• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
شادی کی تقریب میں مووی بنانے والا ہرکسی کو پریشان کر رہا تھا پہلے اس نے ایک میز پر سافٹ ڈرنک کی ایک بڑی بوتل الٹا کر کئی مہمانوں کے کپڑے خراب کردیئے تھے، اب وہ کھانا کھانے والے مہمانوں کی پلیٹوں کو فوکس کر کے ان کی ویڈیو بنا رہا تھا میں جب شادی کی تقریب کے ہال میں داخل ہواتو اس وقت پہلا استقبال اس نے کیا۔ اس نے پہلے پاؤں سے لیکر سر تک شاٹ لیا پھر اس نے میرے ہاتھ میں اٹھائے گفٹ کو فوکس کیا یہ کیمرا مین ہر آنے والے مہمان کے ساتھ یہی سلوک کر رہا تھا اور اب جبکہ کھانا شروع ہو چکا تھا، اس نے مہمانوں کی پلیٹوں میں ڈالے گئے کھانے، چبائی گئی ہڈیوں اور لئے جانے والے لقموں کو فوکس کرنا شروع کردیا تھا، وہ جس مہمان کی طرف بڑھتا اس کو زچ کئے بغیر آگے کا رخ نہ کرتا اور اس کا لمبا سا تار جس کا سوئچ نہ جانے اس نے کہاں لگا رکھا تھا، اس سے بھی پریشان کرنے کی رہی سہی کسر پوری کر رہا تھا بلکہ اس تار کے الجھ جانے سے مرزا صاحب تو گرتے گرتے بچے۔ میں نے بڑھ کر مرزا صاحب کو سہارا دیا مرزا صاحب سنبھلے تو مجھے دیکھتے ہوئے کہنے لگے ہاں بھئی ا نکل آج خبر کیا ہے؟، اسمبلیاں کب تحلیل ہوں گی؟وزیراعظم کون بن رہا ہے؟، الیکشن ہونگے بھی یا نہیں؟انہوں نے ایک ہی سانس میں مجھ سے کئی سوال کردیئے یہ مرزا صاحب کی عادت ہے، وہ جب بھی ملتے ہیں ایک سانس میں کئی سوال داغ دیتے ہیں۔ مرزا صاحب سیکشن افسر کے سرکاری عہدے سے چند سال قبل ریٹائر ہوئے ہیں مرزا صاحب نے سارے اخبارات پڑھے ہوتے ہیں بلکہ ایک کالمی خبر سے لیکر اداریئے تک اور کارٹون سے لیکر ہر ہر کالم تک انہوں نے گھوٹ کے پیا ہوتا ہے، سارے ٹاک شوز انہوں نے دیکھے ہوتے ہیں اور ان ٹاک شوز کی لڑائیوں کے سارے فقرے انہیں یاد ہوتے ہیں۔ کالموں کے مضامین کجا ان کو تو کالموں میں املا کی غلطیاں تک ازبر ہوتی ہیں لیکن پھر بھی ان سے جو کوئی بھی ملے اس سے یہی کہتے ہیں اور یہ ضرور پوچھتے ہیں کہ ”آج کیا خبر ہے“ گویا وہ دوسرے شخص سے خبر پوچھ کر اسے گھیرتے ہیں اور پھر ان کی کوشش ہوتی ہے کہ انہوں نے آج کے روز جو کچھ اخبارات میں پڑھ رکھا ہے اور جو کچھ ٹی وی چینلز کے ٹاک شوز میں دیکھ رکھا ہے، وہ اپنے ملاقاتی کو سنا ڈالیں۔میں اس وقت مرزا صاحب کے نرغے میں آچکا تھا اور اس مووی بنانے والے کے پریشان کن برتاؤ کو تھوڑی دیر کیلئے فراموش کرچکا تھا۔ میں نے مرزا صاحب کے کالموں اور خبروں کے بلیٹن سے بچنے کیلئے ان پر ایک سوال داغ دیا۔میں نے کہا مرزا صاحب آپ کو معلوم ہے کہ میں نے حال ہی میں گریجویشن مکمل کی ہے، ابھی شادی بھی نہیں ہوئی ہے اور آپ جب بھی مجھ سے ملتے ہیں تو مجھے انکل کہہ کر مخاطب کرتے ہیں، آپ کی یہ بات میں سمجھ نہیں سکا، مرزا صاحب نے جواب میں قہقہ لگانے کی ایک ایسی کوشش کی کہ ان کے منہ کا لقمہ ان کے حلق میں اٹک گیا اور زور زور سے کھانسنے لگے۔ میں نے بڑھ کر انہیں پانی پیش کیا کہ کہیں لینے کے دینے نہ پڑ جائیں۔ مرزا صاحب نے پانی کے دو تین گھونٹ لے کر اپنے گلے کی شاہراہ دستور کو کلیئر کیا اور پھر ایک دو مرتبہ کھانس کر انہوں نے گلے کی ورکنگ کو چیک کیا اور بولے بھئی برخوردار انکل وہی نہیں ہوتا جو رشتے میں چچا یاماموں ہو اور نہ ہی انکل وہ ہوتا ہے جو عمر کی وجہ سے بڑا لگے بلکہ انکل تو وہ ہوتاہے جو اپنے میچور ویژن یا مدلل باتوں کی وجہ سے پہچانا جائے یا پھر اپنی سیاسی چالوں کی وجہ سے سب کا انکل بن بیٹھے اور تم تعلیم کے شعبے میں کارناموں کی وجہ سے پہلے انکل بنے اور اب کالموں کی وجہ سے بھی انکل بنتے جا رہے ہو،کامران خان اور حامد میر تمہارے ٹی وی چینل جیو کے انکل ہیں، پھر انہوں نے ایک دوسری مثال سے واضح کرتے ہوئے کہا کہ اگر ایک شخص کوئی کام کر رہا ہو تو دوسرا اسے سمجھانے کی کوشش کرے تو پہلا شخص جواب دیتا ہے کہ ”توں اس کم دا چاچا لگنا ایں“ یا ”توں اس کم دا ماما لگنا ایں“ (تم اس کام کے چچا لگتے ہو یا تم اس کام کے ماموں لگتے ہو) اس کا مطلب یہی ہوتا ہے کہ صرف کام کا ماہرہی انکل ہوسکتا ہے میں مرزا صاحب کی بات پر لاجواب ہو گیا اور ان کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ یہ تو آپ کی ذرّہ نوازی ہے کہ آپ میرے کام کی وجہ سے مجھے انکل سمجھتے ہیں اور انکل کہتے ہیں۔ میں نے مرزا صاحب پر ایک سوال داغتے ہوئے پوچھا کہ آپ کے خیال میں پاکستان کی سیاست کا انکل کون ہے۔ وہ ہنسے۔ گویا ان کی مرضی کا سوال تھا کہنے لگے پاکستان کی سیاست کے بہت سارے انکل ہیں اور بہت سارے خود کو سیاست کا انکل سمجھتے ہیں لیکن اس وقت سیاست کا حقیقی انکل ایک ہی ہے اور جو سیاست ہمارے ملک میں کھیلی جاتی ہے اس کو ان کے علاوہ آج تک کوئی دوسرا سیاسی انکل سمجھا ہی نہیں۔ میں نے ان کا اشارہ سمجھتے ہوئے کہاکہ مرزا صاحب دیکھیں ملک میں گڈ گورننس نہیں ہے۔ ملک قرضوں کے بوجھ تلے دب کے رہ گیاہے۔ معیشت تباہ ہو رہی ہے مہنگائی آسمان سے باتیں کر رہی ہے نہ گیس نہ پٹرول نہ بجلی ایک عجیب سا خلفشار نظر آتا ہے۔ آئے روز ملک میں ایک نیا بھونچال آیا ہوتا ہے آپ پھر بھی اس شخصیت کو سیاست کا انکل قرار دے رہے ہیں۔ مرزا صاحب کہنے لگے دہشت گردی، دھرنے، مہنگائی، توانائی کا بحران، بیڈگورننس، اداروں سے محاذ آرائی، کرپشن ہی کرپشن ان سارے معاملات کے باوجود اپنی سیاست کو قائم رکھنا صرف سیاست کا کوئی انکل ہی کرسکتا ہے۔
تازہ ترین