وہی قومیں دنیا کی قیادت سنبھالتی آئی ہیں جو تاریخ کی میزان پر پوری اُترتی ہیں۔ ایک زمانہ تھا کہ مسلمان قیادت کے منصب پر فائز رہے۔ پھر اِن کے ہاتھ سے ہندوستان کا اقتدار بھی چلا گیا اور حضرتِ غالبؔ 1857کے دورِآشوب سے گرزتے ہوئے پکار اُٹھے؎
کوئی اُمید بر نہیں آتی
کوئی صورت نظر نہیں آتی
برِصغیر میں مسلمانوں پر اسّی نوے سال قیامت کے گزرے۔ 1937کے لگ بھگ قائداعظم محمد علی جناح نے آل انڈیا مسلم لیگ کی قیادت سنبھالی، تو اُن کی معجزنما شخصیت صرف دس برسوں میں بکھری ہوئی قوم کو منظم کرنے اور اُس کے لیے آزاد وطن حاصل کرنے میں کامیاب رہی۔ اِسی بنیاد پر قیامِ پاکستان کو بین الاقوامی مؤرخین نے بیسویں صدی کا سب سے بڑا سیاسی معجزہ قرار دیا جو عالمِ اسلام کی اُمیدوں کا بھی مرکز بن گیا تھا۔ آگے چل کر اُس پر بڑے مشکل وقت آئے اور 1971میں وہ سقوطِ مشرقی پاکستان کے جانکاہ صدمے سے دوچار ہوا۔ چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر جنرل یحییٰ خاں اور اُن کی ٹیم اُمورِ مملکت سے بےخبر اور نشے میں دھت رہی۔ قیادت کی اقتدار کے ساتھ چمٹے رہنے کی لامحدود خواہش اور اِس کے عاقبت نااندیش فیصلوں نے بھارت کو مشرقی پاکستان پر فوج کشی کا موقع فراہم کیا۔ پاکستان کو المناک شکست ہوئی اور تاریخ کا سینہ شق ہو کے رہ گیا۔
آج کے حالات میں چوہدری نثار علی خاں جیسے زیرک سیاست دان کا یہ بیان کہ میں آج کی صورتِ حال کو 1971 سے زیادہ گمبھیر دیکھ رہا ہوں، اِس سے مجھ پہ کپکپی طاری ہو گئی۔ اِس سے قبل اپوزیشن کی آل پارٹیز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے بلوچستان کے معتدل مزاج سیاست دان جناب حاصل بزنجو نے کہا کہ ہم حکومت کو دھکا دینے سے اِس لیے گریز کر رہے ہیں کہ کہیں ریاست کو دھکا نہ لگ جائے۔ حالات کی اِس تصویر کشی نے بھی مجھے سخت وحشت میں مبتلا کر دیا اور میرے ذہن میں شدید خوف کے سائے لہرانے لگے۔ دل کو تسلی دینے کے لیے میں نے جی ہی جی میں کہا کہ 1971میں تو ہماری فوجی اور سیاسی قیادتیں نتائج سے بےنیاز ایک دوسرے کے خلاف نبردآزما رہیں جبکہ آج سیاسی اور فوجی قیادت پوری طرح شِیر و شکر ہیں اور آئی ایم ایف کو مطمئن رکھنے کی سرتوڑ کوششیں کر رہے ہیں اور اُمید کی جا رہی ہے کہ چھ ارب ڈالر کا پروگرام منظور ہو جانے کے بعد حالات میں قدرے ٹھیراؤ آ جائے گا اور ڈالر کی اُڑان ایک سطح پر آ کر رُک جائے گی، لیکن مجھے یہ تمام باتیں اس وقت محض طفل تسلیاں معلوم ہوئیں جب میں نے دیکھا کہ نئے مالی سال کے بجٹ نے ایک ہاہاکار مچا رکھی ہے۔ عام شہری، چھوٹے بڑے کاروباری حضرات، صنعت کار، کسان، مزدور اور سرمایہ دار تک سبھی ناقابلِ بیان عدم تحفظ اور بےیقینی کا شکار ہیں۔ ہر لحظہ گہری ہوتی ہوئی سیاسی محاذ آرائی اور طاقت کے بےمحابا استعمال کی خوفناک صورتیں ہمارے قومی وجود کی شکست و ریخت کا باعث بن رہی ہیں۔
مجھے تحریک ِانصاف کی حکومت اور قیادت کی طرف سے انتہائی سرعت کے ساتھ نئے نئے اداروں اور کونسلوں کے قیام سے جاپان میں ہونے والا ڈیموکریٹک پارٹی آف جاپان کا تجربہ سامنے آیا جس کا منشور اور سیاسی نعرے تحریک ِ انصاف کے پروگرام اور نعروں سے ملتے جلتے تھے۔ ڈیموکریٹک پارٹی آف جاپان 1996 میں کئی پارٹیوں کے امتزاج سے وجود میں آئی۔ اِس میں دائیں اور بائیں دونوں بازوؤں کے لوگ شامل تھے۔ یہ پارٹی جاپانی عوام کو یہ تاثر دیتی رہی کہ وہ اقتدار میں آ کر سوسائٹی کو یکسر تبدیل کر دے گی، شفافیت کو فروغ دے گی، پورے نظامِ تعلیم کے اندر انقلابی تبدیلیاں لائے گی اور سول سروس کی کایا پلٹ کے رکھ دے گی۔ اس کا سب سے بڑا نعرہ معاشرے کو بدعنوانی سے پاک صاف کر دینا تھا۔ یہ پارٹی 2009کے انتخابات میں بہت بڑا مینڈیٹ حاصل کرنے میں کامیاب رہی۔ 460 کے ایوان میں اسے 308 نشستیں ملیں۔ اقتدار میں آنے کے دس ماہ بعد پارٹی کے وزیرِاعظم Yukio Hatoyama اندرونی اختلافات کی وجہ سے مستعفی ہو گئے۔ دو سال بعد 2012 میں انتخابات ہوئے، تو لبرل ڈیموکریٹک پارٹی آف جاپان نے اسے شکست ِفاش سے دوچار کر دیا جو صرف 57نشستیں بچا سکی۔
جاپان کا یہ سیاسی تجربہ کئی اعتبار سے ہوش رُبا محسوس ہوتا ہے۔ ڈیموکریٹک پارٹی آف جاپان کو غیرمعمولی پارلیمانی کامیابی ملی، مگر وہ عوام کی حمایت دو سال بھی اپنے ساتھ قائم نہ رکھ سکی۔ اس کی بڑی وجہ نہایت مایوس کُن کارکردگی اور داخلی گروہ بندی تھی۔ وعدے بڑے بڑے جبکہ زمینی حقائق نہایت مایوس کُن۔ وہ فری مارکیٹ پر یقین رکھتی تھی، مگر گرتی ہوئی معیشت کو سنبھالا دینے میں بری طرح ناکام رہی۔ کرپشن کے سدِباب کا سائنٹفک بندوبست نہ کیا جا سکا اور نہ سول سروس میں تازہ روح پھونکی جا سکی، چنانچہ عوام اس کی قیادت سے دلبرداشتہ ہو گئے اور دو ہی سال میں سارا رومان ہوا ہو گیا۔ اس تجربے کی تفصیلات نے میرے اندر تحریک پیدا کی کہ تحریک ِانصاف کی قیادت، حکومت کے عمال اور کارکنوں سے اپیل کی جائے کہ وہ خودپسندی سے کام لینے کے بجائے عوام کی خدمت کو اپنا شعار بنائیں اور محض پروپیگنڈے پر انحصار کرنے کے بجائے عوام کے زخموں پر مرہم رکھنے اور ملکی حالات میں جوہری تبدیلی لانے کے لیے کامل سنجیدگی سے کام لیں کہ اسی طرح لیڈرشپ کا کرشمہ قائم رکھا جا سکے گا۔
پاکستان کے گردوپیش جو واقعات رونما ہو رہے ہیں، اس کے عوام ان سے یقینی طور پر متاثر ہوتے ہیں۔ یہ 17جون 2019کی بات ہے کہ ایک عدالت میں ایک انتہائی دلدوز واقعہ ظہور پذیر ہوا جو اُمتِ مسلمہ کے سینے میں خنجر کی طرح پیوست ہو گیا۔ جناب حافظ ڈاکٹر محمد مرسی جن کو سات سال پہلے مصری عوام نے اپنے ووٹ کے ذریعے منصب ِصدارت پر فائز کیا تھا، اُن کو فوج نے صرف ایک سال بعد ہی اقتدار سے محروم کر کے سزائےموت سنائی تھی۔ وہ اپنے خلاف بنائے ہوئے جھوٹے مقدمات کے خلاف چھ سال سے اپیل کے اذیت ناک عمل سے گزر رہے تھے۔ اِسی سلسلے میں وہ پنجرے میں بند کر کے عدالت میں لائے گئے اور جب وہ جج کے سامنے کھڑے ہونے کے لیے اُٹھے، تو دھڑام سے گر پڑے اور اپنے خالقِ حقیقی سے جا ملے۔ پاکستانی عوام کے دلوں پر ووٹ کی بےتوقیری اور عظیم المرتبت سیاسی قیادت کی بےحرمتی کا گہرا اثر ہوا، چنانچہ پاکستان میں جو جمہوری اور سیاسی قدریں پائی جاتی ہیں، اُن کے تحفظ کا شدید احساس اُبھرا ہے اور اُن پر شب خون مارنے والوں کے خلاف شدید اضطراب پایا جاتا ہے۔