• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بی آرٹی پشاور جسے میں نے گزشتہ برس دنیا کا آٹھواں عجوبہ قرار دیا تھا، ابھی تک حالتِ خوابیدگی میں ہے اور خیبرپختونخوا حکومت کے ترجمان یہ بتانے سے قاصر ہیں کہ بس ریپڈ ٹرانسپورٹ پشاور پروجیکٹ جس کا افتتاح 19اکتوبر 2017میں ہونا تھا، کب تک مکمل ہو پائے گا۔ سیاسی شعبدہ بازی میں ناکامی پر پہلے ٹرانس پشاور کمپنی کے سی ای او کی قربانی دی گئی، پھر پشاور ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے ڈائریکٹر جنرل کو ہٹایا گیا اور اطلاعات یہ ہیں کہ اب بھی کئی سرکاری افسروں کو قربانی کا بکرا بنانے کے لئے چھریاں تیز کر کے رکھی ہوئی ہیں مگر اس فیصلے پر عملدرآمد ان خدشات کے تحت نہیں کیا جا رہا کہ کہیں منصوبہ مزید تاخیر کا شکار نہ ہو جائے چونکہ اب تک اس منصوبے کی تکمیل کے لئے کئے گئے تمام وعدے جھوٹ ثابت ہو چکے ہیں اس لئے صوبائی حکومت اب کوئی حتمی تاریخ دینے سے گریز کر رہی ہے۔ مگر پی ڈی اے حکام نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتاتے ہیں کہ بی آر ٹی کا سول ورک رواں سال نومبر سے پہلے مکمل نہیں کیا جا سکتا۔ ٹرانس پشاور کمپنی جو بی آر ٹی کے آپریشنل اُمور کی ذمہ دار ہے اس کے ترجمان نعمان منظور کے مطابق سول ورک کی تکمیل کے بعد جب پی ڈی اے کی طرف سے یہ منصوبہ انہیں سونپ دیا جائے گا تو سروس شروع کرنے کے لئے انہیں دو سے تین ماہ درکار ہوں گے۔ ٹرانس پشاور کی جانب سے آپریشنل معاملات کے لئے تین مختلف شعبہ جات کے ٹھیکیداروں کا تعین کرنا تھا جو کر لیا گیا ہے۔ وہیکل آپریٹنگ کمپنی جس نے بسیں چلانے کے لئے ڈرائیور اور دیگر عملہ مہیا کرنا ہے، اس کا انتخاب کرلیا گیا ہے۔ انٹیلی جنس ٹرانسپورٹ سسٹم جس کے تحت ٹکٹ اور آئی ٹی سے متعلقہ امور آتے ہیں، اس کے لئے وینڈر چُن لیا گیا ہے۔ بسوں کی سپلائی اور ان کی مینٹینس کا ٹھیکہ اسی چینی کمپنی کو دیدیا گیا ہے جس سے بسیں خریدی گئی ہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ ان بسوں کے لئے جو ڈپو تعمیر کئے جانا تھے وہ ابھی تک مکمل نہیں ہو سکے اور یہ بسیں حیات آباد میں کھلے آسمان تلے خراب ہو رہی ہیں۔ ٹرانس پشاور کمپنی کا دعویٰ ہے کہ یہ بسیں دھوپ، بارش اور اس نوعیت کے دیگر موسمی حالات کو جھیلنے کی استطاعت رکھتی ہیں اس لئے ان کے خراب ہونے کا کوئی امکان نہیں لیکن سوال یہ ہے کہ کیا کوئی اپنی ذاتی گاڑی کو اس طرح دھوپ میں گلنے سڑنے کے لئے چھوڑ سکتا ہے؟ ایک اور دلیل یہ دی جاتی ہے کہ بی آر ٹی پشاور کے لئے خریدی گئی جدید ترین اور قیمتی بسیں وارنٹی کلیم پر لی گئی ہیں، نہ صرف ان کے اسپیئر پارٹس کی وارنٹی دو سال میں کلیم کی جا سکتی ہے بلکہ ہائبرڈ بیٹریاں جو سب سے مہنگی ہوتی ہیں ان کی بھی 12سال کی وارنٹی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ جب یہ بسیں سڑک پر آئیں گی تو ان کے اسپیئر پارٹس کلیم کرنے کی مدت ختم ہو چکی ہوگی یا محض چند ماہ رہ گئی ہوگی۔ اسی طرح بیٹریوں کی وارنٹی بھی 12سال سے گھٹ کر 10سال رہ گئی ہوگی۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ پشاور کو بی آر ٹی جیسے منصوبے کی شدید ضرورت تھی اور ہے مگر خیبر پختونخوا حکومت نے نااہلی اور بدانتظامی کے نئے ریکارڈ قائم کر کے اس منصوبے کو مکمل ہونے سے پہلے ہی متنازع بنا دیا ہے۔ سابق وزیر خزانہ اسد عمر بطور اپوزیشن رہنما یہ دعویٰ کر چکے تھے کہ بی آر ٹی منصوبہ 8ارب روپے میں مکمل کیا جاسکتا ہے اس لئے خیبر پختونخوا حکومت کی ایشیائی ترقیاتی بینک سے ابتدائی بات چیت کے بعد بی آر ٹی پشاور کا جو پہلا پرکیورمنٹ پلان آیا اس کے مطابق منصوبے کی لاگت کا تخمینہ 12.35ملین ڈالر لگایا گیا اور یکم جنوری 2019کو اس منصوبے نے مکمل ہونا تھا۔ تکنیکی امور پر مہارت کے حامل افراد نے سمجھانے کی کوشش کی کہ اتنے پیسوں میں یہ بی آر ٹی منصوبہ مکمل نہیں ہو سکتا۔ اے ڈی بی حکام سے دوبارہ مذاکرات ہوئے اور نہ صرف لاگت پر نظر ثانی کی گئی بلکہ مدت تکمیل بھی بڑھانے پر اتفاق ہوا۔ پی ٹی آئی کی صوبائی حکومت نے ہتھیلی پر سرسوں جمانے کی غرض سے دو غلط بیانیاں کیں۔ پہلی جھوٹ منصوبے کی لاگت سے متعلق اور دوسری غلط بیانی اس منصوبے کی مدت سے متعلق کی گئی۔ میں نے19مارچ 2018ء کو ’’پشاور میں دنیا کا آٹھواں عجوبہ‘‘ کے عنوان سے شائع ہونے والے کالم میں لاگت اور مدت سے متعلق درست حقائق بیان کئے تو مجھے برا بھلا کہا گیا مگر بعد ازاں حکومت کو تسلیم کرنا پڑا کہ اس منصوبے کی لاگت 68ارب روپے ہو چکی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں کمی اور فرانس سے بی آر ٹی کیلئے وصول کئے گئے 20ارب روپے کے اضافی قرضے کو شامل کر لیا جائے تو سفید ہاتھی بن جانے والے بی آر ٹی منصوبے کی مالیت 100ارب روپے سے بھی بڑھ چکی ہے۔ جب بی آر ٹی منصوبہ شروع ہوا تو ڈالر 98روپے کا تھا مگر اب ڈالر 158روپے کا ہو چکا ہے۔ یوں تاخیر کی صورت میں اس منصوبے کی لاگت کس قدر بڑھ چکی ہے اس کا تخمینہ آپ خود لگا سکتے ہیں۔ اب آتے ہیں مدت تکمیل کی طرف۔ پرویز خٹک نے 19اکتوبر 2017کو یہ منصوبہ مکمل کرنے کی پہلی ڈیڈ لائن دی جو غیر حقیقی ہی نہیں انتہائی مضحکہ خیز تھی۔ پھر کوشش کی گئی کہ ادھورے منصوبے کا الیکشن سے پہلے افتتاح کر کے لوگوں کی آنکھوں میں دھول جھونکی جائے لیکن یہ بیل منڈھے نہ چڑھ سکی۔ موجودہ حکومت نے اس منصوبے کی تکمیل کیلئے 23مارچ کی تاریخ دی۔ میں نے ایک بار پھر لکھا کہ سول ورک 40فیصد باقی ہے تو 23مارچ کو اس منصوبے کا فیتہ کیسے کاٹا جا سکتا ہے۔ صوبائی حکومت نے ایک بار پھر پینترا بدلا اور کہا گیا کہ 23مارچ کو اس منصوبے کی سوفٹ اوپننگ ہوگی لیکن وزیراعلیٰ نے اس شعبدہ بازی کا حصہ بننے سے انکار کردیا۔ صورتحال یہ ہے کہ اب تک اس منصوبے کو مکمل کرنے کیلئے 9ڈیڈ لائنز دی جا چکی ہیں اور اب کوئی نئی تاریخ دینے سے گریز کیا جا رہا ہے۔ میں اب بھی اس بات پر قائم ہوں کہ سول ورک کی تکمیل کے بعد جنوری 2020سے پہلے اس منصوبے کا افتتاح ممکن نہیں اور فیتا کٹنے کے بعد بھی یہ منصوبہ ادھورا ہی ہوگا کیونکہ سائیکل لین اور پارکنگ پلازہ سمیت دیگر تعمیراتی کام 2021تک مکمل ہو سکے گا۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین