• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پنجابی میں کہتے ہیں”خواجے دا گواہ ڈڈو“ مگر یہاں معاملہ ملک کے دو قابل احترام قانون دانوں اور حقیقی جمہوریت پرستوں کا ہے، اس لئے میں یہ گستاخی نہیں کرسکتا۔سینیٹر رضا ربانی نے کہا”تین سالہ غیر آئینی سیٹ اپ لانے کی سازش ہورہی ہے“ اور نگران وزیر اعظم کے لئے صدر آصف علی زرداری و میانواز شریف کے حسن انتخاب محترمہ عاصمہ جہانگیر نے فوراً تائید کی کہ ہاں یہ تو ہے مگر دونوں نے بتایا نہیں کہ سازش کون کررہا ہے؟ آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی؟ جنرل ظہیر الاسلام؟ صدر زرداری؟ میاں نواز شریف؟ چیف جسٹس افتخار محمد چودھری؟ ہر دعویٰ دلیل مانگتا ہے مگر دونوں وکیل کوئی دلیل پیش کرنے سے قاصر ہیں۔ بس یہ ا صرار ہے ”مستند ہے”میرا فرمایا ہوا“
وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف نے گزشتہ روز اس سازشی تھیوری کو یہ کہہ کر رد کیا ہے کہ فوج، عدلیہ اور تمام جمہوری قوتیں جمہوری نظام کی حامی ہیں۔ پھر یہ شور و غوغا؟ سکول کے بچے کی کسی حیلہ جوئی جو امتحان کی تاریخ قریب آنے پر اپنی نالائقی ،نکما پن اور کام چوری چھپانے کے لئے بہانے بناتا ہے”جی ٹیچر نے سارا سال ٹھیک سے پڑھایا نہیں، فلاں رشتہ دار کی بیماری یا فوتیدگی کی وجہ سے ڈھنگ کی تیاری نہ ہوئی یا ممتحن مجھ سے ناراض ہے فیل ضرور کریگا وغیرہ وغیرہ۔
رضا ربانی کی بات تو دل کو لگتی نہیں البتہ وزیر داخلہ عبدالرحمن ملک نے گزشتہ روز کراچی چھن جانے اور فروری میں سنگین قتل و غارت کی جو بدخبری سنائی ہے اس نے وقت پر انتخابات کے انعقاد کومشکوک کردیا ہے۔ اپوزیشن لیڈر نثار علی خان کی طرف سے گورنروں کی تبدیلی، پارلیمنٹ کے سامنے دھرنے اور دیگر مطالبات کو اگر وفاقی حکومت کی طرف سے پنجاب کی تقسیم کا شوشہ چھوڑ کر ملک کے سب سے بڑے صوبے میں انتشار ،افراتفری ،ہنگامہ آرائی اور احتجاجی مظاہروں کے ساتھ ملا کر دیکھا جائے اور کراچی میں ممکنہ دہشتگردی کو کسی انہونی کا پیش خیمہ سمجھا جائے تو پھر اس سازشی تھیوری میں جان نظر آتی ہے کہ انتخابات شاید وقت پر نہ ہوپائیں مگر ذمہ دار کوئی درپردہ قوت نہیں پانچ سال تک قومی وسائل لوٹنے والی اشرافیہ ہی قرار پائے گی جس نے ملک کو اس قابل نہیں چھوڑا کہ وہاں پرامن اور شفاف انتخابات کرانا ممکن ہو۔
ماہرین معیشت ہی بتا سکتے ہیں کہ عبدالرحمن ملک کے بیان کے بعد کراچی سے کس قدر سرمایہ راتوں رات بیرون ملک منتقل ہوا؟ کتنے سرمایہ کاروں، صنعتکاروں، تاجروں اور خوفزدہ شہریوں نے دبئی، ملائیشیا، بنگلہ دیش اور برطانیہ کی ٹکٹیں کٹوائیں اور کتنے ہزار خاندانوں نے اپنے بچوں کو اگلے ڈیڑھ دو ہفتے تک سکول نہ بھیجنے کا فیصلہ کیا؟ اسلام آباد اور راولپنڈی کے کن ایوانوں میں خطرے کی گھنٹیاں بجیں؟ کیونکہ اس طرح کا اعلان تو سقوط ڈھاکہ سے ایک دن قبل جنرل نیازی نے بھی نہیں کیا تھا کہ ڈھاکہ ہم سے چھن گیا تو ذمہ دار فوجی حکومت کے علاوہ خفیہ ادارے بھی ہوں گے۔