• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
آنجہانی ولیم شیکسپیئر کے ایک مشہور قول کا اردو ترجمہ یوں ہے’ نام میں کیا رکھا ہے ‘ لیکن حقیقت یہ ہے کہ نام میں اتنا بہت کچھ رکھا ہے کہ جہاں کہیں یہ قول لکھا جاتا ہے وہیں ذرا باریک حروف میں ’ ولیم شیکسپیئر‘ کا نام بھی ضرور لکھا جاتا ہے۔ یہی مکالمہ اگر ہمارے بنارس والے آغا حشر کے کسی ڈرامے کا ہوتا تو نہ قول لکھا جاتا ، نہ اس کے نیچے آغا صاحب کا نام تحریر ہوتا۔
نام کا ذکر یوں آگیا کہ کہیں کسی کے سر میں خدا جانے کیا سمائی، اب جب کہ انتخابات کا زمانہ ہے، اس خدا کے بندے کو پاکستان میں ایک نیا صوبہ تراشنے کی سوجھی۔ ہوتا یہ ہے کہ جب دو ملکوں میں جی بھر کر لڑائی ہو چکتی ہے اور دونوں تھک ہار کر جنگ بندی پر تیار ہو جاتے ہیں تو مقررہ وقت سے ذرا پہلے دونوں فوجیں سر توڑ کوشش کر کے دوسرے فریق کا زیادہ سے زیادہ علاقہ ہتھیانے کی کوشش کرتی ہیں یا اپنا علاقہ واپس چھین لیتی ہیں تاکہ بعد میں مذاکرات کے موقع پر اپنی شرطیں منوانے میں آسانی ہو۔
پاکستان میں فوراً ہی یہ بحث چھڑ گئی کہ نئے صوبے کا نام کیا ہوگا۔ ہم تو اپنے پڑوسی ملک میں یہ تماشا آئے دن دیکھتے ہیں۔ نئے نئے صوبے یوں بناتے ہیں جیسے ملک نہ ہوا کوئی خستہ کراری شے ہوئی، جب چاہا ، جہاں چاہا ، نیا صوبہ بنا دیا۔ میرا شہر روڑکی، جہاں میں پیدا ہوا تھا، اچھا خاصا یو پی کے ضلع سہارنپور میں ہوا کرتا تھا۔ ایک روز جو آنکھ کھلی تو پتہ چلا کہ صوبے کا نام بدل گیا۔ ابھی اس نئے نام کے عادی بھی نہیں ہوئے تھے کہ صوبے کا نام ایک بار پھر بدل گیا۔ نہ کوئی شور نہ شرابہ، لوگوں کو یہ کہتے سنا کہ اس سے ان کی زندگی آسان ہو جاتی ہے۔ پاکستان کا معاملہ مختلف ہے۔ یہاں صوبہ بنانے میں مصلحت آسانی کی نہیں بلکہ نیت کی ہوتی ہے۔ یہاں صوبے انتظامی علاقوں میں نہیں بلکہ قومیتوں ، زبانوں اور عصبیتوں میں تقسیم ہیں ۔ سندھیوں، بلوچوں، پنجابیوں اور پختونوں کے صوبے پتھر پر بنے ہوئے نقش کی مانند ہیں کہ ان میں ردوبدل کی بات کی جائے تو خنجر چل جاتے ہیں۔
لطف کی بات یہ ہے کہ ہمارے کم سے کم دو صوبوں کے نام بھارت کے قومی ترانے میں شامل ہیں ۔ ہوا کریں، کسی کو اعتراض نہیں اور نہ شہر میں بلوہ ہوا ہے۔ ہم نے تو کبھی کسی سندھی یا پنجابی کو یہ مطالبہ کرتے نہیں سنا کہ بھارت والے اپنا قومی ترانہ درست کریں۔ آخر انہوں نے ’سارے جہاں سے اچھا‘ کو توڑ مروڑ کر اپنے مطلب کا کرلیا یا نہیں۔
ایک بار ہمارے عزیز دوست فرہاد زیدی نے تجویز پیش کی تھی کہ بھارت کے قومی ترانے پر تو ہمارا بس نہیں چلتا،کیوں نہ پاکستان کے ہر صوبے کے نام سے پہلے لفظ ’ پاک‘ لگا دیا جائے۔ پاک پنجاب، پاک سندھ، پاک بلوچستان اور پاک سرحد۔ بلوچستان نام کا بہت بڑا صوبہ ایران میں بھی ہے۔ ہمارا بلوچستان پاکیزگی کا لبادہ اوڑھ کر اس سے الگ نظر آنے لگتا۔ پنجاب کے بارے میں تو محسوس ہوتا ہے کہ اصل پنجاب تو بھارت میں ہے، جیسے اصل کشمیر بھارت کے زیر انتظام ہے، ہمارے حصے میں تو اس کا پچھواڑا آیا ہے۔ انصاف سے دیکھئے تو پاک پنجاب کانوں کو بھلا لگتا ہے اور اس میں وطنیت کا خوشگوار احساس جھلکتا ہے۔ ہمارے سندھ کا نام پاک سندھ ہوتا اس میں پہلے سے موجود تقدس کا رنگ اور نمایاں ہو جاتا۔ چوتھے صوبے کا نام پاک سرحد ہوتا تو یوں محسوس ہوتا کہ یہ کسی قلعے کا نام ہے جو وطن کی حفاظت کے لئے فصیل بن کر کھڑا ہے مگر اس تجویز کا کیا حشر ہوا، خنجر نکل آئے کہ خبردار۔
