• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اللہ کا شکر ہے کہ اس نے ہمیں ایک اور اتوار سے نوازا ہے۔ اپنے آئندہ سے ملنے۔تبادلۂ خیال کرنے۔ پیاری پیاری باتیں کرنے کا دن۔ میں دو اتوار اپنے مستقبل سے ملنے سے محروم رہا۔ ماضی میں کھویارہا۔ بڑوں میں اٹھتا بیٹھتا رہا۔ جہاں لا متناہی حسرتیں۔ اپنے سوا سب کی غلطیاں چھانتے ہیں۔ قائد اعظم۔ نہرو گاندھی۔ لیاقت علی خان۔ خواجہ ناظم الدین۔ حسین شہید سہر وردی۔محمد علی بوگرہ۔ غلام محمد۔ چوہدری محمد علی۔ ایوب خان۔ یحییٰ۔ بھٹو۔ ضیاء الحق۔ بے نظیر بھٹو۔ میاں نواز شریف۔ جنرل پرویز مشرف۔ زرداری۔ عمران خان۔ سب ان کے کٹہرے میں کھڑے ہوتے ہیں۔ سب نے ایسے غلط فیصلے کیے کہ ملک مشکلات میں پھنستا گیا۔ ان میں سے کسی نے بھی ان کی بات نہ سنی۔ ورنہ تاریخ کچھ اور ہی ہوتی۔لاہور میں البتہ میرے اتوار کا کچھ حصّہ پاک ٹی ہائوس اور اس کے سامنے سروس روڈ پر دونوں طرف لگے پرانی کتابوں کے بازار میں گزرا۔ کیسی کیسی شخصیتیں فٹ پاتھ پر اپنی یادداشتوں کے ساتھ میری منتظر تھیں۔ انگریزی اُردو پنجابی۔شاعری۔ ناول۔تاریخ۔ جغرافیہ۔ صحت۔ ٹیکنالوجی۔ اسلحہ۔ مذہب سے متعلقہ کتابیں پورے احترام سے سب سے اوپر۔ وقت کا پتہ ہی نہیں چل رہا تھا۔ ڈاکٹر سید جعفر احمد کو نادر نسخے مل رہے تھے۔ کراچی کا پیسہ۔ لاہور کے فٹ پاتھ پر منتقل ہورہا تھا۔ تنویر شہزاد مجھے بہت سی اہم کتابوں کی طرف رہنمائی کررہے تھے۔ یہیں خان ظفر افغانی کی ’تشدد۔ تعصب اور تضاد‘ بھی دعوتِ خرید دے رہی تھی۔ بچوں کے لیے بھی بے شُمار کتابیں تھیں۔ خوش رہیں زندہ دلان لاہور حرف مطبوعہ سے تعلق زندہ رکھنے والے۔آج میں بے تاب ہوں اپنے آنے والے زمانوں سے ملنے کے لیے۔ جانے کتنے خزانے ہوں گے ان کے پاس کتنے سوالات ہوں گے۔ کرکٹ تو ایک ہے ہی دلچسپ موضوع۔ اب کے تو ہماری ٹیم نے بہت سی ذہنی آزمائشیں بھی کروادیں۔ یہ ملک ہارے گا تو ہم جیتیں گے۔ ایسا برا وقت بھی آیا کہ ہم اپنے ازلی دشمن بھارت کی فتح کی دُعائیں کرتے رہے۔

دیکھئے۔ آج کے دن کو صرف محبت۔ یگانگت کے لئے محفوظ رکھئے۔ صرف اپنوں کے درمیان گزارئیے۔ کیونکہ آپ کی ذمہ داری یہی ہے۔ ان میں اچھی عادتیں پیدا ہورہی ہیںیابری۔ آپ سے اس کا حساب لیا جائے گا۔ میاں نواز شریف۔ شہباز شریف۔ آصف علی زرداری۔ جنرل پرویز مشرف سب کو اپنا اپنا حساب دینا ہوگا۔ ایک دن سب ایک کٹہرے میں کھڑے ہوں گے۔ اس روز یہ جھوٹ نہیں بول سکیں گے۔ کیونکہ ان کے دست و بازو۔ آنکھیں۔ کان۔ دماغ۔ گواہی دے رہے ہوں گے۔ وہاں کوئی ٹوئٹر ہوگا نہ ٹیلی وژن۔ نہ ریلی نہ نعرے۔آپ کو مجھے اپنا حساب دینا ہوگا۔اس لیے آج یہ دیکھیں ۔جائزہ لیں کہ ہم رات دن حکمرانوں کی جن غلط اور نا پسندیدہ عادتوں پر تنقید کرتے ہیں وہ ہمارے بیٹوں بیٹیوں۔ پوتوں پوتیوں نواسوں نواسیوں میں تو پیدا نہیں ہوتی ہیں۔ جھوٹ بولنے ، منی لانڈرنگ کرنے والے ان کے ہیرو تو نہیںہیں۔ ان کے دلوں میں بڑے بنگلوں ، بی ایم ڈبلیو، فارچونز، ڈبل کیبن کے لیے اشتیاق تو نہیں ہے۔اسکول اب طویل تعطیلات کے بعد کھُل رہے ہیں۔ کچھ کھُل چکے ہیں۔ بچے آپس میں ملیں گے تو وہ ایک دوسرے سے پوچھیں گے۔ چھٹیاں کیسے کہاں گزاریں۔ بعض دوسرے ملکوں میں گئے۔ کچھ اپنے ہی ملک کے شہروں میں گئے۔ کچھ کا پہاڑوں پر جانا ہوا۔ضرور دریافت کریں کہ دوسرے ملکوں میں گئے تو وہاں کیا اچھی باتیں دیکھیں۔ سنیں۔ زندگی کے کونسے رنگ ڈھنگ پسند آئے۔ اپنے شہروں میں گئے تو وہاں کیا اچھا لگا۔ میری تو اپنے مستقبل سے خواہش ہوتی ہے کہ وہ جہاں جہاں جاتے ہیں۔ اپنے تاثرات اُردو اور انگریزی دونوں میں لکھیں۔ اس سے ایک تو ان کی تحریری مہارت کا اندازہ ہوجاتا ہے۔ سب سے بڑھ کر آپ یہ جان سکتے ہیں کہ وہ دنیا کو کس زاویے سے دیکھتے ہیں۔ ان کا معیار نظر کیا ہے۔ملک میں بھی گرمیوں کی تعطیلات کے لیے تربیتی پروگرام کا رجحان شروع ہوچکا ہے۔ بعض بچوں نے اس میں حصّہ لیا ہوگا۔ اس کے بارے میں بھی ان سے پوچھا جاسکتا ہے۔بعض بڑے بچے تبلیغی جماعت میں وقت لگاتے ہیں۔ ان سے پوچھئے کہ یہ روحانی تجربہ کیسا رہا۔آپ نے خود ان دنوں میں کوئی نئی کتاب پڑھی۔ اس پر بات کریں۔ کوئی نئی فلم دیکھی۔ اس سے کیا سیکھا۔اب کہا جارہا ہے کہ اقتصادی طور پر اگلے دو سال بہت کٹھن ہوں گے۔ بچوں کو بتائیں کہ یہ پہلی بار نہیں ہورہا ہے۔

