• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن


وہ شہرجس کی گلیوں سے صبا نے آدابِ خرام سیکھے تھے، آج گندگی اور غلاظت کی آماجگاہ ہے

کبھی یہاں پیدل چلنے والوں کا احترام ہوتا تھا۔ ایک دوسرے سے حال احوال ، خیر عافیت طلب کی جاتی تھی۔ہر طرف رونق ہی رونق تھی، چہل پہل تھی ، ادب تھا ادبی بیٹھکیں تھیں ، میلاد و مجالس کی محفلوں کی طرح گرجا گھراور مندر بھی بلاخوف و خطر آباد تھے ، شعلہ بیان مقررین تھے ، شعراء تھے اور سب سے بڑھ کر صاحب علم لوگوں کی ایک کثیر تعداد شہر کی روشنیوں کے اصلی مینار تھے ، تعلیم اور شعور کی بہتات تھی ،ادب سے لبریز اردو زبان مخصوص لب و لہجہ لئے گلی محلوں اور بازاروں میں گونجتی رہتی تھی اور کانوں میں خوب چاشنی گھولتی تھی ۔ تعلیم تھی تربیت تھی ، ادب تھا لحاظ تھا لہجے تلخ نہیں ہوتے تھے اورسب سے بڑھ کر وقت بھی بچالیتے تھے اور ذرا دیر کو حقہ سلگا لیتے تھے۔ نا زبان تقسیم کرتی تھی نا مذہب میں اتنی دیواریں تھیں۔ کراچی شہر بہت خوش و خرم تھا ہر کسی کی بہت پرواہ کیا کرتا تھا، آؤ بھگت کیا کرتا تھا۔ صفائی اور حفظانِ صحت کے اصول تھے۔ وقت بدلتا گیا۔بدلاؤ میں پھر بدلاؤ آیا۔شہر کی آبادی دیکھتے ہی دیکھتے لاکھوں سے کروڑوں میں منتقل ہوگئی۔ابھی کراچی سے کچرے کا ڈھیر پوری طرح سے اٹھایا نہیں جا سکا تھا کہ کراچی کو ملبے کا ڈھیر بنادیا گیا ۔کراچی کو مفادات کی بھینٹ چڑھانے والے کوئی باہر سے آئے ہوئے لوگ تو نہیں تھے، کراچی کو لاوارث کس نے کیا ہے؟

کراچی جگہ جگہ سڑکوں کی خستہ حالی، گندے پانی کے جوہڑوں اور کوڑے خانے کا منظر پیش کررہا ہے ۔ عوام اذیت کا شکار ہیں، لیکن میگاسٹی کا کوئی پرسانِ حال نہیں۔کراچی جو پاکستان کا سب سے بڑا شہر ہے، آج گندگی کے ڈھیر میں تبدیل ہوگیا ہے، اس کا ایسا حال ہے جیسے کوئی بچہ یتیم ہوجائے اور اس کی دیکھ بھال کرنے والا کوئی نہیں ہوتا ۔ کراچی نجانے کتنی دہائیوں سے اپنے اجڑنے پر ماتم کناں ہے۔بلدیاتی مسائل کا شکارہے ۔تین دہائیوں سے زیادہ عرصہ ہوگیا، یہ شہر مسلسل ابتلا کے دور سے گزر رہا ہے۔نیویارک، پیرس، ٹوکیو، لندن اور بیجنگ ہی کی طرح کراچی بھی کوسمو پولیٹن شہر ہے، لیکن سوال یہ ہے کہ کوسمو پولیٹن زندگی کے لیے کیا پلاننگ کی، کیا اقدامات کیے، کن تقاضوں کو ملحوظِ خاطر رکھا گیا؟

دیکھتے ہی دیکھتے یہ شہر’’کچراکنڈی‘ بن گیا ،جس سے پیدل چلنے والے افراد، گاڑیوں اور موٹرسائیکل سواروں کو سخت مسائل کا سامنا کرنا پڑرہا ہے، بعض مقامات پر کچرے کے لگے ڈھیر سے سڑکیں تک بند ہوگئی ہیں۔ وہ شہرجس کی گلیوں سے صبا نے آدابِ خرام سیکھے تھے،آج گندگی اور غلاظت کی آماجگاہ ہے۔ بلدیاتی حکومت سرے سے ناپید۔کہتے ہیں دودھ دینے والی گائے کی لات بھی ہنس کر سہہ لی جاتی ہے۔ دیکھیے یہ کیسی گائے ہے کہ دودھ بھی دیتی ہے اور چپ چاپ لاٹھیاں بھی کھائے جاتی ہے۔ اسے تو کھانے کو ہرا کیا، سوکھا بھی ڈھنگ سے نہیں ملتا۔ مختلف قوموں کے پھول سمیٹے اس کراچی شہر کی خوشبو اور رنگ ماند پڑنے لگے۔کراچی اپنی جگمگاتی شناخت کھو کر کچراچی میں تبدیل ہوتا جا رہا ہے۔