بعض تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ اگلے عام انتخابات میں مقابلہ جمہوریت کے متوالوں اور آمریت کے شیدائیوں میں ہوگا۔ میری ناقص رائے میں سٹیٹس کو کے حامی اور تبدیلی کے خواہش مند ایک دوسرے کے خلاف صف آرا ء ہورہے ہیں اور انہی کے مابین گھمسان کا رن پڑے گا۔ ایک طرف ٹیکس چور، قرضہ خور، جعلی ڈگری ہولڈر، نادھندگان، بدنام جرائم پیشہ، رسہ گیر، چٹی دلال اور غریبوں کی عزتوں عصمتوں سے کھیلنے والے جاگیردار، وڈیرے، سرمایہ دار اور موروثی سیاست کے علمبردار ہوں گے۔ دوسری طرف باکردار، مخلص، عوامی خدمتگار، نیک نام اور کسی نہ کسی شعبے میں بہترین انتظامی و علمی صلاحیتوں کا مظاہرہ کرنے والے قانون پسند ہوں گے۔ آئین کے آرٹیکلرز63,62,218اور(2A) 213پر عملدرآمد ہوگیا تو سب کو مساوی مواقع ملیں گے اور پرانی نسل سے بیزار نوجوان اور خواتین اپنے فیصلہ کن کردار سے نئی قیادت کو سامنے لائیں گے۔
ممکنہ انتخابی منظر نامے سے خوفزدہ اشرافیہ شفاف انتخابات کا انعقاد چاہتی ہے اور نہ ترقیاتی و صوابدیدی فنڈز سے ووٹ خریدنے کی عادت ترک کرنے پر تیار، اس بنا پر وہ ڈاکٹر طاہر القادری اور عمران خان کی کردار کشی، دہشتگردی اور قتل و غارت گری کے امکانات اور نئے صوبوں کی تشکیل کے نام پر علاقائی، صوبائی، لسانی اور نسلی تعصبات ابھار کر اس قدر افراتفری، انارکی اور ابتری پیدا کرنے میں مصروف ہے کہ اسمبلیوں کی تحلیل کے بعد اگر نگران حکومت بن بھی جائے تو خراب حالات کی بناء پر انتخابات کرانے کی پوزیشن میں نہ ہو اور ہاتھ کھڑے کرکے کسی نئے سیٹ اپ کا مطالبہ کردے جب ملک بھر میں ہیجان و اضطراب برپا ہو، ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف کے ساہو کار واجب الادا قرضوں کی قسطیں وصول کرنے کے لئے وزیر اعظم ہاؤس کے سامنے کھڑے ہوں اور گلی محلے میں سر پھٹول جاری ہو تو انتخابات کس کو یاد رہیں گے، سب کو ریاست بچانے کی فکر ہوگی۔ لوٹ مار کے عادی مجرموں اور قومی وسائل سے خاندانی و موروثی سیاست کرکے مرض میں مبتلا قائدین کرام کو ہی تین سالہ عبوری سیٹ اپ سازگار ہے تاکہ زود فراموش اور کشادہ دل عوام ان کے قومی جرائم بھول جائیں اور وہ ایک بار پھر کھایا پیا ہضم کرکے قومی سیاست کے میدان میں کود سکیں۔ بھلا کوئی جیتنے والا پہلوان بھی شور مچاتا اور سازشی کہانیاں پھیلاتا ہے اور مد مقابل کو بیچ اکھاڑے میں چت کرنے کے بجائے کردار کشی ،الزام تراشی اور بہتان طرازی کا سہارا لیتا ہے اگر عبوری سیٹ اپ لانے کی کوئی سازش ہورہی ہے تو کون لارہا ہے، نام تو بھی بتائیں کہ یہ بنیادی اخلاقی اور قانونی تقاضا ہے؟ آج کل میں ڈاکٹر طاہر القادری سپریم کورٹ سے رجوع کرنے والے ہیں اور کالا کوٹ پہن کر دلائل بھی خود دیں گے دیکھتے ہیں اس موقع پر کونسی نئی سازشی تھیوری سامنے آتی ہے؟ الیکشن کمیشن کے ارکان کا تقرر کرتے وقت آئینی اور قانونی تقاضوں کی پاسداری کیوں نہ ہوئی ۔ یہ بھی ہنڈرڈ ملین کا سوال ہے۔
تازہ ترین