ابھی نام رکھے جانے کے رواج کی بات جاری ہے۔ لوگوں کو لمبے لمبے اور دشوار نام رکھنے کا شوق کیوں ہے، ذہن یہ سمجھنے سے قاصر ہے۔ طویل نام رکھتے ہیں اور یہ بھی نہیں سوچتے کہ اجنبی لوگوں کی زبانیں وہ نام ادا کرتے ہوئے لڑکھڑائیں گی ضرور۔ مثال کے طور پر بانیٴ پاکستان کے کسی مدّاح نے کراچی کے ہوائی اڈے کانام قائد اعظم ٹرمنل رکھا۔ چلئے ، پی آئی اے کے کپتان تو اس کا اعلان آسانی سے کر دیتے تھے مگر ہم نے غیرملکی ہوابازوں کی حالت اکثر دیکھی کہ لاکھ کوشش کے باوجود بے چاروں کے منہ سے لفظ ’قائد اعظم‘ ادا نہ ہوتا تھا۔ مقام شکر ہے کہ کسی کو خیال آیا اور ہوائی اڈے کا نام جناح ٹرمنل رکھا گیا۔
مجھے یاد ہے کینیڈا کے کسی شہر میں جہاں بھارتی اور پاکستانی باشندے بڑی تعداد میں بستے ہیں، سڑکوں کے نام بھارت اور پاکستان کے عظیم رہنماؤں کے نام پر رکھنے کا فیصلہ کیا گیا۔ بھارت والوں نے جھٹ دو نام پیش کردئیے، ’گاندھی روڈ اور نہرو روڈ‘۔ کسی پاکستانی نے جو نام تجویز کیا وہ تھا ’ قائد اعظم محمد علی جناح روڈ‘ پھر خدا جانے اس کا کیا ہوا۔
جو لوگ واہگہ پار آتے جاتے رہتے ہیں انہیں اکثر یہ کہتے سنا گیا ہے کہ بھارت اور پاکستان بالکل ایک جیسے ہیں، ہوں گے مگر سڑکوں کے نام رکھنے میں بھارت والے بالکل جدا ہیں۔ انہوں نے برصغیر کی ہتھیلی پر مغرب کو مشرق سے ملانے والی عظیم تاریخی شاہراہ کا انگریزی نام بدل کر اس کے مسلمان معمار شیر شاہ سوری کے نام پر رکھ دیا۔ ایک ہم ہیں کہ اُسی سڑک کا جو ٹکڑا ہمارے حصے میں آیا ہے اس کے نام ’جی ٹی روڈ‘ پر مسرور ہیں کہ ہمارے جاگیرداروں کے سرپرستوں کی یادگار ہے۔
بھارت کی بات ہو رہی ہے تو کبھی دلّی کی سڑکیں دیکھئے۔ سارے مسلم حکمرانوں کے نام لکھے نظر آتے ہیں اور اس بات کا خاص خیال رکھا گیا ہے کہ یہ نام انگریزی اور ہندی کے ساتھ ساتھ اردو میں بھی لکھے جائیں۔
مگر آج یہ صوبوں کے ناموں کا موضوع کیوں چھڑ گیا۔ اس کا بھی سبب ہے۔ بہاولپور اور جنوبی پنجاب کو الگ صوبہ بنانے کی بات چل نکلی ہے۔ کیوں چلی ، کس نے چلائی اور کسے کیا ملے گا یہ ایک الگ بحث ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ خیبر پختونخوا کی طرح اس کا بھی ایک لمبا چوڑا نام رکھنے کی تجویز ہے، بہاولپور جنوبی پنجاب۔کوئی چھوٹا سا کانوں کو بھلا لگنے والا نام رکھاجاتا تو کسی کا کیا بگڑ جاتا۔ مجھے ایک بار یونان کے قریب مالٹا جانے کا اتفاق ہوا۔ مسیحی جزیرہ ہے لیکن صدیوں سے اس کے ایک تاریخی علاقے کا نام مدینہ ہے۔ کیا ہم ایسا ہی کوئی سہل سا نام نہیں رکھ سکتے تھے۔ خیبر پختونخوا کا تو یہ حل نکل آیا کہ لوگ آسانی کی خاطر اسے ’کے پی کے‘ کہنے لگے۔ اس پر خیال آتا ہے کہ نئے صوبے کے نام بہاولپور جنوبی پنجاب رکھا گیا تو لوگ سہولت کے لئے اسے ’بی جے پی‘ کہیں گے۔ بھارت کی ایک جماعت کے اس نام کا خود بھارت میں کوئی بڑا احترام نہیں۔ اسی نام کا ایک صوبہ پاک سرزمین پر قائم ہوگا تو کوئی ہنسے گا، کوئی مسرور ہوگا اور کوئی اس کو بطور لطیفہ دہرائے گا۔
کیا اچھا ہو کہ اگر یہ صوبہ قائم ہونا ہی ہے اور اس کی سرحدوں کے تعین میں سرائیکی زبان کو دخل ہے تو اس قدر میٹھی اور سریلی زبان سے کوئی بھلا سا لفظ لے کر وہ اس خطہٴ پاک کو عطا کردیا جاتا۔ یہ کام کچھ ایسا مشکل تو نہ تھا۔ یہ تو شاعروں اور گلوکاروں کی سرزمین ہے، یہ قلندروں اور صوفیا ء کا علاقہ ہے۔ ان کی مناسبت سے کوئی دلکش سا نام رکھ دیا جاتا۔ تمام با ذوق لوگ اس کام میں ہاتھ بٹاتے، داد دیتے، سراہتے اور خوشی خوشی قبول کرلیتے مگر با ذوق لوگوں کی پہلے کسی نے سنی ہے جو اب سنے گا۔
تازہ ترین