• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وفاقی کابینہ نے وزیراعظم عمران خان کی صدارت میں گزشتہ روز ہونے والے اجلاس میں گرفتار ارکانِ پارلیمان کے پروڈکشن آرڈر سمیت کئی امور میں اہم فیصلے کیے ہیں۔ تفصیلات کے مطابق وزیراعظم نے کابینہ کے سامنے اپنی اس رائے کا اظہار کیا کہ کرپشن میں ملوث ارکان کے پروڈکشن آرڈر جاری نہیں ہونا چاہئیں۔ جس کے بعد اس معاملے کو قانون سازی کے لئے وزارتِ قانون کے سپرد کردیا گیا۔ تاہم اس حوالے سے کسی مستقل قانون سازی میں اس امر کو لازماً ملحوظ رکھا جانا چاہئے کہ قانون میں پروڈکشن آرڈر کی گنجائش جس ضرورت کی بناء پر رکھی گئی ہے وہ یہ ہے کہ اس طرح زیرِ حراست منتخب عوامی نمائندوں کو پارلیمانی اجلاسوں میں شریک ہوکر اپنے حلقے کی نمائندگی کا موقع فراہم کیا جائے۔ ہماری سیاسی تاریخ میں حکومتِ وقت کی جانب سے سیاسی مخالفین کی سرگرمیوں کو روکنے کی خاطر ان کے خلاف جعلی مقدمات بنانے کی روایت بہت عام رہی ہے۔ تحریک انصاف کے اتحادی چوہدری پرویز الٰہی کے والد چوہدری ظہور الٰہی کے خلاف بھینس چوری کا مقدمہ نیز شیخ رشید کے خلاف ناجائز اسلحہ رکھنے کا مقدمہ جس میں انہیں سات سال قید بامشقت کی سزا بھی سنائی گئی، ایسے بے شمار واقعات میں سے محض نمونے کے دو واقعات ہیں تاہم غیر معمولی شہرت ملنے کی وجہ سے یہ زبان زدِ عام ہوگئے ہیں۔ شیخ رشید کے معاملے میں اس وقت کے اسپیکر قومی اسمبلی سید یوسف رضا گیلانی نے اپنی وزیراعظم کی ناراضی کے باوجود پروڈکشن آرڈر جاری کر کے انہیں اپنے حلقے کی نمائندگی کا موقع فراہم کیا اور ان کے اس فیصلے کو ملک میں جمہوری روایت کے استحکام کا اہم سنگِ میل قرار دیا جاتا ہے۔ اس لئے گرفتار سیاسی رہنماؤں اور ارکانِ پارلیمنٹ کے پروڈکشن آرڈر کے ضمن میں کیے جانے والے کسی بھی فیصلے میں حکومت کی وقتی مصلحتوں اور ضرورتوں سے بالاتر ہوکر سوچا جانا چاہئے۔ بظاہر یہ ہر زیرِ حراست رکنِ اسمبلی کا استحقاق ہے کہ جب تک اس کی نشست برقرار ہے، وہ اپنے حلقہ نیابت کی منتخب ایوان میں نمائندگی کرے اور ہماری جمہوری روایات کے مطابق اسپیکر کے پروڈکشن آرڈر کے ذریعے اسے یہ موقع فراہم کیا جائے۔ امید ہے کہ وزارتِ قانون پروڈکشن آرڈر کے قانون میں ترمیم کرتے ہوئے اِن پہلوؤں کو پوری طرح ملحوظ رکھے گی۔ کابینہ میں وزیراعظم کا دورہ امریکہ بھی زیرِ غور آیا، اس دورے کو پاکستان کے حق میں زیادہ سے زیادہ مفید بنانے کے لئے پوری تیاری کی جانا چاہئے۔ وزیراعظم نے اپنے قیام کے لئے مختصر وفد کے ساتھ جانے اور کسی مہنگے ہوٹل کے بجائے پاکستانی سفارت خانے میں قیام کا فیصلہ کیا ہے جو یقیناً لائقِ ستائش ہے اور تمام حکومتی شخصیات اور اعلیٰ حکام کے بیرونی دروں میں اسے مستقل طریقہ بنالیا جائے تو یہ نہایت مستحسن بات ہوگی۔ اسٹیل مل کی نجکاری کے بجائے اسے پبلک پرائیویٹ شراکت داری میں چلانے کا فیصلہ کئی حوالوں سے بہت اہم ہے لیکن اسے کم سے کم ممکنہ مدت میں کامیاب بنانے کے لئے تمام ضروری تدابیر اختیار کی جانا چاہئیں۔ چالیس ہزار روپے کے انعامی بونڈ ختم کرنے کا اقدام امید ہے کرپشن میں کمی کا سبب بنے گا۔ حج جیسے مقدس مذہبی معاملے میں بھی بدقسمتی سے ہمارے ہاں ماضی میں بھاری مالی بدعنوانیاں ہوتی رہی ہیں، اب سے ہر قسم کے اسکینڈل سے پاک رکھنے کا عزم نہایت مبارک ہے اور اسے لازماً عملی جامہ پہنایا جانا چاہئے۔ بزرگ شہریوں کے لئے سہولتوں کی باتیں ماضی کے ادوار میں بھی ہوتی رہی ہیں، لیکن عملی نتائج تقریباً صفر رہے ہیں، موجودہ حکومت اس سلسلے میں واقعی مفید اقدامات کر کے دکھائے تو ان کا قومی سطح پر یقیناً بھرپور خیر مقدم کیا جائے گا۔ بچوں کے غواء کے اعداد و شمار جمع کرنے کا اہتمام اپنی جگہ درست لیکن اصل ضرورت اس غیرانسانی رویے کی مستقل روک تھام کی ہے جس پر پوری توجہ دی جانا چاہئے۔ بحیثیت مجموعی کابینہ کے اجلاس میں اچھے فیصلے کیے گئے ہیں اور اب ان پر عمل درآمد کو یقینی بنائے جانے کی ضرورت ہے۔

تازہ ترین