اے شمع تجھ پر رات پہ بھاری ہے جس طرح

ہم نے تمام عمر گزاری ہے اس طرح

پاکستان میں ایسے کڑے وقت آتے رہے ہیں۔ ہم پہلے بھی آئی ایم ایف کے پاس جاتے رہے ہیں۔ غالب پہلے ہی کہہ گئے ہیں۔

رنج سے خوگر ہوا انساں تو مٹ جاتا ہے رنج

مشکلیں مجھ پر پڑیں اتنی کہ آساں ہوگئیں

پاکستانی قوم بہت جفاکش۔ صابر و شاکر ہے بڑے بڑے المیے سہہ جاتی ہے۔اس کے قدم نہیں رُکتے۔ آگے بڑھنے کا سفر جاری رہتا ہے۔

بچوں سے تبادلۂ خیال۔ اوّل تو وہ پہلے ہی جانتے ہوں گے کہ ملک کو درپیش مسائل کا حل سیاستدانوں اورجنرلوں کے پاس نہیں ہے۔ یہ مسائل اقتصادی ہوں۔ زرعی۔ پانی کی قلت یا توانائی کی۔ انہیں ماہرین معیشت حل کرسکتے ہیں۔ اور ان کا دائمی حل سائنسدان پیش کرسکتے ہیں۔ دنیا بھر میں یہی ہوا ہے کہ حکمران اپنے اساتذہ ۔ سائنسدانوں۔ زرعی۔ اقتصادی۔ سماجی۔عمرانی ماہرین سے مشورے مانگتے رہے ہیں۔ انہیں اعلیٰ کلیدی عہدوں پر فائز کیا۔ ملک کو بحرانوں سے نکالا۔ سیاسی حکمران ہوں یا فوجی۔ وہ ماہرین سے جب تجاویز لے کر پالیسیاں بناتے ہیں تو کامیابی ملک کا مقدر بنتی ہے۔ اور وہ جب اپنی انا کو ترجیح دیتے ہیں۔ خود کو عقل کُل سمجھتے ہیں تو افراتفری اور انتشارپیدا ہوتا ہے۔

اپنے بچوں میں سائنس اور معیشت سے لگن ابھاریے۔ ہمیں مستقبل کو سنوارنے کے لئے سائنسدانوں کی ضرورت ہے۔ سیاست دانوں کی نہیں۔ بچوں میں اپنے ملک۔ اپنے شہر کے قدرتی وسائل کی اہمیت اُجاگر کیجئے۔ ہمارے پاس سونے تانبے کے ذخائر ہیں۔ گیس تیل ہے۔ قیمتی پتھر ہیں۔ زرخیز زمینیں ہیں۔ ہمیں جیالوجسٹ (ارضی ماہرین) چاہئیں۔ یہ پہاڑ۔ یہ ریگ زار۔ لہلہاتے کھیت۔ سمندر کی تہیں۔ صدور۔ وزرائے اعظم۔ وفاقی وزراء کا انتظار نہیں کرتیں۔ ارضیات۔ بحریات۔ زراعت۔ نباتات کے ماہرین ملنے کے مشتاق ہیں۔آپ ضرور جائزہ لیں کہ آپ کے گھر میں کتنے ہیں جو سائنس سے رغبت رکھتے ہیں۔ مجھے تو بڑی خوشی ہوئی کہ کراچی کے ایک غریب علاقے نارتھ کراچی میں ایک خاندان میں سائنس کے مختلف شعبوں کی تین پی ایچ ڈی خواتین موجود ہیں۔ وہ ملک کے قدرتی وسائل کے بارے میں بہت عزائم اور تمنّائیں رکھتی ہیں۔ ملک کے مختلف حصّوں میں بھی ایسے گھرانے ہوں گے۔ یہ ہمارا فخر ہونے چاہئیں۔ بنی گالا۔ بلاول ہائوس۔جاتی امراء نہیں۔ خوشحالی کی ضمانت یہ ہائوس نہیں دیکھ سکتے۔ سائنسدانوں۔ اساتذہ۔ ماہرین تعلیم۔ ماہرین معیشت کے گھرانے دے سکتے ہیں۔ اپنے بچوں میں ان کی عزت اور احترام پیدا کیجئے۔

تازہ ترین