• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’’میرا کراچی‘‘ جو کیماڑی سے شروع ہوکر ٹکری پر ختم ہوجاتا تھا

امر جلیل

امر جلیل نے اپنے شعور کی آنکھ کراچی میں کھولی تھی ،وہ اس شہر کی پوری داستان اپنے سینے میں چھپائے ہوئے ہیں ۔وہ بتاتے ہیں1916ء میں میرے والد بمبئی یونیورسٹی سے پڑھ کر لوٹے تو اپنے آبائی شہر روہڑی جانے کے بجائے کراچی میں رک گئے ۔ محکمۂ تعلیم میں ملازمت کرلی۔ اس طرح میں بہ ہوش و حواس 1936ء سے اس شہر کراچی میں ہوں۔ رتن تلاؤ پرائمری سکول سے لے کر کراچی یونیورسٹی تک میں نے تعلیم اسی شہر میں حاصل کی ہے۔میرا بچپن ،میرا لڑکپن اسی شہر میں گزرا ہے۔ اسی شہر میں جوان ہوا تھا اور اسی شہر میں بوڑھا ہوگیا ہوں۔اس شہر کے گلی کوچوں میں میری یادیں بکھری ہوئی ہیں۔ تب یہ شہر کوئی اتنا بڑا شہر تو ہوتا نہیں تھا۔

مجھ سے پوچھا گیا ہے کہ اصلی کراچی اور میرا شہر کراچی سے تمہاری مراد کیا ہے؟ اس طرح کے سوالات نہ صرف جنریشن گیپ کی نشاندہی کرتے ہیں،کمیونی کیشن گیپ کی بھی نشاندہی کرتے ہیں۔ بن کے اندر رکھے ہوئے کباب کو ہم بن کباب کہتے تھے۔ آپ بن کباب کو برگر کہتے ہیں۔ جب تک آپ اس چھوٹی سی بات کی تہہ تک نہیں پہنچ سکتے تب آپ اصلی کراچی اور میرا شہر کراچی والی بات نہیں سمجھ سکتے۔

اصلی کراچی سے میری مراد ہے وہ شہر جو کیماڑی سے شروع ہوکر ٹکری پر ختم ہوجاتا تھا۔ چھوٹی سی سرسبز پہاڑی کو اصلی کراچی کے لوگ ٹکری کہتے تھے۔سیر و تفریح کےلئے پکنک کامقام تھا۔ ہندو، مسلمان، کرسچین، پارسی وغیرہ مع اپنی فیملی روزانہ ٹکری پر آتے تھے۔ ٹکری کے اطراف ان کی ایک اور دو گھوڑوں والی بگھیاں،جن کے چار پہیے ہوتے تھے، کھڑی رہتی تھیں۔ کچھ لوگ موٹر گاڑیوں میں آتے تھے ، وہاں کچھ موٹر سائیکلیں بھی پارک ہوتی تھیں، جن کے ایک طرف ایک سوار کے بیٹھنےکےلئے بگی لگی ہوئی ہوتی تھی۔ صاف ستھرے سجے سجائے ٹھیلوں پر بھیل پوری، دہی بھلے، فروٹ ڈرائی فروٹ، آئس کریم بکتی تھی ۔

دنیا کے ترقی یافتہ شہروں کی طرح کراچی کی سینٹرل جیل شہر سے دو اڑھائی میل دور ہوتی تھی۔ اگلے وقتوں میں تپ دق کو چھوت کی بیماری سمجھا جاتا تھا لہٰذا اوجھا سینی ٹوریم کے نام سے تپ دق کااسپتال شہر سے بارہ تیرہ میل دور ہوتا تھا۔اب اوجھا سینی ٹوریم کراچی یونیورسٹی کے ہمسائے میں ہے اور جیل شہر کے بیچوں بیچ آگئی ہے۔کیماڑی سے لے کر بولٹن مارکیٹ ،صدر، سولجر بازار، چاکیواڑہ،کینٹ اسٹیشن،گاندھی گارڈن تک پورے شہر کو ٹرام وے کمپنی کی ٹرام سروس نے جوڑ رکھا تھا۔ شہر اس قدر صاف ستھرا اور خوبصورت اینگلو اورینٹل طرز تعمیر سے سجا ہوا تھا کہ کچھ لوگ کراچی کو چھوٹا لندن کہتے تھے۔ کراچی شہر میں صفائی ستھرائی اور دیدہ زیب عمارتوں کا جو حشر ہم نے تریسٹھ برسوں میں کیا ہے ، گواہ رہیے کہ ہم لوگ ایک آزاد ملک کے حقدار نہیں تھے ۔ بندر روڈ ،برنس روڈ، صدر اور سولجر بازار کے لاکھوں فلیٹوں اور اپارٹمنٹوں کو ہم نے اُجاڑ کر رکھ دیا ہے۔ بالکونیاں اور گیلریاں ٹوٹ پھوٹ گئی ہیں۔ درو دیوار اور کھڑکیاں بے توجہی کا شکار ہوگئی ہیں۔راستوں اور پارکوں کے نام تبدیل کرکے یاروں نے تاریخ کے ساتھ ساتھ ہماری یادوں کو دھچکا لگایا ہے۔ پٹیل پارک اور کرکٹ گراؤنڈ کو ولبھ بھائی پٹیل کی متروکہ املاک سمجھ کر یاروں نے اس کو نشتر پارک کا نام دے دیا۔ بندر روڈ پر مولوی مسافر خانے کے سامنے ایک تکونا چھوٹا سا پارک ہوتا تھا، جہاں نوجوان صبح شام ورزش کرتے تھے۔ اس پارک کا نام تھا،شِوجی پارک۔ یاروں نے شِوجی کو شیواجی سمجھ لیا ،جس نےپچیس برس تک مہاراشٹر میں اورنگ زیب عالمگیر سے جنگیں لڑی تھیں۔ یار لوگوں نے اس چھوٹے سے شوجی پارک کا نام بدل کر اورنگزیب عالمگیر پارک رکھ دیا ۔جہانگیر پارک نوجوان کرکٹروں کی نرسری تھا۔ کچھ کھلاڑیوں کے نام آپ بھی سن لیجئے حنیف محمد،مناف،اکرام الابسی، والس میتھائس،خالد وزیر، دلپت، اینتاؤ ڈی سوزا، وسیم باری،انتخاب عالم اور ڈنکن شارپ۔ یار لوگوں نے کرکٹ گراؤنڈ کو اُکھاڑ کر نام نہاد پارک بنادیا۔آپ خود جاکر دیکھیں ۔پارک اب گردونواح کا کچرا ڈالنے کے کام آتا ہے۔ چرسی، ہیروئنچی، موالی،جرائم پیشہ اب جہانگیر پارک میں پنپتے ہیں۔

