• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مراکش کا شہر تنجیر اسلامی دنیا کی دو عظیم شخصیات طارق بن زیاد اور ابن بطوطہ کے حوالے سے دنیا بھر میں مشہور ہے۔ تاریخ اسلام کے عظیم سپہ سالار طارق بن زیاد کا تعلق اسی شہر سے تھا جن کی 711ء میں فتوحات کے نتیجے میں یورپ میں اسلام پھیلا جبکہ 14ویں صدی کے عظیم مسلمان سیاح ابن بطوطہ کا تعلق بھی تنجیر سے تھا۔ مراکو کے شمال مغرب میں واقع تنجیر شہر یورپ سے صرف 14 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے اور یہ سفر فیری پر آدھے گھنٹے میں طے کیا جاسکتا ہے۔ صاف موسم میں شہر سے جبرالٹر (جبل الطارق) کی روشنیاں نظر آتی ہیں۔ اسپین سے ملحق جبرالٹر وہ مقام ہے جہاں طارق بن زیاد نے اپنے ساتھیوں کے ہمراہ پڑائو ڈالا تھا اور اپنی کشتیاں جلاکر تاریخی تقریر کی تھی۔ طارق بن زیاد کی فتوحات کے نتیجے میں مسلمانوں نے اندلس جو آج اسپین اور پرتگال پر مشتمل ہے، پر تقریباً 800 سال تک حکمرانی کی۔

افریقہ کی تیز ترین ’’البراق ٹرین‘‘ جیسے ہی تنجیر ریلوے اسٹیشن پر آکر رکی اور میں باہر آیا تو گرمی کے موسم میں بھی ٹھنڈی ہوا کے جھونکے نے میرا استقبال کیا۔ اسٹیشن کی عمارت دیکھ کر ایسا لگا کہ جیسے میں کسی بڑے شاپنگ مال میں داخل ہوگیا ہوں جہاں دنیا کے ہر بڑے برانڈ کے شوروم، ریسٹورنٹس اور کیفے موجود تھے۔ تھوڑی ہی دیر میں تنجیر میں مقیم میرے دوست خالد بشیر مجھے اسٹیشن لینے آئے جو حال میں لندن سے یہاں شفٹ ہوئے ہیں اور تنجیر کے ساحل پر اُن کا پاکستانی کھانوں کا ریسٹورنٹ ہے۔ اس بار تنجیر آنے کا ایک مقصد ابن بطوطہ کی قبر پر حاضری دینا تھا جو تنجیر میں ’’اولڈ مدینہ‘‘ کے وسط میں واقع ہے۔ سینکڑوں سال پرانا بلندی پر واقع ’’اولڈمدینہ‘‘ دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے۔ میں جب اپنے دوستوں خالد بشیر، کامران قیوم اور نذیر احمد کے ساتھ اولڈ مدینہ کی تنگ گلیوں سے گزرا تو وہاں بنے پرانے گھروں کی بیرونی دیواروں جنہیں نیلے رنگ سے پینٹ کیا گیا تھا، کو دیکھ کر بہت متاثر ہوا جس سے اولڈ مدینہ ’’بلیو سٹی‘‘ کا منظر پیش کررہا تھا۔ پھولتے سانس کے ساتھ اولڈ مدینہ کی تنگ گلیوں میں بلندی پر چڑھتے ہوئے یہ توقع کررہا تھا کہ شاید ابن بطوطہ کا کوئی بڑا مقبرہ ہوگا مگر وہاں پہنچنے پر یہ دیکھ کر حیرانی ہوئی کہ ابن بطوطہ کی قبر ایک چھوٹے کمرے میں تھی جبکہ کمرے کے باہر نصب تختی پر ابن بطوطہ کا نام اور تاریخ پیدائش و وفات درج تھی۔ کمرے کے دروازے پر تالا لگادیکھ کر بڑی مایوسی ہوئی تاہم قریب کھڑے ایک نوجوان نے میری مشکل آسان کرتے ہوئے ابن بطوطہ کی قبر کے نگراں مختار نامی شخص کا فون نمبر دیا۔ مختار کو فون کرنے اور پاکستان سے یہاں آنے کا مقصد بیان کرنے پر اس نے ہمیں کچھ دیر انتظار کرنے کا کہا۔ انتظار کے یہ لمحات بڑی مشکل سے گزرے اور جب تھوڑی دیر میں ایک ضعیف نابیناشخص ہاتھ میں چھڑی لئے وہاں پہنچا جس نے آتے ہی ہمارے ہاتھ میں کمرے کی چابی تھمادی۔ 10x10 کے کمرے میں موجود ابن بطوطہ کی قبر دیکھ کر بڑی حیرانی ہوئی۔ مختار نے بتایا کہ وہ ابن بطوطہ کے خاندان سے تعلق رکھتا ہے اور اس کی زندگی ابن بطوطہ کی قبر کی نگرانی کرتے گزری ہے۔ اس نے بتایا کہ ابن بطوطہ کا اصل نام محمد بن عبداللہ تھا جنہوں نے اپنی سیاحت کا آغاز 21سال کی عمر میں 1325 میں اسی جگہ سے کیا اور 29 سال دنیا کی سیاحت میں گزارے۔ وہ اسی چھوٹے کمرے میں قیام کرتے تھے اور ان کی موت کے بعد ان کی خواہش پر انہیں یہیں دفنادیا گیا۔ اپنے سفر کے دوران انہوں نے اپنی کتاب ’’Rihla‘‘ لکھی۔ میں نے مختار کی معلومات میں اضافہ کرتے ہوئے بتایا کہ میں پاکستان سے آیا ہوں اور ابن بطوطہ سیاحت کی غرض سے سندھ، پاک پتن اور ملتان اس وقت تشریف لائے تھے جب پاکستان برصغیر کا حصہ تھا۔میں نے مختار سے دریافت کیا کہ کیا پاکستان سے کبھی کوئی بڑی شخصیت آئی ہے تو اس نے لاعلمی کا اظہار کیا اور بتایا کہ کبھی کبھار دنیا کی بڑی بڑی شخصیات ابن بطوطہ کی قبر کا پوچھتے ہوئے یہاں آجاتی ہیں۔

