• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ترقی پذیر ممالک کی اکثریت بوجوہ نحیف اقتصادی حالت اور سماجی پسماندگی میں مبتلا ہے۔ یہ ایک بڑا بین الاقوامی مسئلہ ہے کہ ان ممالک پر مشتمل عالمی آبادی کا ایک بڑا حصہ مطلوب درجے پر بنیادی انسانی ضرورتوں کے حصول سے بھی محروم ہے۔ یہ ایک عمومی مطالعہ و مشاہدہ ہے اور بار بار اور خطے خطے کی تحقیق بھی اس امر کی تصدیق کرتی ہے کہ یہ ترقی پذیر ممالک فقط وسائل کی کمی کے باعث ہی اس تکلیف دہ صورتحال سے دو چار نہیں، بلکہ مطلوب انسانی اور دیگر قدرتی وسائل کے باوجود، سست ترقیاتی عمل کے حامل یہ ترقی پذیر معاشرے کمزور اقتصادی حالت کے علاوہ بلکہ مختلف النوع بیمار سماجی رویوں کے باعث غیر معمولی حد تک منقسم اور اختلافات اور باہمی تنازعات کا شکار ہیں، جس کے باعث ان روایتی معاشروں میں سیاسی، سماجی عدم استحکام کی مسلسل کیفیت موجود رہتی ہے۔ یہ داخلی عدم استحکام پوٹینشل کے مطابق ان ترقی پذیر معاشروں کی مطلوب (اور ممکنہ) ترقی میں بڑی رکاوٹ ہے۔ یوں سماجی پسماندگی اور غربت کا باہمی تعلق اور ایک دوسرے کو مہلک معاونت، مسلسل سیاسی سماجی عدم استحکام کا باعث بنتی ہے جس میں موجود وسائل منجمد، غیر منظم اور انسانوں کی توجہ سے محروم رہتے، بڑی بے دردی سے ضائع ہو رہے ہوتے ہیں اور اندرون ملک اختلافات اور تفریق شدت اختیار کرکے سوشل اور اکنامک خلا (گیپس) شدید مایوسی میں تبدیل ہو کر تنازعات اور مسلسل چپقلش کا باعث بنتے ہیں۔ یہ ساری صورتحال بیڈ گورننس کی چھتری میں ایک عوام دشمن اسٹیٹس کو پورے ملک پر مسلط ہو کر طاقت پکڑتا جاتا ہے، جس میں ریاستی نظام اور اس کے تحت چلنے والے سیاسی اجارہ داریوں اور کنٹرول سے اپنے قیام کا مقصد کھو بیٹھتے ہیں۔ عوام اور حکومتوں میں ایک بڑا خلا پیدا ہو جاتا ہے، جس کا قائم رہنا حکمرانوں اور ان کے معاون مراعات یافتہ طبقات و افراد کے تو بے پناہ مفادات میں ہوتا اور وہ اپنی اہمیت، مالی و انتظامی طاقت سے اسے برقرار رکھنے پر پورا زور لگاتے ہیں۔

ترقی پذیر ممالک کا بڑا مسئلہ خطے کے اور ہمسایہ ممالک کے ساتھ عدم تعاون، اختلافات اور بعض صورتوں میں تنازعہ ہائے مسلسل ہی نہیں، خود ریاستوں کے اندر اندرونی اختلافات، انتظامی یونٹس میں ہم آہنگی کے فقدان اور سیاسی عمل میں مختلف فریقوں کے اختلاف کی شدت سے پیدا ہونے والا عدم استحکام قوم کی مظلوم اور ممکن زندگی اور اس کے نتائج کو کمر تر کر دیتا ہے۔

قومی مفاہمت، سیاسی ابلاغ میں کافی زیادہ استعمال ہونے والی ایک اصطلاح ہے، جو دراصل ایک سوچ، مسائل کا حل، قومی اتحاد کی ضرورت اور داخلی عدم استحکام پر قابو پانے کی ایک حکمت عملی ہے لیکن اس کا عمل میں ڈھلنا لازم ہے لیکن ہمارے پاکستان میں یہ سوچ بھی بہت محدود مقاصد کی حامل ہے۔ اپنی حکومت بچانے، احتساب سے بچنے اور حکمران یا بااثر طبقوں کے مفادات کے تحفظ برائے غیر منطقی، عارضی اور ڈھیلے ڈھالے عارضی سیاسی اتحادوں تک محدود ہو کر رہ گئی۔

ایک بڑے سوال کے ساتھ حیران کن امر یہ ہے کہ ترقی پذیر ریاستوں کا داخلی عدم استحکام و انتشار، جو ان اقوام کے موجود جامد پوٹینشل کو متحرک نہیں ہونے دیتا اور جس کے باعث غربت اور اس کے باعث سماجی پسماندگی عام ہو کر طاقتور اسٹیٹس کو میں تبدیل ہوتی ہے، اسے کم کرنے اور بتدریج کم تر یا ختم کرنے کا کوئی ماڈل، ان ممالک کی ہمدردی کا دم بھرنے والے عالمی مالیاتی اداروں، اقوام متحدہ کی ترقیاتی ایجنسیوں اور خود متاثرہ و مبتلا ممالک کے اہل نظر بہتر حکومت تشکیل کیوں نہیں دے سکے، حالانکہ سیاسی عمل و ابلاغ میں قومی مفاہمت کی سوچ بھی پائی جاتی ہے۔ خواہ یہ محدود گروہی و سیاسی حوالے سے ہی لیکن اس کو برائے عوام اور ملک کیوں استعمال و اختیار نہیں کیا جا سکتا؟

اندازہ لگائیں اور غور فرمائیں کہ ہم کتنی بے بس قوم بن چکے ہیں۔ پاکستان کے منتخب ایوانوں میں قانون سازی سے مکمل لاپروائی اور اس کی اہلیت کا فقدان ایک رویہ اور مسئلہ ہے، جو غیر سنجیدگی ، پھکڑ پن، شور وغوغا اور دنگا تک ان ایوانوں میں عام ہونے لگا ہے جو کچھ پنجاب حکومت اور علامہ طاہر القادری کی لاہور آمد پر ایک معمولی سے اختلاف پر ہوا۔ لیاری گینگ، ڈی جی خان میں چھوٹو گینگ کی رٹ ختم کرنے میں پولیس کی ناکامی اور فوج سے مدد، سوات، فاٹا میں جو کچھ ہوا، بڑی زمینداریوں میں قبائلی نوعیت کی دشمنیاں اور اس نوعیت کے ملک بھر میں سینکڑوں، مقامی یا اس سے اوپر کی سطح پر اختلاف اور دشمنیاں، لال مسجد سانحہ، بکٹی حکومت اختلاف، سوات میں ملاوئوں کی ریاست کے خلاف بغاوت اور ان سب کے خلاف اور زیادہ بگاڑ پیدا کرنے والے مختلف النوع ریاستی آپریشن کے علاوہ کیا کوئی طریق کار نہیں کہ فریقین کے درمیان مفاہمت اور شدت کم کرنے کے لئے کوئی ریاستی نظام موجود ہو۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ قومی مفاہمت کی سوچ اور حکمت عملی کو وسعت دے کر اس کے کثیر مقاصد کو واضح کرکے اس کی ادارہ سازی کرکے Intra state conflict resolutionکا ایک وسیع البنیاد ریاستی ادارہ وجود میں لایا جائے۔ وزیر اعظم عمران خاں اور ان کے متعلقہ معاونین غور فرمائیں۔

تازہ ترین