میرے شہر کراچی میں مختلف مذاہب کے لوگ اور مختلف زبانیں بولنے والے لوگ رہتے تھے۔یہاں ہندو ، مسلمان، ایرانی یہودی ، جین اور بدھ مت کے پیرو کار رہتے تھے، وہ سندھی، اردو، ہندی، انگریزی، گجراتی،بلوچی، مراٹھی، فارسی وغیرہ بولتے تھے۔ وہ نہ آپس میں لڑتے، نہ جھگڑتے تھے۔ ایک دوسرے کی عبادت گاہوں کا دل سے احترام کرتے تھے۔ ایک دوسرے کے تہواروں میں شامل ہوتے تھے۔

ٹکری کے ایک طرف بے انتہا امیر اورسخاوت کرنے والےپارسی رہتے تھے اور دوسری جانب امیر ہندو رہتے تھے جو پارسیوں کی طرح سخی تھے اور دھرم شالائیں اور جانوروں کےلئے گئو شالائیں چلاتے تھے اور تعلیم پر بے دریغ پیسہ خرچ کرتے تھے۔ پارسیوں اور ہندوئوں کی کوٹھیاں فن تعمیر کی اعلیٰ مثال تھیں۔ اب ان کوٹھیوں کی جگہ دس پندرہ منزلہ فلیٹوں والی بھدی عمارتیں ابھر آئی ہیں۔ٹکری سے تقریباً دو تین میل دور ملیر سے آتا ہوا برساتی نالہ گزرتا تھا ،جس کے دوسری پار سندھیوں اور بلوچوں کی بستیاں تھیں۔ نالے پر اب تین ہٹی اور لسبیلہ پل بنے ہوئے ہیں اور دوسری پار اصلی کراچی سے بہت بڑا شہر آباد ہوگیا ہے،جس میں لیاقت آباد، ناظم آباد اور نارتھ ناظم آباد وغیرہ شامل ہیں۔ ٹکری پر قائد اعظم محمد علی جناح کا مقبرہ بنا ہوا ہے۔ کیماڑی سے صدر، سولجر بازار، گارڈن، کینٹ اسٹیشن اور چاکیواڑہ تک شہر میں ٹراموے سسٹم چلتا تھا۔ ہم لوگ سعید منزل کے قریب ڈنشا آغا بلڈنگ کے ایک فلیٹ میں رہتے تھے۔میں اور میرے والد صاحب سعید منزل سے ٹرام میں سوار ہوتے اور بولٹن مارکیٹ سے سودا سلف خرید کر ٹرام پر واپس آتے تھے۔ کبھی کبھار ٹرام میں سوار ہوکر صدر چلے جاتے اور وہاں ایمپریس مارکیٹ سے خریداری کرکے جہانگیر ریسٹورنٹ میں فالودہ آئسکریم کھا کر، ٹرام میں سوار ہوکر گھر آتے تھے۔ کرایہ ہوتا تھا ایک آنہ۔ تب ایک روپے میں سولہ آنے ہوتے تھے۔ بولٹن کے سامنے کراچی کا جنرل پوسٹ آفس ہوتا تھا، جس کی دیوار پر سنگ مر مر کے پتھر پر زیرو پوائنٹ لکھا ہوتا تھا، جہاں سے کراچی اور ہندوستان کے دیگر شہروں کے درمیان فاصلوں کا تعین کیا جاتا تھا۔

