• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وزیراعظم عمران خان نے بے نامی جائیداد کی نشاندہی کرنے والوں کے لئے دس فیصد انعام کا اعلان کرتے ہوئے اس خوش آئند یقین کا اظہار کیا ہے کہ نئے پاکستان میں غربت‘ ناانصافی اورظلم کا خاتمہ ہوگا۔ غربت مٹاؤ پروگرام کی تقریب میں ان کا کہنا تھا کہ بے نامی جائیدادوں سے ملنے والی رقوم احساس پروگرام کے تحت محروم طبقات کو زندگی کی سہولتیں فراہم کرنے کے لئے استعمال کی جائیں گی۔ پاکستان کو مدینے جیسی ریاست بنانے کے عزم کا اعادہ کرتے ہوئے وزیراعظم نے صراحت کی کہ آج کی ماڈرن ویلفیئر اسٹیٹس در حقیقت ریاستِ مدینہ کے اصولوں پر قائم ہیں۔ اُنہوں نے اس امر پر افسوس کا اظہار کیا کہ وہ ملک جو اسلام کے نام پر بنا وہاں انسانیت نظر نہیں آتی جبکہ برطانیہ جیسے غیر مسلم معاشرے اسلام کے اصولوں کو اپنا کر ہم سے بہت آگے جا چکے ہیں۔ باہمی ہمدردی سے محروم معاشروں کو انہوں نے بجا طور پر جانوروں کا معاشرہ قرار دیتے ہوئے واضح کیا کہ مدینے کی ریاست میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو احساس دیا جو انسانی معاشرے کے لئے سب سے زیادہ اہم ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ چین نے مدینے کی ریاست کے اصولوں پر عمل کر کے 70کروڑ لوگوں کو غربت سے نکالا لیکن ہمارے ملک میں غریبوں اور امیروں کی دنیا الگ الگ ہے۔ عمران خان کے طرز سیاست سے سخت اختلاف رکھنے والے انصاف پسند لوگ بھی اس بات سے انکار نہیں کر سکتے کہ پاکستان کو اسلامی فلاحی ریاست بنانے کا جو عزم انہوں نے اپنی سیاسی جدوجہد کے آغاز میں کیا تھا، اس پر وہ ہمیشہ قائم رہے ہیں۔ وہ پاکستان کی نظریاتی حیثیت کا نہ صرف بہت واضح شعور رکھتے ہیں بلکہ اسے عملی شکل میں ڈھالنے کے لئے بھی آخری حد تک پرعزم ہیں۔ قومی کرکٹ ٹیم کے کپتان کی حیثیت سے وہ ایک مقبول شخصیت تھے لیکن ان کی سوچ اور فکر سے قوم کے پڑھے لکھے لوگ ان تحریروں کے ذریعے متعارف ہوئے، جو اخباری کالموں کی شکل میں شائع ہوئیں۔ ان تحریروں کے ذریعے اُنہوں نے اہلِ وطن کو بتایا کہ مسلمانوں کی اصل طاقت ان کا عقیدہ ہے جس نے عرب کے صحراؤں سے اٹھنے والی مادی وسائل سے محروم تحریک کو اپنے وقت کی عالمی طاقتوں پر غالب کردیا اور آج بھی اس عقیدے کو اپنا کر اور اپنے عمل کو اس کے مطابق ڈھال کر مسلمان دنیا کی امامت کر سکتے ہیں۔ عمران خان کو یہ شعور خود ان کے مطابق مصور پاکستان علامہ اقبال کے افکار کے مطالعے سے حاصل ہوا۔ حکومت سنبھالنے کے بعد اپنے ایک خطاب میں انہوں نے کہا تھا کہ جس مقصد کے لئے جدوجہد کی تھی اب اسے عملی جامہ پہنانے کا موقع مل گیا ہے۔ غربت مٹاؤ پروگرام کے تحت اب وہ اس سمت میں عملی پیش قدمی کررہے ہیں۔ ظلم، دھاندلی اور حرام کمائی سے امیر بننے والوں کی ناجائز دولت سے محروم طبقات کے شب و روز کی تلخیاں دور کرنے کا کام بلاشبہ ایک منصفانہ معاشرے کے قیام کے لئے انتہائی ضروری ہے لیکن اس عمل میں بھی انصاف کے تقاضوں کا پوری طرح ملحوظ رکھا جانا لازمی ہے۔ مجرم قرار پانے سے پہلے کسی کو سزا دینا، محض الزام کی بنیاد پر مخالفین کو بدنام کرنے کی مہم چلانا، احتساب کے عمل میں حکومت کے حامیوں اور مخالفوں کے ساتھ یکساں رویہ نہ رکھنا، قول عمل میں تضاد کا معمول بن جانا، یہ وہ باتیں ہیں جو حکمرانوں کو انتقامی جذبات سے مغلوب سمجھے جانے کا سبب بنتی اور احتساب کے عمل کو غیر معتبر بنا دیتی ہیں۔ پاکستان کو مدینہ جیسی ریاست بنانے کے مبارک عزائم رکھنے والوں کو ریاست مدینہ کے بانی صلی اللہ علیہ وسلم کے اس قول کو اپنا رہنما اصول بنا لینا چاہئے کہ وہ قومیں تباہ ہوجاتی ہیں جن میں قانون صرف طاقتور کے خلاف حرکت میں آتا ہے۔ مدینے جیسی ریاست اسی وقت وجود میں آسکتی ہے جب سربراہ مملکت کی بیٹی بھی چوری کرے تو اس کا ہاتھ کاٹا جاسکے اور ایک عام شہری حکمران وقت سے بھرے مجمع میں بے خطر پوچھ سکے کہ تمہارے جسم پر دو چادروں سے بننے والا یہ لمبا کرتہ کیسے نظر آرہا ہے جبکہ بیت المال سے ہر شخص کو صرف ایک ایک چادر ملی ہے۔

تازہ ترین