• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مسٹر یونیورس، مسٹر اولمپیا، دی ٹرمینیٹر، دی لاسٹ ایکشن ہیرو، گورنر شیوازنیگر، دنیا انھیں کئی ناموں سے جانتی ہے۔ اس کے علاوہ باڈی بلڈر، اداکار، بزنس مین، سرمایہ کار، انسان دوست شخصیت اور سیاستدان، غرض دنیا نے انھیں کئی کرداروں میں دیکھا ہے۔ انھوں نے یونیورسٹی آف سدرن کیلیفورنیا میں ’دی شیوازنیگر انسٹیٹیوٹ‘ بھی قائم کیا ہے، جہاں وہ عالمی ماحولیاتی مسائل کا حل تلاش کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔

آخر آرنلڈ کی کامیابیوں کا کیا راز ہے؟ یقیناً، ہر کوئی یہ جاننا چاہتا ہے۔ اس سوال کا جواب وہ یونیورسٹی آف ہیوسٹن میں اپنی Commencementتقریر میں دے چکے ہیں۔ ’میں نے زندگی ہمیشہ اپنے اصولوں پر گزاری ہے اور اپنے اصولوں سے ہی لڑتا رہا ہوں‘، تقریر کے دوران ان کا کہنا تھا۔

آپ بھی آرنلڈ شیوازنیگر کے متعین کردہ ان اصولوں پر عمل کرکے زندگی میں کامیابی حاصل کرسکتے ہیں۔

اپنے لیے ویژن تخلیق کریں

’ اگر آپ کے پاس کوئی ویژن ہوگا تو زندگی میں آپ جو کام بھی کریں گے وہ آپ کو اپنے ویژن کے ایک قدم اور قریب لے جائے گا‘۔ اگر آپ کے پاس کوئی ویژن نہیں ہوگا تو آپ زندگی میں کہیں کے نہیں رہیں گے۔ ویژن کے بغیر انسان اس کشتی کی طرح ہوتا ہے، جو سمندر میں ڈولتی رہتی ہے اور کبھی منزل پر نہیں پہنچتی۔ آرنلڈ شیوازنیگر کو دوسری جنگِ عظیم کے بعد اچھی طرح معلوم ہوچکا تھا کہ وہ اپنا ملک مقبوضہ آسٹریا چھوڑکر مواقع کی سرزمین امریکا جانا چاہتے تھے۔ خوش قسمتی سے انھیں باڈی بلڈر اور کامیاب بزنس مین ریج پارک (Reg Park) کی صورت میں اپنی زندگی کا بلیو پرنٹ (Blueprint)  نظر آگیا اور انھوں نے زندگی میں آگے بڑھنے کا ولولہ انہی سے حاصل کیا۔ ’اگر آپ کے پاس کوئی ویژن نہیں ہے، اگر آپ کے پاس زندگی کا کوئی مقصد نہیں ہے، اگر آپ اپنے مستقبل کو اپنی آنکھوں کے سامنے نہیں دیکھ سکتے، تو پھر آپ کی زندگی کا ہر دن زندگی سے لڑتے گزرے گا‘، وہ کہتے ہیں۔

خود یقینی پیدا کریں

’آپ خود پر بھروسہ کریں، چاہے لوگ آپ کے بارے میں کچھ بھی سوچتے ہوں‘۔ زندگی میں وہ کام کریں، جنھیں کرنے میں آپ جوش اور خوشی محسوس کریں۔ ساتھ ہی، آپ کو یہ یقین بھی ہونا چاہیے کہ اگر آپ یہ سب اپنی خوشی کے لیے کرتے رہے تو بہت جلد آپ اچھے مقام پر پہنچ جائیں گے۔

کچھ قوانین توڑنے کیلئے ہوتے ہیں

’قوانین توڑنے‘ سے آرنلڈ کی مراد یہ نہیں ہے کہ گاڑی کی رفتار پر نظر نہ رکھیں یا پھر ہروقت ’مجھے کسی کی پرواہ نہیں ہے‘ کی رَٹ لگائے رکھیں بلکہ اس سے ان کی مراد یہ ہے کہ بھیڑ چال کا شکار ہونے کے بجائے اپنے اندر کی آواز سُنیں کہ آپ جو کررہے ہیں وہ ٹھیک ہے یا نہیں۔ یہ بات آپ کے کاروبار اور آپ کے کیریئر پر بھی لاگو ہوتی ہے۔ جو فیصلے آپ اندر کی آواز سُن کر لیتے ہیں، اکثر وہی فیصلے معاشرے کو آگے لے جانے اور جدت کا باعث بنتے ہیں۔

تنقید کو نظرانداز کریں

نیلسن منڈیلا نے کہا تھا، ’لوگ ہمیشہ یہی سوچتے رہتے ہیں کہ یہ ناممکن ہے اور پھر کوئی اسے کرڈالتا ہے‘۔

جب آپ بڑے خواب دیکھتے ہیں تو یہ بات فطری ہے کہ لوگ آپ کو پاگل یا بے وقوف کہیں گے، آپ انھیں نظرانداز کریں۔ ’سوچیں، اگر میں نے خود پر تنقید کرنے والوں کو سُنا ہوتا تو کتنی بار میرا کیریئر ختم ہوچکا تھا۔ باڈی بلڈنگ چیمپئن؟ نہیں آرنلڈ تم یہ نہیں کرسکتے۔ مووی اسٹار؟ کیا بات کرتے ہو آرنلڈ! اپنی جسامت کو دیکھو، تم نے اسے ضرورت سے زیادہ بنا دیا ہے، مووی اسٹارز کی باڈی ایسی نہیں ہوتی اور پھر تمہارا لہجہ، اس لہجے کے ساتھ ہالی ووڈ میں کوئی بھی بڑا اسٹار نہیں بنا‘۔ ایسے میں آرنلڈ صرف یہی سوچتے تھے کہ اپنے ناقدین کو ہر بار غلط ثابت کرنا کس قدر بہترین احساس ہوتا ہے۔