کراچی کی ٹرانسپورٹ میں ٹرام، بس ڈبل ڈیکر میں کار سائیکل اور موٹر سائیکل کے علاوہ ٹانگوں، چار پہیوں والی بگھیوں، اونٹ گاڑیوں اور گدھا گاڑیوں کی بہتات ہوتی تھی۔ اسی لحاظ سے جگہ جگہ جانوروں کے لئے خوبصورت پانی پینے کے حوض ہوتے تھے۔ہم ٹرام میں سوار ہوکر زولوجیکل گارڈن جاتے تھے۔زولوجیکل گارڈن کا نام تھا گاندھی گارڈن،ٹرام گاندھی گارڈن کے عین سامنے رکتی تھی، اس سڑک کا نام تھا لارنس روڈ۔ بہت بڑا چوڑا روڈ تھا، اب نہ جانے اس کا نیا نام کیا ہے۔ گاندھی گارڈن کے عین سامنے لارنس روڈ پر ایک گول خوبصورت عمارت ہوا کرتی تھی۔ عمارت اب بھی اپنی جگہ موجود ہے، مگر بدحال ہے۔ یہ عمارت گئوشالہ کے نام سے مشہور تھی جس میں لاوارث گایوں اور بچھڑوں کی دیکھ بھال کی جاتی تھی اور بیمار جانوروں کا علاج کیا جاتا تھا۔ پہلی منزل پر آراستہ کمرے تھے جو اندرون سندھ سےکراچی آنے والے بیوپاریوں اور کاروباری لوگوں کو مسواڑ یعنی کرائے پر دیئے جاتے تھے، اس آمدنی سے گئوشالہ کا انتظام احسن طریقے سے چلتا تھا۔ ذرا آگے جائیں تو میوہ شاہ قبرستان تھا اور اب بھی ہے۔ اس سے منسلک یہودیوں کا بے انتہا خوبصورت قبرستان ہوا کرتا تھا۔ اب بھی ہے، مگر خستہ حال میں ہے بقول کسی کے، یہودیوں کا قبرستان دیکھ کر مر جانے کو جی چاہتا تھا۔ چرا کر لے جانے والوں نے سنگ مر مر کی مورتیاں گملے، نقش و نگار سے آراستہ کتبے اور آرائشی پتھر چرا لئے۔

صدر میرے شہر کراچی کا دل تھا، مرکز تھا۔ ایلفنسٹن اسٹریٹ، وکٹوریہ روڈ،بوہری بازار، مین سفیلڈ اسٹریٹ طرح طرح کی چیزیں بیچنے والی دکانوں سے سجی ہوئی ہوتی تھیں۔ وہاں چپے چپے پر خوبصورت ریستوران تھے۔کوالٹی، فریڈرکس کیفے ٹیریا، کیفے جارج، جہانگیر ریسٹورنٹ، پرشین ریسٹورنٹ اینڈ بیکری۔ اس کے علاوہ دو الگ تھلگ لاجواب بیکریاں، ایک آدم سوماربیکری اوردوسری پیریرا بیکری۔ وکٹوریہ روڈ اور پریڈی اسٹریٹ کے سنگم پر، سینٹ اینڈریوز چرچ کے سامنے ہوتا تھا۔ انڈیا کافی ہائوس، جہانگیر پارک سے کھیل کر نکلتے اور اگر جیب میں پیسے ہوتے تو انڈیا کافی ہائوس میں کافی ضرور پیتے۔ بعد میں انڈیا کافی ہائوس کی جگہ زیلنز کافی ہائوس نے لے لی تھی۔ کاش آپ میرے شہر کراچی کے خوبصورت مندر اور گردوارے دیکھتے۔ تقسیم ہند کے بعد بڑی تعداد میں مندر مسمار کردئیے گئے۔کئی مندروں میں کنبے آباد ہوگئے۔ گرومندر جسے عام طور پر گرومندر کے نام سے جانا جاتا ہے۔کسٹم آفس بن چکا ہے۔ مشہور ہے کہ گرومندر کی ایک دیوار میں چنی ہوئی دیوہیکل تجوری کسی نے کھول کر نہیں دیکھی کہ اس میں کیا ہے۔کاش آپ نے سینٹ پیٹرز چرچ، میتھوڈسٹ چرچ، سینٹ اینڈریوز چرچ، ٹرینٹی چرچ،سینٹ پیٹرک چرچ دیکھے ہوتے۔ فن تعمیر کے نادر نمونے موہٹہ پیلس،ڈی جے سائنس کالج، میٹھارام اسپتال، میری ویدر ٹاور،کسٹم ہائوس، سندھ ہائیکورٹ،فیرئیر ہال، بی وی ایس پارسی اسکول، ماما پارسی گرلز اسکول، بزنس گارڈن میں وکٹوریہ میوزیم کی عمارت جس میں اب سپریم کورٹ کے مقدمے چلائے جاتے ہیں، ایسا تھا میرا شہر کراچی۔

تازہ ترین