنظیموں کیلئے فنڈ بھی جمع کرتے تھے۔ انہی لوگوں سے تفتیش کی روشنی میں رانا ثناءاللہ کو گرفتار کیا گیا۔ اطلاعات کے مطابق اے این ایف نے سمن آباد لاہور میں رانا صاحب کے ڈیرے پر بھی چھاپہ مارا تھا جہاں مبینہ طور پر ایک بڑے سیاسی خاندان کے کچھ لوگ موجود تھے مگر وہ چھاپے سے قبل وہاں سے چلے گئے۔ پیر کو اے این ایف نے رانا ثناء اللہ کو عدالت میں پیش کیا جس نے انہیں جسمانی ریمانڈ پر جیل بھیج دیا۔ مسلم لیگی رہنما کی گرفتاری پر فیصل آباد میں لیگی کارکنوں نے شدید احتجاج کیا اور ٹائر جلا کر سڑک بلاک کر دی۔ پولیس نے ان پر لاٹھی چارج کیا اور کئی کارکنوں کو گرفتار کر لیا۔ فیصل آباد ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن نے اپنے رکن رانا ثناء اللہ کی گرفتاری کے خلاف پیر کو ہڑتال کا اعلان کیا اور گرفتاری کے اقدام کو غیرقانونی اور غیراخلاقی قرار دیا۔ اپوزیشن رہنمائوں میاں شہباز شریف، بلاول بھٹو زرداری، مولانا فضل الرحمٰن اور دیگر نے رانا ثناء اللہ کی گرفتاری کو سیاسی انتقام کی بدترین مثال قرار دیا ہے اور الزام لگایا ہے کہ حکومت اپوزیشن کے خلاف اداروں کو بے جا طور پر استعمال کر رہی ہے جبکہ حکومتی ترجمان نے اپوزیشن کے احتجاج کو بلاجواز قرار دیا اور کہا ہے کہ معاملے کو خواہ مخواہ سیاسی رنگ دیا جا رہا ہے۔ معاون خصوصی برائے اطلاعات فردوس عاشق اعوان کا کہنا ہےکہ اس معاملے سے حکومت کا کچھ لینا دینا نہیں۔ اطلاع ملی تھی کہ گاڑی سہولت کاری کیلئے استعمال کی جا رہی ہے جس پر اسے ناکہ لگا کر روکا گیا تو اس میں مختلف بیگز سے منشیات برآمد ہوئیں۔ اب اے این ایف کو عدالت میں ثبوت پیش کرنا ہوں گے جبکہ رانا ثناء اللہ کو بے گناہی ثابت کرنے کا پورا موقع ملے گا۔ سیاسی رہنمائوں کے خلاف اس طرح کے اقدامات کیلئے صحیح یا غلط، ہمیشہ حکومت ہی کو مورد الزام ٹھہرایا جاتا ہے۔ مناسب ہوتا کہ نواز شریف، آصف زرداری اور دوسرے لیڈروں کی طرح پہلے عدالت سے فیصلہ لیا جاتا اور گرفتار بعد میں کیا جاتا۔ ملک میں اس وقت جس طرح کی صورتحال ہے اس میں کوئی ادارہ ہو یا حکومت، کسی بھی اقدام سے پہلے اس کے منفی و مثبت پہلوئوں پر ضرور غور کر لینا چاہئے۔اے این ایف نے جو کارروائی کی ہے یقیناً اس کا جواز ہو گا جسے عدالت میں ثابت کرنا پڑے گا ورنہ ملک میں پہلے سے موجود سیاسی محاذ آرائی بڑھ جائے گی۔

تازہ ترین