کراچی راتوں رات کچرے کا ڈھیر نہیں بنا ،جس پر حیران ہوا جائے۔حیرانگی تو اس بات پر ہے کہ پچھلے چند سالوں سے اس مسئلہ کی طرف صوبائی حکومتوں کی توجہ بالکل نہیں رہی۔جگہ جگہ گندگی کے یہ منہ چڑاتے ڈھیر عوام میں بیماریوں کا سبب بھی بننے لگے۔شہر کے ناصرف گلی کوچوں بلکہ بڑی شاہراہوں پر غلاظت کے ڈھیر سے اٹھتا تعفن شہریوں کی زندگی اجیرن کر رہا ہے۔آخر کو جائیں تو جائیں کہاں؟ کس سے مدد مانگیں؟ کوئی پرسانِ حال نہیں ۔ شہر میں صفائی ستھرائی کی ابتر صورتحال یہی رہی تو شہر میں وبائی امراض پر قابو پانا مشکل ہو جائے گا۔

کراچی کی آبادی میںگزشتہ دہائی میں دوگنا اضافہ ہوا ، یہ اضافہ پیدائش کی شرح بڑھنے سے نہیں بلکہ اندرونِ ملک ہجرت کرنے والوں کی وجہ سے ہواہے ۔ لوگ آتے گئے اور جسے جہاں جیسے جگہ ملتی گئی بستے چلے گئے ، پہلے خود آئے، پھر اپنے خاندان کو لے آئے۔ آبادی کی اتنی تیزی سے بڑھنے کی وجہ سے ایک طرف تو پانی کی شدید قلت پیدا ہونا شروع ہوگئی، دوسری طرف ٹریفک کا مسئلہ کسی آژدھے کی طرح بڑھتا چلا جارہا ہے ۔ایک وقت تھا کہ کراچی کی گلیاں بھی ایسی صاف ستھری ہوتی تھیں کے کیا مثال دی جائے لیکن آج تو جہاں کبھی سڑکیں ہوا کرتی تھیں وہاں گڑہوں سے بھرے راستے ہیں۔

شہری پہلے ہی اپنے مسائل کی وجہ سے پریشان حال ہیںدوسری طرف گھر وں میں بجلی اور پانی نہیں۔ پانی جیسی ضرورت کراچی کے شہریوں کے لئے نایاب ہو رہی ہے۔لائینیں جگہ جگہ سے رس رہی ہیں پانی سڑکوں پر پھیل جاتا ہے۔ ایک طرف تو پانی کے ضائع ہونے کا دکھ ،ساتھ سڑکوں کی ٹوٹ پھوٹ بھی شروع ہوجاتی ہے ۔ یہ عمل کئی سالوں سے ایسے ہی چل رہا ہے، اگر ان لائنوں کی مرمت ہوجائے اور یہ رساؤ نا ہو تو ان علاقوں میں بھی پانی پہنچ سکتا ہے، جہاں اس رساؤ کی وجہ سے نہیں پہنچ پا رہا۔ کبھی نلکوں میں پانی آتا ہے اور کبھی ہوا۔گھر کے اندرسکون نہیں گھر سے باہر سکون نصیب نہیں ۔شہر کے باسی جائیں تو جائیں کہاں، کس سے فریادکریں۔ حیرت کی بات تو یہ ہے کہ ایک صوبائی حکومت ہے وہ بھی دکھائی نہیں دیتی۔بجلی کے بل دیکھیں تو ایسا لگتا ہے یہ کسی فیکٹری کا بل ہے جو غلطی سے گھر کے ایڈریس پر آگیا، جتنی بجلی استعمال نہیں ہوتی اس کا بھی بل بھیج دیتے ہیں جبکہ 8 سے 9 گھنٹے روزآنہ بجلی غائب رہتی ہے

کراچی رو رہا ہے ۔ نازک مزاج کراچی بسترِ مرگ پر پہنچنے کوہے۔ کراچی کو مال مفت دل بے رحم سمجھ کر آج بھی استعمال میں لایا جا رہا ہے،۔شہری اس وقت سمندر کی متوازی لہروں کی طرح ساکت ہو چکے ہیں ،انہیں اپنے مسائل کا حل کہیں سے ہوتا دکھائی نہیں دے رہا۔

بحیرہ عرب ،پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی کی سب سے اہم انفرادیت ہے ۔کسی اور شہر کے ساحل پر جہازوں اور انسانوں کی اتنی زیادہ آمدورفت نہیں جتنی کراچی کے ساحل پر ہےلیکن دور دور تک پھیلے اور برسوں سے ٹھاٹھے مارتے اس سمندر کا بھی اب دم گھٹنے لگا ہے۔کلفٹن، کیماڑی، سینڈزپٹ، پیرا ڈائز پوائنٹ یا سنہری بچ کہیں بھی چلے جایئے پلاسٹک کی تھیلیاں اور بوتلیں ہر جگہ بکھری نظر آتی ہیں۔ ہر روز انگنت لوگ یہاں پکنک منانے آتے ہیں اور اپنے ساتھ لائے ہوئے پلاسٹک سے بنے شاپنگ بیگز، بوتلیں اور دیگر اسی نوعیت کی اشیاء یوں ہی زمین پر بکھری چھوڑ جاتے ہیں۔ اس سے سمندری آلودگی تو بڑھ ہی رہی ہے ،سمندری حیات بھی فنا ہونے لگی ہیں۔ نکاسی آب نہ ہونے کی وجہ سے سیوریج کا تمام پانی سمندر میں چلا جاتاہے، اس سمندر کو کراچی والو کے لیے کھلا گٹر کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔

عوام الناس میں موٹر سائیکل کی سواری کا رُجحان ایسا بڑھا کہ خدا کی پناہ۔ آج مرکزی شہر کے کسی سگنل پر رک کر دیکھ لیجیے، پچاس فی صد سے زیادہ لوگ موٹر سائیکل پر سفر کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ نتیجہ یہ کہ پولیس ٹریفک کا نظام سنبھالنے میں ناکام، ٹریفک حادثات میں غیر معمولی اضافہ ہر شخص اب یہ سمجھتا کہ صرف اسے جلدی ہے، اس لیے اسے فوراً راستہ ملنا چاہیے، باقی ساری دنیا جائے بھاڑ میں۔ سو، ہر جگہ سگنل توڑنا، غلط سمت میں چلنا، اپنی باری کا انتظار نہ کرنا اور دوسرے کی باری میں رکاوٹ ڈالتے ہوئے اپنا راستہ بنانا معمول بن چکا ہے۔ کراچی کی سڑکوں پر نفسانفسی کا جیسا منظر دکھائی دیتا ہے، جنگل بھی اس کے آگے شرما جائے۔

شہر اور جنگل میں جو چیز سب سے پہلے فرق کا احساس دلاتی ہے، وہ قانون کی عمل داری ہوتی ہے۔ کراچی میں قانون کی عمل داری وزیرِاعلیٰ ہاؤس اور گورنر ہاؤس کے اطراف میں ہی دکھائی دیتی ہے، باقی تو سب اللہ ہی اللہ ہے۔ ہاں اس کی جھلک اُس وقت بھی نظر پڑتی ہے، جب وزیر، سفیر، صدر وغیرہ کسی شاہراہِ خاص سے سرپٹ دوڑتے قافلے کی پناہ لیے ہوئے گزرتے ہیں۔ ویسے آپ شہر بھر میں گھوم کر دیکھ لیجیے۔ قانون کا نام تو بے شک سنائی دے گا، مگر مجال ہے جو وہ کہیں دکھائی بھی دے جائے۔ پھل فروشوں کے ٹھیلوں سے لے کر دودھ، سبزی کی دکانوں تک، ٹریفک کے سگنل سے لے کر محکمۂ آب رسانی تک، تھانوں سے لے کر عدالتوں کے احاطوں تک ہر جگہ آپ مسکرا کر خود ہی کہہ دیں گے، نام ہی کافی ہے۔

تازہ ترین