• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

فرحی نعیم، ایڈمن سوسائٹی،کراچی

’’ارے! ایک دودن نہیں، پورے تین دن میرا بچّہ اسپتال داخل رہا، لیکن آنا تودرکنار میرے بھائی بہنوں نے ایک کال تک کرنے کی زحمت نہ کی۔خیریت پوچھنے کے لیےایک میسج ہی کردیتے،کم از کم مجھے شوہر کے سامنے شرمندگی تو نہ اُٹھانا پڑتی۔‘‘ شبانہ آنسو پونچھتے ہوئے اپنی پڑوسن کے سامنے دل ہلکا کر رہی تھی۔’’کیا کر سکتے ہیں بہن، آج کل دنیا بہت مطلب پرست ہوگئی ہے۔ تم غم نہ کرو بس صبر کرو۔‘‘ پڑوسن تسلّی کے دو بول بول کر اپنےگھر چلی گئی۔’’حد ہوگئی، نئے گھر کی دعوت کھانے تو سب چلے آئے ،لیکن تحفہ دیتے ہوئے سب نے کنجوسی کے ریکارڈ توڑ دیئے۔ زوبی باجی کو دیکھو کیسی معمولی وال کلاک دی ہے، جب کہ مَیں نے انہیں پچھلے سال کتنامنہگا ڈنر سیٹ دیا تھا اور آفاق بھائی تو اچھی خاصا کماتے ہیں، مگر چھے گلاس کا ایک سیٹ دے کر چلے گئے۔ یا دہے ناں آپ کو ہم نے اُن کی شادی کی سال گرہ پر پورے دو ہزار کا ٹوسٹر گفٹ کیا تھااورنازک چچا نے تو نازکی کی تمام حدیں ہی پار کرلیں، صرف دوسو روپے۔ ارے ! آج کے زمانے میں دو سو روپے کون دیتا ہے، حالاں کہ…‘‘ ’’اچھا بھئی، بس اب جانے بھی دو، جس نے جو دینا تھا دے دیا، آیندہ تم بھی دیکھ بھال کرتحفےدینا۔ ‘‘رخسانہ کے میاں نے بیوی کی باتوں سےتنگ آکرکہا اوربیگم صاحبہ نے دانت کچکچا کر تائید میں سرہلادیا۔’’ دیکھو میں بہن کی محبّت میں کیسے بھاگی بھاگی ملنے چلی آتی ہوں، لیکن آپا کبھی مجھے پلٹ کر پوچھتی بھی نہیں‘‘۔’’ ہم اتنی دور سے اُن سے ملنے گئے ، لیکن انہوں نے صرف شربت کےایک گلاس پر ٹرخا دیا‘‘۔’’ وہ آئی نہیں، اِس نے پوچھا نہیں، اُس نے کچھ دیا نہیں، وہ میری مدد کو نہیں آیا وغیرہ وغیرہ…‘‘ یہ اور ان جیسے کئی جملے ہمیں کم و بیش روز ہی سننے کو ملتے ہیں۔ کبھی ہم خود شکایت کر رہے ہوتے ہیں، تو کبھی دوسرے ہم سے شکوہ کُناں ہوتے ہیں۔ دَراصل ہم، لوگوں سے ویسے ہی رویّوں کی اُمّید رکھتے ہیں، جیسے ہم خود اُن کے ساتھ پیش آتے ہیں یا کبھی کبھارکچھ زیادہ اُمّیدیں بھی وابستہ کرلیتے ہیں۔ لیکن جب وہ ہمارے معیار پر پورے نہیں اُترتے ، تو ہمارے احساسات و جذبات کو بہت ٹھیس پہنچتی ہے ، رشتوں کو نقصان ہوتا ہے، بہن بھائیوں، دوستوں، رشتے داروں کے درمیان رنجشیں، ناراضیاں پیدا ہوجاتی ہیں۔

آپ جانتے ہیں ، ایسا کیوں ہوتا ہے؟اس کی بنیادی وجہ ہماری’’ توقعات‘‘ ہیں، جو ہم اکثر (بلاوجہ)دوسروں سے وابستہ کرلیتے ہیں اورانجام سوائے مایوسی کے اور کچھ نہیں ہوتا۔ توقع کیا ہے؟ کسی کی مدد ، احسان یا اچھا سلوک کرنے کے نتیجے میںدُگنا ملنے کی اُمّید رکھنا۔یعنی یہ سوچنا کہ مَیں نے اپنے دوست کو دو ہزار کا تحفہ دیا تھا، تو وہ کسی بھی صُورت مجھے کم از کم دو ہزار ہی کا تحفہ دےاور معذرت کے ساتھ یہ سوچ اور عادت زیادہ تر خواتین میں پائی جاتی ہے۔یہ ضروری تونہیںکہ اگر ہم منہگے تحفے یا کسی کی مدد کرنے کی استطاعت رکھتے ہیں، تو اگلے کے وسائل بھی ہمارےہی جیسےہوں۔ جانتے ہیں، اکثر ہماری یہ توقعات ہی پریشانی اور مایوسی کا سبب بنتی ہیں؟قریبی رشتوں سے وابستہ توقعات اکثر ہمیں توڑ بھی دیتی ہیں، پھر جس شخص سے توقعات وابستہ کی ہوں، اُس سے بات کرنےکوجی چاہتا ہے، نہ ملنے کو۔یہاں تک کہ کبھی کبھی تو دل کرتا ہے، سارے تعلقات ہی توڑ ڈالیں۔ حالاں کہ اخلاقیات کا تقاضا ہے کہ جب کسی کی مدد کی جائے، کام آیا جائے یا کوئی تحفہ دیا جائے، تو بدلے کی توقع ہر گز نہ رکھی جائے۔آپ نےکبھی غور کیا ہے کہ آج کل ہر دوسرا شخص یہ شکوہ کرتا نظر آتا ہے کہ زندگی بہت مشکل ہے،تو اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم نے اسے لاحاصل خواہشات، بےجا اُمّیدوں اور آرزوؤں سےخود مشکل بنا دیا ہے۔ قصور وار حالات نہیں، ہماری سوچ و افکار ہیں۔ لہٰذا توقعات اور اُمّیدیں وابستہ کرنا چھوڑئیے اور درگزر سے کام لینا شروع کیجیے۔پھر دیکھیے آپ کی زندگی کیسے امن و سکون کا گہوارہ بن جائے گی۔ اگر توقعات رکھنی ہی ہیں، تو اللہ سے رکھیے، جوبہت مہربان ہے۔ایک وہی ہے،جو ہمیں توقع سے زیادہ نوازتا اور تھوڑے کابدلہ بے شمار دیتا ہے۔ ہمارے لیےبہت آسانیاں پیداکرتا ہے۔ جب آپ خلقِ خدا کی خدمت کریں ، تواجر کی توقع صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کی ذات سے رکھیں۔ اس طرح آپ نہ کبھی مایوس ہوں گے، نہ ہی رشتوں میں دراڑ آئے گی اور نہ ہی رویّے تلخ ہوں گے۔ مشہورمثل ہے’’ نیکی کر،دریا میں ڈال‘‘آپ بھی بس نیکیاں کرتے جائیں اوردریا میں ڈالتے جائیں۔آپ کی ایک نیکی کتنے گُنا اجر کے ساتھ آپ کو لوٹائی جائے گی، اور کب؟ بس، اس کا فیصلہ رب سوہنے کی ذات پر چھوڑ دیں۔

تازہ ترین