محنت سے مت کترائیں

’آپ اپنی جیب میں ہاتھ ڈالے کامیابی کی سیڑھی نہیں چڑھ سکتے۔ اگر آپ جیتنا چاہتے ہیں تو کوئی راستہ نہیں ہے، جو محنت کیے بغیر آپ کو منزل پر پہنچادے۔ محنت کے بغیر آپ کے اصول آپ کو کامیابی نہیں دِلوا سکتے‘۔

محنت سے بھاگنے کا کوئی عذر نہیں ہے۔ ’میں صرف اس بات سے ڈرتا تھا کہ بعد میں مجھے خود سے کبھی یہ نہ کہنا پڑے کہ میں باڈی بلڈنگ مقابلہ یا الیکشن اس لیے ہار گیا کیونکہ میں نے محنت نہیں کی تھی‘۔ کیا آپ محنت نہ کرپانے کی وجہ وقت کی کمی کو گردانتے ہیں؟ ایک دن میں24گھنٹے ہوتے ہیں اور ان24گھنٹوں میں آرنلڈ اینٹوں کی چُنائی کا کاروبار چلاتے تھے، جم جاتے تھے، اداکاری کی کلاسیں لیتے تھے، شام میں بزنس اسکول جاتے تھے اور پھر بھی سونے کے لیے 6گھنٹے نکال لیتے تھے۔ اس سلسلے میں وہ اکثر سی این این کے ٹیڈ ٹرنر کی کہی ہوئی یہ بات دُہراتے ہیںEarly to bed, early to rise, work like hell and advertise'۔

بڑی سوچ رکھیں

’زندگی میں کامیابی حاصل کرنے کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ آپ کی چھوٹی سوچ ہوتی ہے‘۔

اکثر ہم سوچتے ہیں کہ ہم تو عاجزی دِکھا رہے ہیں یا پھر ہمیں اپنی حدود کا اندازہ ہے، دراصل یہی سوچ ہم پر غیرضروری قدغن لگانے کا باعث بنتی ہے۔ اگر آپ کامیابی حاصل کرنا چاہتے ہیں، تو اپنے ذہن میں خود ساختہ طور پر پیدا کردہ ہر دیوار کو گِرا دیں۔ آرنلڈ کہتے ہیں کہ ان کا ہدف صرف فلموں میں آنا نہیں تھا بلکہ ایک اسٹار بننا تھا۔ اسی طرح سیاست کے میدان میں انھوں نے محض سٹی کونسلر یا میئر بننے کے لیے قدم نہیں رکھا تھا، وہ گورنر بننا چاہتے تھے۔ مزید برآں، وہ کوئی بھی گورنر نہیں بننا چاہتے تھے بلکہ ان کاہدف دنیا کی 8ویں بڑی معیشت کا گورنر بننا تھا۔ اگر آپ کوئی کام کررہے ہیں تو پھر ٹھیک سے کرنا ہی واحد طریقہ ہونا چاہیے۔ ایک چھوٹا مقصد حاصل کرنے اور ایک بڑا خواب دیکھنے پر اتنی ہی توانائی خرچ ہوتی ہے۔

دنیا بدلنے کیلئے کچھ دینا بھی ضروری ہے

’ہم سب جانتے ہیں کہ آخر میں ہم اس بات سے نہیں پہچانے جائیں گے کہ ہم نے کیا بنایا ہے بلکہ اس بات سے کہ ہم نے دنیا کو کیا دیا ہے‘۔

’آپ اپنے اور دنیا کے درمیان حائل آئینے کو توڑ ڈالیں (جس میں آپ صرف خود کو ہی دیکھتے ہیں) اور پھر آپ کو نظر آئے گا کہ لاکھوں لوگوں کو آپ کی مدد کی ضرورت ہے‘۔ یہ بات آرنلڈ کے سسر رابرٹ سارجنٹ شرائیور نے کہی تھی، جس نے آرنلڈ کو بہت متاثر کیا۔ یہی بات، ان کے جارج بش سینئر کے ساتھ مل کر امریکا بھر میں صحت اور فٹنس کو فروغ دینے اور انسان دوست کام انجام دینے کی وجہ بنی۔ وہ آفٹر اسکول پروگرامز اور اسپیشل اولمپکس کےلیے بھی کام کرتے رہے ہیں۔ البتہ وہ اس سے بڑھ کر کرنے کے خواہش مند تھے، اس لیے 2003ء میں اپنے فلمی کیریئر کو خیرباد کہہ کر انھوں نے کیلیفورنیا کے گورنر کا الیکشن لڑنے کا فیصلہ کیا۔ ’وہ 7سال میری زندگی میں سب سے زیادہ پُرجوش، فائدہ منداور اطمینان بخش سال تھے‘۔اس کے علاوہ وہ Regions20آرگنائزیشن اور شیوازنیگر انسٹیٹیوٹ، یونیورسٹی آف سدرن کیلیفورنیا کے ذریعے سماجی اور ماحولیاتی مسائل پر بھی کام جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ’اگر میں نہیں تو کون؟ اگر ابھی نہیں تو کب‘؟(میخائل گورباچوف)۔

تازہ ترین