• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وہ بہت ہنس مکھ اور زندہ دل انسان ہیں لیکن آج جب وہ ملنے آئے تو ان کے چہرے پر اداسی کے بادل چھائے ہوئے تھے۔ میں پوچھے بغیر نہ رہ سکا کہ آج آپ اداس اداس اور کچھ پریشان سے لگ رہے ہیں۔ خیریت تو ہے؟ ریٹائرڈ افسر میری بات سن کر مسکرائے اور جواب دیا سر بالکل خیریت ہے۔ بس ایسے ہی سوچ میں ڈوبا ہوا تھا اس لئے آپ کو پریشان لگا۔ ’’سر‘‘ کا لفظ ان کا تکیہ کلام بھی ہے اور زبان پہ بھی چڑھا ہوا ہے۔ وہ سموسے والے کی دکان پہ جائیں یا کسی بزرگ سے ملیں، اسے سر کہہ کر ہی خطاب کرتے ہیں۔ ان کے بقول ’’سر‘‘ کا لفظ ان کی تربیت کا حصہ ہے اور انہیں اپنا ورثہ بہت عزیز ہے اس لئے وہ شعوری اور لا شعوری طور پر ہر بندے سے بات کرتے ہوئے ’’سر‘‘ ضرور کہتے ہیں چاہے وہ بہ سلسلہ تفتیش کسی ملزم یا مجرم سے انکوائری کر رہے ہوں۔

مجھے تھوڑی سی تشویش تھی اس لئے کریدے بغیر نہ رہ سکا، میں نے پھر پوچھا افسر صاحب آپ نے اداسی کی وجہ نہیں بتائی۔ براہ کرم مجھ سے اصلی بات چھپائیں نہیں مجھے علم ہے کہ آپ کو ریٹائر ہوئے پانچ چھ برس گزر گئے ہیں، آپ نے اپنے شعبے کے ہر اہم محکمے کی نوکری کی ہے۔ مجھے اندازہ ہے کہ آج بھی ہر جگہ آپ کے رابطے ہیں اور آپ کی خداداد صلاحیتوں سے فائدہ اٹھایا جاتا ہے۔ سچ سچ بتائیں اداسی یا تشویش میں مبتلا کیوں ہیں؟ ڈالر کی قیمت بڑھنے سے آپ کو فرق نہیں پڑتا بظاہر آپ کی پریشانی کی کوئی وجہ نہیں۔ وہ میری بات سن کر پھر مسکرائے لیکن یہ مسکراہٹ پھیکی سی تھی۔ کہنے لگے ’’سر مجھے تشویش اس بات سے ہے کہ ہماری سیاست ہمارے اہم ترین قومی ادارے کے وقار کو متاثر کر رہی ہے، میں اس ادارے سے بیس بائیس سال منسلک رہا ہوں اس لئے مجھے اس کا وقار اپنی جان سے بھی زیادہ پیارا ہے۔ عوام کی سطح پر ابھی سیاسی مہم جوئی کے اثرات نمایاں نہیں ہوئے لیکن جب کوئی لہر درمیانے طبقے تک پہنچ جائے تو لامحالہ نچلے طبقے تک بھی پہنچ جاتی ہے۔‘‘ اتنی سی بات کر کے وہ خاموش ہو گئے تو میں نے پھر کریدا، آپ نے یہ کیسے محسوس کیا کہ آپ کے سابق ادارے کا وقار سیاست کی نذر ہو رہا ہے یا اس میں کوئی کمی واقع ہو رہی ہے، ایسی تو کوئی بات نہیں۔ انہوں نے کھڑکی سے باہر جھانکتے ہوئے بددلی سے جواب دیا ’’سر ویسے تو ہمارے ہاں رسم بن چکی ہے کچھ کی عادت بھی ہے کہ وہ ہوا چلے یا آندھی آئے ہر شے کا الزام ہم اداروں پر دھرتے ہیں۔ چوری چھپے ہم سے روابط بھی استوار کرتے ہیں، اندر کی معلومات دے کر وفاداری کا تاثر بھی دیتے ہیں اور ضرورت پڑنے پر وفاداری میں لچک بھی پیدا کر لیتے ہیں لیکن باہر جاکر ہمارے ادارے پر الزامات بھی لگاتے ہیں، ہر خرابی یا ناکامی کو ہمارے خانے میں بھی ڈالتے ہیں، اپنی بے بسی کا تاثر دے کر ہماری قیمت پر عوامی ہمدردی جیتنے کی کوششیں بھی کرتے ہیں۔ میں اور ’’ہم‘‘ ان کی ان چالوں کو خوب سمجھتے ہیں اس لئے درگزر بلکہ اگنور کرتے ہیں لیکن اس بار تو سر انہوں نے حد کر دی ہے۔‘‘ میں اُن کی گفتگو سن کر تھوڑا سا پریشان ہوا اور پھر پوچھا اس بار کیا خاص بات ہوئی جس سے آپ ناخوش ہیں؟ وہ کہنے لگے سر بات یہ ہے کہ ساری دنیا مانتی ہے کہ انتخابات فری اور فیئر تھے۔ انتخابات کو آزادانہ و منصفانہ کرانے کے لئے اداروں نے اپنا کردار سرانجام دیا۔ لوگوں نے اپنی مرضی سے ووٹ ڈالے لیکن حکومت بنتے ہی اپوزیشن جماعتوں نے واویلا شروع کر دیا اور اپنی ناکامیوں کے لئے ہمیں اداروں کو مورد الزام ٹھہرانے لگے۔ روایتی سیاست سے ہٹ کر نئی حکومت بنی نئے حکمران برسراقتدار آئے تو انہوں نے ہم زبان ہو کر ’’سلیکٹڈ وزیر؎اعظم‘‘ کا رونا رونا شروع کر دیا حالانکہ ہمارا حکومت کی تشکیل سے کوئی تعلق واسطہ نہیں تھا۔ ایک سال کی مسلسل اور ’’متفقہ‘‘ مہم کے نتیجے میں پاکستانی معاشرے میں یہ تاثر پیدا ہو چکا ہے جیسے وزیراعظم منتخب نہیں ہوا بلکہ کہیں اور سے نامزد ہو کر آیا ہے۔ اس تاثر کے نتیجے کے طور پر حکومتی ناکامیوں، بدعملی اور خاص طور پر معاشی بحران کا ذمہ دار بھی اسی ادارے کو ٹھہرایا جا رہا ہے جس پر وزیراعظم SELECT کرنے کا الزام ہے۔ عوام مہنگائی، بیروزگاری اور زندگی کے جان لیوا مسائل کے لئے بھی اسی ادارے کو الزام دینے لگے ہیں۔ عدلیہ کسی کو نااہل قرار دے یا سزا دے نیب کسی کو پکڑے یا چھوڑے ہر شے کا الزام اداروں کو دیا جا رہا ہے جس سے اس کی ساکھ اور وقار کو دھچکا لگا ہے حالانکہ ہمارا یا ان اداروں کا ان فیصلوں یا معاملات سے کیا تعلق؟ اس میں شک نہیں کہ لوگوں کو موجودہ سیاسی قیادت سے ان گنت امیدیں تھیں۔ اس میں بھی شک نہیں کہ لوگوں کی امیدیں مایوسی میں بدل رہی ہیں کیونکہ کسی بھی شعبے میں بہتری کے آثار پیدا نہیں ہوئے۔ عام شہری کی زندگی مشکل بنا دی گئی ہے مہنگائی، بجٹ کی آفت، آئی ایم ایف کی غلامی، بزنس اور کاروبار کی بدحالی اپنی جگہ لیکن سچ یہ ہے کہ نہ سفارش کا کلچر بدلا ہے نہ غریب کو علاج اور انصاف ملتا ہے، نہ میرٹ کا نام و نشان ہے اور نہ ہی گورننس بہتر ہوئی ہے۔ اس میں ہمارا کیا قصور؟ لیکن سر میں پریشان ہوں کہ ان ناکامیوں کے سائے ہم پر پڑ رہے ہیں اور اس سے میرا ادارہ اپنا وقار کھو رہا ہے۔ ہم اپنے وقار کو کسی صورت بھی سیاست کی بھینٹ چڑھنے نہیں دیں گے....! پھر وہ صاحب خاموش ہو گئے۔ چند لمحوں بعد سکوت کو توڑتے ہوئے میں نے پوچھا تو پھر آپ کی بصیرت کے مطابق کیا ہوگا؟ ان صاحب نے ٹانگ پر ٹانگ چڑھائی اور میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہا ’’سر کچھ بھی ہو سکتا ہے لیکن ایک بات ظاہر ہے کہ ہم زیادہ عرصے تک خاموش تماشائی بن کر بدنامی برداشت نہیں کر سکتے۔ اگر حکومت کارکردگی بہتر نہیں بناتی، مہنگائی اور بیروزگاری پر قابو نہیں پاتی، عام شہری کی زندگی میں بہتری نہیں لاتی تو مجھے اگلے سال کے آخری حصے میں تبدیلی نظر آتی ہے۔ میں نے ان سے اختلاف کرتے ہوئے عرض کیا کہ تبدیلی اتنی جلدی ممکن نہیں۔ مجھے تو اپوزیشن کی دھمکیاں، دھرنے اور احتجاجی تحریک بھی ناکام ہوتی نظر آتی ہے۔‘‘ میرا خیال ہے کہ حکمرانوں کو مزید وقت دیا جائے گا۔ ان صاحب کا مگر اصرار تھا کہ اگلے سال کا اواخر فیصلہ کن ہوگا، اس دوران کچھ نئے چہرے بھی ابھریں گے۔ دیکھئے کیا ہوتا ہے؟ ہم تو محض دیکھنے والوں میں سے ہیں۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین