• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

حمیرا مختار

ندا جلدی کرو بیٹا اسکول کے لئے دیر ہورہی ہے۔ یہ تیسری یا چوتھی آواز تھی جو ندا کی امی نے اسے دی تھی۔ ندا جو کہ اپنے موزے ڈھونڈنے میں مصروف تھی امی کی آواز پر چونکی اور تیزی سے دوڑتی ہوئی ناشتے کی میز پر آپہنچی اور روتے ہوئے کہنے لگی۔ ’’امی میرے موزے نہیں مل رہے، میں نے رات کو جوتوں کے ساتھ ہی رکھے تھے لیکن اب وہاں نہیں ہیں۔‘‘

’’تم نے کہیں اور رکھے ہوں گے۔ تم ناشتہ کرو میں دیکھتی ہوں۔ امی نے اسے تسلی دی اور خود کمرے کی طرف چلی گئیں۔ ندا ناشتہ کرنے لگی تب ہی دادی اماں اپنے کمرے سے باہر نکلتے ہوتے بولیں۔‘‘ کیا ہوا ندا بیٹا تم رو کیوں رہی ہو؟ ندا نے آنسو صاف کرتے ہوئے پوری بات دادی اماں کو بتادی۔ دادی اماں پریشان ہوتے ہوئے ندا کے ابو سے کہنے لگیں۔ سلمان بیٹا! میری مانو تو کسی مولوی وغیرہ کو بلا کر ایک بار گھر کا جائزہ لگوا لو۔ مجھے لگتا ہے کہ ہمارے گھر پر کسی جن وغیرہ کا سایہ ہوگیا ہے، آئے دن ہمارے گھر سے کوئی نہ کوئی چیز غائب ہوتی رہتی ہے۔ ابھی کل ہی کی بات ہے میں نے تسبیح پڑھ کر جائے نماز پر رکھی اور پانی پینے چلی گئی واپس آئی تو تسبیح غائب تھی، سارا گھر چھان مارا لیکن تسبیح کہیں نہیں ملی۔ اتنی دیر میں ندا کی امی بھی واپس آچکی تھیں۔ وہ بھی دادی اماں کی تائید کرنے لگی اور بولیں۔ ’’امی بالکل ٹھیک کہہ رہی ہیں اب تو کچن سے بھی ہر روز کچھ نہ کچھ غائب ہو جاتا ہے۔‘‘ کہیں ہمارے گھر پر جوئی آسیب نہ ہوگیا ہو۔‘‘ سلمان صاحب جو بہت دیر سے اپنی امی اور بیوی کی باتیں سن رہے تھے بولے۔ ’’ایسا کچھ نہیں ہے کوئی آسیب جن کچھ ہمارے گھر پر نہیں ہے آپ لوگ ہی اپنی چیزیں رکھ کر بھول جاتے ہوں گے۔‘‘ پھر ندا سے مخاطب ہو کر بولے۔ ندا بیٹا ابھی آپ اپنے بھائی کے موزے پہن کر اسکول چلو آپ کی امی آپ کے نئے موزے لادیں گی۔ ابو کے کہنے پر ندا اپنے بھائی کے پرانے موزے پہنے اور ابو کے ساتھ اسکول چلی گئی۔ ان لوگوں کے جانے کے بعد دادی اماں اور امی جان اس مسئلے کا حل تلاش کرنے کے لئے سرجوڑ کر بیٹھ گئیں۔ کبھی دادی اماں مشورہ دیتیں کہ اس گھر کو بیچ کر کوئی دوسرا گھر خرید لیا جائے تو کبھی امی جان کو ترکیب سوچتیں کہ گھر بیچنے کے بجائے کوئی دوسرا گھر کرائے پر لیا جائے تاکہ بچوں کی پڑھائی بھی متاثر نہ ہو اور ان جن بھوتوں سے بھی نجات مل جائے۔ غرض دادی اماں اور امی جان کئی طرح کے منصوبے بناتی اور رد کرتی رہیں، کافی دیر گزرنے کے بعد آخرکار دادی اماں اور امی جان کی کانفرنس اس نتیجے پر پہنچی کہ فی الحال یہ ہی مناسب ہے کہ کسی مولوی صاحب یا پیر بابا کو بلا کر گھر دیکھایا جائے۔ اس فیصلے پر متفق ہونے کے بعد امی جان نے صغری خالہ کو فون کر کے تمام صورتحال سے آگاہ کیا اور انہیں جلد ہی کسی بابا جی کو لانے کا کہا۔ صغری خالہ شام کو ہی ایک بابا جی کے ساتھ گھر پو موجود تھیں۔ بابا جی پور گے کا جائزہ لینے کے بعد بتایا کہ گھر کی چھت پر ایک بھوت اپنی فیملی کے ساتھ رہتا ہے اس کے شرارتی بچے ہی آپ کی چیزیں اٹھا کر لے جاتے ہیں اور آپ کو تنگ کرتے ہیں ۔ بابا جی کی بات سن کر سب لوگ بہت ڈر گئے لیکن بابا جی نے کہا گھبرانے کی بات نہیں ہے آپ کل ہی کسی کو میرے پاس بھیج دینا، میں دم کیا ہوا پانی اور تعویزوں کا پانی آپ کے گھر کے چاروں کونوں میں چھڑک دینا اور تعویز گھر کے ہر کمرے پر رکھ دینا۔ اس طرح تسلی دے کر بابا جی نذرانے کے طور پر کچھ پیسے امی جان سے لے چلے گئے۔ کچھ ہی دیر بعد ابو بھی آفس سے آچکے تھے۔ دادی اماں اور امی جان نے انہیں ساری بات بتا دی جسے سن کر ابو نے سب کو ڈانٹا اور کہا کہ اس طرح کسی کو بھی گھر میں نہیں بلایا کریں یہ سب جعلی فقیر ہوتے ہیں بس پیسہ بٹورنے کے لئے الٹی سیدھی باتیں کرتے ہیں لیکن دادی اماں اور امی جان کہاں ماننے والی تھیں۔ اگلے ہی دن صغری خالہ کو بھیج کر دم کیا ہوا پانی اور تعویز منگوا لئے۔ اب ہر روز گھر کے چاروں کونوں میں پانی چھڑکا جاتا اور تعویز بھی ہر کمرے میں رکھ دیئے گئے، لیکن ان سب کے باوجود بھی گھر کا سامن اسی طرح غائب ہوتا رہا۔ آخر کار تنگ آکر دوسرے پھر تیسرے، چوتھے اور پھر ایک کے بعد ایک نہ جانے کتنے پیر بابا اور مولوی حضرات گھر پر آتے رہے اور اسی طرح کی الٹی سیدھی باتیں کر کے سب کو پریشان کرتے رہے۔دن یوں ہی گزرتے جا رہے تھے کہ ندا اور اس کے بھائی ایان کے امتحانات شروع ہوگئے۔ امتحانات کی تیاری کے بہانے ان دونوں کو ایک موقع مل گیا کہ اس راز کا پتہ لگائیں کہ گھر سے چیزیں آخر غائب کیسے ہو جاتی ہیں؟ دراصل ندا اور اس کا بھائی ایان بہت بہادر اور انہیں اس قسم کے کام کرنے میں بہت مزہ آتا تھا۔ اب وہ دونوں رات کو دیر تک جاگ کر پڑھتے اور ساتھ ہی جن، بھوتوں کا انتظار بھی کرتے۔ ایک رات جب وہ دونوں دادی اماں کے کمرے میں بیٹھے اپنے پیپر کی تیاری کر رہے تھے کہ اچانک کسی کے قدموں کی آہٹ نے دونوں کو بری طرح ڈرا دیا۔ دونوں کے چہرے کا رنگ اڑ چکا تھا اور خوف کی وجہ سے وہ دونوں بری طرح کانپ رہے تھے کہ پھر وہی آواز آئی اور اب کہ ایسا لگا کہ جیسے ایک نہیں بلکہ دو تین افراد ادھر سے ادھر بھاگ رہے ہیں۔ ندا اور ایان کا خوف کے مارے برا حال تھا انہوں نے جلدی جلدی آیت الکرسی پڑھنا شروع کی پھر ہمت کر کے دروازے کے قریب پہنچ گئے۔ بہت آہستہ سے دروازے کو بالکل تھوڑا سا کھول کر باہر دیکھنے لگے لیکن یہ کیا باہر تو کوئی نظر ہی نہیں آرہا؟ پھر کسی کے چلنے کی آواز آرہی تھی؟ ابھی وہ اسی سوچ میں گم تھے کہ اچانک ان کی نظر صحن میں بھاگنے والے تین چار موٹے کالے رنگ کے چوہوں پر پڑی جو گھر کے مختلف چیزیں منہ میں دبائے تیزی سے ادھر سے ادھر بھاگ رہے تھے۔ ان دونوں نے جب یہ دیکھا تو دروازے کی روٹ سے باہر نکل آئے اور جلدی سے صحن کی لائٹ جلا دی لیکن اتنی دیر میں تمام چوہے وہاں سے بھاگ چکے تھے۔ اسی وقت ابو اور امی بھی اپنے کمرے سے باہر نکل آئے اور ان دونوں کو یوں حیران کھڑا دیکھ کر پریشان ہوتے ہوئے بولے! تم دونوں اتنی رات کو یہاں اس طرح کیوں کھڑے ہو، کیا ہوا؟ ندا اور ایان نے ساری بات امی، ابو کو بتا دی۔ دادی اماں بھی اتنی دیر میں وہاں آچکی تھیں اور کہنے لگیں لیکن یہ اتنے سارے چوہے آئے کہاں سے تھے اور کہاں چلے گئے؟

ابو نے کہا! اس کا پتہ ہم کل لگائیں گے، ابھی سب سو جائو رات بہت ہو چکی ہے؟ اگلی رات سب لوگ دادی اماں کے کمرے میں موجود تھے اور چوہوں کی آمد کا انتظار کر رہے تھے۔ دادی اماں اور امی جان کمرے میں بہت پریشانی کے عالم میں بیٹھی تھیں جبکہ ندا، ایان اور اس کے ابو صحن میں تھوڑے تھوڑے فاصلے پر چھپے بیٹھے تھے۔ گھر کی تمام لائٹس بجھا دی گئی تھیں اور گھر میں بالکل سناٹا چھایا ہوا تھا، تب ہی قدموں کی آہٹ نے سب کو چونکا دیا، ندا، ایان اور ابو بہت خاموشی اور بہادری کے ساتھ چوہوں کی تمام کارروائی دیکھنے لگے کہ کس طرح چوہے گھر کے مختلف حصوں میں گئے اور جو چیز بھی وہ آسانی سے اپنے دانتوں میں دباسکتے تھے گھسیٹتے ہوئے صحن کے ایک کونے میں رکھے ہوئے پرانے صندوق کے نیچے چلے گئے۔ چوہوں کے جانے کے بعد نداایان اورابو تیزی سے باہر نکلے اور صحن کی لائٹس آن کردیں۔ امی جان اور دادی اماں بھی لائٹ کے جلتےہی کمرے سےباہر نکل آئیں۔ ندا ایان اور ابو مل کر صندوق کو اسکی جگہ سے ہٹانے لگے جیسے ہی صندوق اپنی جگہ سے ہٹا اس کےنیچے پڑی ہوئی چیزیں دیکھ کر سب حیران رہ گئے وہ سب چیزیں جو ایکایک کرکےگھر سے غائب ہوئی تھیں ان میں اکثر چیزیں وہاں موجود تھیں اور ساتھ ہی دیوار کے ایک کونے میں ایک پرانی نالی بھی موجود تھی جو بہت سالوں پہلے صحن کا پانی باہر نکالنے کیلئے بنائی گئی تھی۔ چوہوں کا قافلہ اسی نالی سے اندر آتا اور گھر کے مختلف حصوں سے چیزیں اٹھا اٹھا کر اسی نالی سے واپس چلا جاتا، جو چیزیں نالی سے باہر نکل جاتی وہ چوہے اپنے ساتھ لے جاتے اور جو ذرا بڑی چیزیں تھیں وہ سب وہاں موجود تھیں۔ تمام لوگ یہ منظر حیرانی سے دیکھ رہے تھے کہ ابو بولے! ’’یہ ہیں آپ لوگوں کے جن، بھوت اور آسیب، جنہیں بھگانے کے لئے آپ لوگوں نے بابائوں اور مولویوں کو بلایا تھا۔‘‘ یہ سن کر دادی اماں اور امی جان شرمندہ ہونے لگیں۔ انہیں شرمندہ ہوتا دیکھ کر ابو نے زوردار قہقہہ لگایا اور پھر سب ہنسنے لگے۔

تازہ ترین