تنجیر میں قیام کے دوران ’’تنجیر میڈ‘‘ بندرگاہ کے وزٹ کا بھی موقع ملا جس کا شمار افریقہ کی سب سے بڑی اور دنیا کے 20 سرفہرست بڑے پورٹس یعنی بندرگاہوں میں ہوتا ہے۔ یہ پورٹ 8 ملین کنٹینرز، 7 ملین مسافر،7 لاکھ ٹرک اور دو ملین گاڑیاں ہینڈل کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اس پورٹ کی تکمیل پر اربوں ڈالر لاگت آئی ہے جس کے بعد شہر میں بہت زیادہ ترقیاتی کام ہوئے ہیں اور شہر ماڈرن اور خوبصورت شہر میں بدل چکا ہے۔آپ تنجیر آئیں اور اُس ساحلی مقام پر نہ جائیں جہاں بحر اٹلانٹک اور میڈیٹرین آکر ملتے ہیں تویہ بڑی ناانصافی ہوگی۔ اسپائرل نامی اِس مقام پر پانی کے دو مختلف رنگ دیکھ کر مجھے قرآن پاک کی وہ آیت یاد آگئی جس میں کہا گیا ہے کہ ’’وہ اللہ ہی ہے جس نے دو سمندروں کو باہم جوڑ دیا مگر پھر بھی اِن کے درمیان ایک آڑ ہے جس سے وہ تجاوز نہیں کرتے ہیں۔‘‘ اس مقام کے قریب ہی واقع ہرکولیس غار بھی دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے جس کے بارے میں مشہور ہے کہ سینکڑوں سال قبل یہاں ہرکولیس رہائش پذیر تھا۔ سمندر کی جانب کھلنے والے غار کے دہانے نے سینکڑوں سالوں میں پانی سے کٹائو کے باعث افریقہ کے نقشے کی شکل اختیار کرلی ہے۔

میں اس سے قبل کئی بار تنجیر آچکا ہوں مگر اس بار اس شہر کی ترقی، خوبصورتی اور دلفریب ساحلی مناظر دیکھ کر اس کے سحر میں گم ہوگیا۔ تنجیر سے رباط واپسی پر البراق ٹرین انتہائی تیز رفتاری سے رات کے اندھیرے میں رباط کی جانب گامزن تھی اور میں یہ سوچ رہا تھا کہ علم سے ہمیں شعور اور سیاحت سے دنیا کے بارے میں آگاہی حاصل ہوتی ہے اور سیاحت آپ کی تخلیقی صلاحیت میں اضافہ کرتی ہے جس سے ذہن میں نئے دریچے کھلتے ہیں۔ دنیا کی سیاحت کیلئے آپ کو بے شمار دولت کی نہیں بلکہ جذبے اور شوق کی ضرورت ہوتی ہے۔ دنیا میں جتنے بھی سیاح گزرے ہیں، وہ کوئی امیر شخصیات نہیں تھیں مگر ان کا جنون اور شوق انہیں دنیا کی سیاحت پر لے گیا۔ابن بطوطہ کی قبر پر آکر میرا اس بات پر یقین پختہ ہوگیا کیونکہ ابن بطوطہ غریب خاندان سے تعلق رکھتا تھا اور یہی چھوٹا سا کمرہ اس کا کل اثاثہ تھامگر اس نے دنیا کی سیاحت کا جنون اپنے محدود وسائل کے باوجود پورا کیا اور تاریخ کا حصہ بن گیا۔پاکستان سے ہر سال لاکھوں افراد سیاحت کی غرض سے امریکہ اور یورپی ممالک کا رخ کرتے ہیں جہاں اُن سے انتہائی ہتک آمیز سلوک کیا جاتا ہے اور اُنہیں دہشت گرد سمجھا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اسلامی ممالک بالخصوص مراکش کو بے انتہا حسن سے نوازا ہے۔ ہمیں چاہئے کہ ہم سیاحت کے حوالے سے اسلامی ممالک کو ترجیح دیں تاکہ اسلامی ممالک میں نہ صرف سیاحت کو فروغ ملے بلکہ اسلامی ممالک کی تاریخ اور ثقافت سے بھی آگاہی حاصل ہوسکے۔

تازہ ترین