• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
میرے ایک دوست کو اخبار پڑھنے کا بہت چسکا تھا، جس کے نتیجے میں وہ پاگل ہوگیا اور اس کے ذہن میں عجیب طرح کے خوف اور واہمے جمع ہوگئے ہیں، ایک دن وہ میرے پاس آیا تو بہت گھبرایا ہوا تھا، کہنے لگا ”مجھے کچھ ہوگیا ہے“ میں نے کہا ”کیا مطلب، بولا کوئی ایک ہو تو بتاؤں میں جب اپنے گھر کی گھنٹی بجاتا ہوں اور اگر اندر سے چند منٹ تک جواب نہ ملے تو میرا ذہن وہ تمام کہانیاں تیار کرنے لگتا ہے جو روزانہ شہ سرخیوں کے ساتھ اخبارات میں شائع ہوتی ہیں۔ میں تصوراتی طور پر دیوار پھاند کر گھر میں داخل ہوتا ہوں تو مجھے ٹی وی لاؤنج میں اپنے بچے خون میں لت پت نظر آتے ہیں، ان کی گردنیں تن سے اسی طرح جدا ہوتی ہیں جیسے اخباروں میں چھپی ہوئی تصویروں میں دکھایا گیا ہوتا ہے، میں چیختا ہوا گھر سے باہر نکل جاتا ہوں، اہل محلہ مجھے دلاسہ دیتے ہیں۔ پھر اگلے روز کے اخبارات کی سرخیاں مجھے یاد آتی ہیں جب سات جنازے اکٹھے اٹھے تو کہرام مچ گیا۔ برابر برابر پڑی ہوئی سات لاشوں کی تصویر بھی چھ کالم میں چھپی ہوتی ہے۔ بین کرتی ہوئی عورتوں میں کسی خوش شکل خاتون کو آہ و زاری کرتے دکھایا جاتا ہے“۔
”دومنٹ دروازہ نہ کھلنے پر تمہارا یہ حال ہوجاتا ہے۔تم پاگل تو نہیں ہوگئے؟“
”میں تمہیں اپنے پاگل پن کا حال ہی تو بتا رہا ہوں۔میری بیٹی ایک کالج سے شام تک گھر واپس نہ پہنچی تو میں نے محسوس کیا۔ جیسے اس کی لاش اگلے روز سڑک پر سے پڑی ملی ہے۔ اس کی حبیب سے جو شناختی کارڈ برآمد ہوا تھا، اس میں لگی تصویر اخبار میں شائع ہوئی تھی، ساتھ رپورٹر کی تفصیلی کہانی تھی جس کے مطابق اسے چند روز پیشتر ایک نامی گرامی سمگلر کے ساتھ دیکھا گیا تھا، میری بیٹی کی خالہ کے متعلق اس شبے کا اظہا رکیا گیا کہ وہ بدکردار خاتون ہے اور میری بیٹی کی اس سمگلر سے ملاقات اس خالہ کی وساطت سے ہوئی تھی“۔
”یار، تمہاری دماغی حالت تو واقعی قابل رحم ہے“
”میں تم سے رحم کی بھیک مانگنے نہیں آیا۔ میں نے اخباروں میں مظلوموں کی کہانیاں اتنی وافر تعداد میں پڑھی ہیں کہ ہر وقت مریضوں میں رہنے والے ڈاکٹروں کی طرح میں بھی بے حس ہوگیا ہوں چنانچہ نہ اب مجھے خود پر رحم آتا ہے اور نہ کسی دوسرے پر! جب ظلم کی داستانیں بے نتیجہ شائع ہوں تو پڑھنے والے سنگدل ہو جاتے ہیں، لہٰذا تم اپنی رحم دلی اپنے پاس رکھو“۔
”تم مجھے غلط سمجھے ہو، میں تو…“
”چلو چھوڑو اس بات کو کہ کون غلط ہے، کون صحیح ہے۔ سچ اور جھوٹ سب گڈ مڈ ہو کر رہ گئے ہیں، میں تمہیں بتا رہا تھا کہ بعض اخباروں کی چنگھارتی ہوئی سرخیوں نے مجھے پاگل کر دیا ہے۔ میں جب پولیس کی موبائل گاڑی دیکھتا ہوں تو خوف سے میرا رنگ پیلا پڑ جاتا ہے۔ مجھے لگتا ہے ابھی پانچ چھ سپاہی گاڑی سے اتریں گے، اور مجھے رائفل کے بٹ مارتے ہوئے وین میں بٹھا کر تھانے لے جائیں گے اور اگلے روز میری تصویر کے ساتھ اخبار میں خبر چھپی ہوگی کہ مجرموں کے گروہ کا ایک اور سرکردہ رکن گرفتار کر لیا گیا!“۔
”مجھے تمہاری بات کی سمجھ نہیں آئی، جب تم نے کبھی کوئی جرم نہیں کیا تو پھر تمہیں یہ خوف کیوں ہے؟“۔
”تم عجیب آدمی ہو، کیا تم اخبار میں آئے دن یہ خبر نہیں پڑھتے کہ فلاں ملزم کی گرفتار ی کے بعد اس کی جیب سے ٹیلیفون ڈائری برآمد ہوئی۔ جس میں درج ناموں کو شامل تفتیش کرلیا گیا ہے۔ عنقریب ہولناک انکشاف ہوں گے!“
”مجھے واقعی تمہارے بارے میں تشویش شروع ہوگئی ہے“۔
”تم اپنی تشویش اپنے پاس رہنے دو، فی الحال صرف میری بات سنو ایک اور وہم مجھے دن بدن ہلکان کئے جا رہا ہے۔ مجھے ڈر ہے کہ کسی دن سوتے میں مجھے ہارٹ اٹیک ہو اور میں اپنے بستر پر مردہ پایا جاؤں، اس خیال کے ذہن میں آتے ہی ایک پوری فلم میرے دماغ میں چلنے لگتی ہے صبح کے اخبار میں سرخی چھپی ہوئی ہے۔ فلاں ابن فلا ں اپنے بستر پر پراسرار طور پر مردہ پائے گئے۔ ساتھ تصویر جس میں میری گردن ایک طرف کو ڈھلکی ہوئی، اگلے روز کرائم رپورٹر کی سٹوری شائع ہوتی ہے کہ محلے داروں سے پتہ چلا ہے کہ میاں بیوی کے درمیان ایک عرصے سے چپقلش چلی آرہی تھی۔ انہیں کئی دفعہ اونچی آوازمیں جھگڑتے بھی سنا گیا۔ شواہد سے پتہ چلتا ہے کہ مرحوم کو زہر دیا گیا۔ اس خبر کے بعد میرے بیٹے اپنی ماں کے خلاف ہو جائیں گے، سب اہل محلہ بھی میری بیوہ کو شک کی نظروں سے دیکھنا شروع کر دیں گے۔ پھر پولیس والے میرے گھر میں آئیں گے، میری بیوہ کو بلیک میل کریں گے“۔
”بس کرو ، خدا کے لئے بس کرو، تمہاری بیماری خطرناک حد تک پہنچ چکی ہے۔ اب تمہاراعلاج ضروری ہے، چلو میں تمہیں کسی ماہر نفسیات کے پاس لے چلوں!“
”صرف مجھے ڈاکٹر کے پاس لے جانے سے بات نہیں بنے گی۔ تم سروے کروا کردیکھ لو،میری طرح لاکھوں لوگ اس نوع کی ذہنی بیماریوں کا شکار ہوچکے ہیں“۔
”لیکن مجھے تو تم سے دلچسپی ہے، اٹھو ڈاکٹر کے پاس چلتے ہیں“۔
”تمہیں صرف مجھ سے نہیں بلکہ پوری قوم سے دلچسپی ہونی چاہئے اگر قوم اسی طرح ذہنی طور پر مفلوج ہوتی گئی تو قائداعظم اور اقبال کا پاکستان دشمنوں کے لئے تر نوالہ بن جائے گا، تمہیں مجھے ڈاکٹر کے پاس لے جانے کی ضرروت نہیں میں تمہیں بعض اخبارات کے چند رپورٹروں، کالم نگاروں، فیچر رائٹروں اور چند ایڈیٹروں کے ایڈریس دیتا ہوں، ہوسکے تو انہیں کسی ماہر نفسیات کے پاس لے جاؤ!“
آخر میں رحمن فارس کی ایک خوبصورت غزل:
سمجھ تو سکتے نہیں تم نوائے خلق خدا
بنے ہو خیر سے فرماں روائے خلق خدا
سنو! یہ ملکِ خدا ہے، تمہارا تخت نہیں
کسی کا حق نہیں اس پر سوائے خلق خدا
بھلے ہوں خوف کے پہرے، بھلے ہو جبر کا راج
دبائے اب نہ دبے گی صدائے خلق خدا
بلند تخت زمیں بوس ہوگا آخر کار
قبول ہو کے رہے گی دعائے خلق خدا
غضب خدا کا! خداداد مملکت میں نہیں
ذرا سی جائے اماں بھی برائے خلق خدا
تمام خون خراب خدا کے نام پہ ہے
امن مانگنے کس در پہ جائے خلقِ خدا؟
تمام خون خرابہ خدا کے نام پہ ہے
امان مانگنے کس در پہ جائے خلق خدا؟
اگرچہ ناؤ بھنور میں ہے، تجھ کو فکر نہیں
خدا کا خوف کر، اے ناخدائے خلق خدا!
شعورِ ظلِ الٰہی پہ صد سلام کہ جو
سمجھ ہی پاتے نہیں مدعائے خلق خدا
حضور والا تو ایسا نظام چاہتے ہیں
کہ زخم کھائے مگر رو نہ پائے خلق خدا
کبھی بھی لوح جہاں پر ٹھہر نہیں پاتے
وہ فیصلے کہ جو ہوں ماورائے خلق خدا
اسی سے ملتی ہے آئندہ ساعتوں کی خبر
ندائے غیب ہے فارس# نوائے خلق خدا
تازہ ترین