• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

واصف علی واصف ایک درویش صفت آدمی تھے، آزاد منش فلسفی کی سی زندگی انہوں نے گزاری، کوئی لالچ کوئی طمع ان میں نہیں تھی، آپ دل موہ لینے والی باتیں کرتے جنہیں سننے کے لئے لوگ ہر وقت ان کے پاس جمع رہتے، لاہور کے میانی صاحب میں آپ دفن ہیں۔ جہاں ہر سال آپ کا عرس منایا جاتا ہے۔ واصف صاحب کے بہت سے اقوال زریں نظر سے گزرتے رہتے ہیں، آپ کا ایک شاندار قول ہے ’’خوش نصیب وہ ہے جو اپنے نصیب پر خوش ہے‘‘۔ بظاہر یہ بہت خوبصورت بات ہے، سن کر اطمینان تو ہوتا ہے مگر مسئلہ حل نہیں ہوتا۔ اپنے نصیب پر خوش ہونے کا مطلب یہ ہے کہ جو نصیب میں لکھ دیا گیا ہے اس پر قناعت کرلو، خوش نصیب بن جائو گے یا اس کا مطلب ہے کہ اگر کسی شخص کے نصیب میں بہت سی دولت، کامیابی، کامرانی، حکمرانی ہے تو ظاہر ہے کہ وہ خوش نصیب ہے، اگر پہلی تشریح درست مان لی جائے تو پھر انسان مجبور ٹھہرتا ہے، انگریزی میں اسے fatalistکہتے ہیں، یعنی ایسا شخص جو یہ سمجھتا ہو کہ وہ زندگی میں کچھ بھی کرلے ہوگا وہی جو مقدر میں لکھا ہے، قسمت کا لکھا ٹالا نہیں جا سکتا، اگر نصیب میں دولت لکھی ہے تو مل جائے گی اور کامیابی لکھی ہے تو وہ خود آکر قدم چوم لے گی، لہٰذا بندے کو اپنے نصیب پر خوش رہنا چاہئے کیونکہ وہ اسے بدل تو سکتا نہیں۔ دوسری تشریح بھی زیادہ مختلف نہیں، اگر سب کچھ نصیب سے ہی ملنا ہے اور کسی کے نصیب میں حکمرانی لکھ دی گئی ہے یا دس ملین ڈالر کی لاٹری لکھ دی گئی ہے تو ظاہر ہے ایسا شخص خوش نصیب ہی کہلائے گا۔ واصف صاحب کی بات یقیناً بہت خوبصورت ہے مگر یہ خوشی اور مقدر کا پیچیدہ مسئلہ حل نہیں کرتی، اب تک کوئی بھی حل نہیں کر پایا۔ خوشی کیا ہے یا خوش نصیب کون ہے، یہ سوالات بہت سادہ لگتے ہیں مگر جواب گنجلک ہیں۔ ہم اپنے بچے کے چہرے پر مسکراہٹ دیکھ کر خوشی سے نہال ہو جاتے ہیں، من پسند شادی کرنے والوں کی خوشی بھی پہلی ملاقات میں دیدنی ہوتی ہے، کسی کنگلے کا اگر پرائز بانڈ نکل آئے تو اس سے زیادہ خوش نصیب بھلا کون ہوسکتا ہے، اقتدار کا ہما اگر کسی کے سر پر بیٹھ جائے تو کیا اسے خوش نصیب نہیں کہیں گے؟ مگر یہ بھی سچ ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بچے کی ہر مسکراہٹ سے آپ کو اتنی خوشی نہیں ملتی جتنی پہلی مرتبہ ملی تھی، شادی کی رات ساتھ جینے مرنے کی قسمیں کھانے والے کسی روز اطمینان سے علیحدگی کا فیصلہ بھی کر لیتے ہیں اور پھر اس پر خوش ہوتے ہیں، پرائز بانڈ والے خوش نصیب کا اگر انعامی رقم لینے کے لئے جاتے ہوئے ایکسیڈنٹ ہو جائے اور وہ ہمیشہ کے لئے ایک ٹانگ سے معذور ہوجائے تو کیا تب بھی وہ اتنا ہی خوش نصیب کہلائے گا، اقتدار کی کرسی پر بیٹھا بہادر شاہ ظفر اگر انگریز فوج کے ہاتھوں معزول ہوکر رنگون میں کسمپرسی کی حالت میں مرے تو ایسے شخص کی قسمت کے بارے میں ہم کیا فیصلہ صادر کریں گے؟

یونان کے بعض فلسفیوں نے خوشی کا علاج درویشی میں دریافت کیا تھا، یہ وہ فلسفی تھے جو دنیاوی مال و متاع سے دور رہتے تھے، ان کے تن پر ایک کپڑا ہوتا اور ہاتھ میں عصا، یہی ان کی زندگی کا کل اثاثہ ہوتا، وہ جہاں جاتے یہی تعلیم دیتے کہ اپنی ضروریات کو جتنا کم رکھو گے اتنی ہی آسودہ زندگی گزارو گے۔ دیو جانس کلبی کچھ ایسا ہی کردار تھا، اس کا کہنا تھا کہ خوشی حاصل کرنے کے لئے ضروری ہے کہ انسان کو کوئی محتاجی نہ ہو، وہ اپنی ذات میں ہی اتنی صلاحیت پیدا کر لے کہ خوشی کے لئے اس کی ذات ہی کافی ہو، باالفاظ دیگر انسان کو دنیاوی چیزوں کی ضرورت نہیں ہونا چاہئے، وہ بالکل سادہ زندگی گزارے، دنیاوی چکا چوند سے دور رہے۔ دیو جانس کلبی کی اپنی زندگی ایسی ہی تھی، اس کا کوئی گھر نہیں تھا، کوئی اثاثے نہیں تھے، وہ ایک طعنہ زن قسم کا فلسفی تھا جو نہ صرف اپنے افکار بلکہ اپنی عمل سے بھی لوگوں کو جھنجھوڑتا تھا، اس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ دن کی روشنی میں ایتھنز کی گلیوں میں چراغ لےکر گھومتا اور کہتا کہ اسے ایک ایماندار شخص کی تلاش ہے۔ مسلمان صوفیا بھی سادہ زندگی پسند کرتے تھے، روپیہ پیسہ، دھن دولت سے دور بھاگتے تھے، کم کھاتے تھے، سادہ لباس پہنتے تھے، کسی عہدے کی انہیں طمع تھی اور نہ طاقت کے حصول کی خواہش۔ خوشی کا مسئلہ مگر پھر بھی حل نہیں ہوتا، آج کی اکیسویں صدی میں سادہ زندگی گزارنا اڑھائی ہزار پہلے کے یونان میں سادہ زندگی گزارنے کے مقابلے میں کہیں زیادہ مشکل بلکہ قریباً ناممکن ہے، دیو جانس کلبی اگر آج کے دور کا کوئی حقیقی درویش دیکھ لے تو محض اس درویش کا بجلی کا استعمال دیکھ کر ہی اپنا سر پیٹ لے۔ گزرے وقتوں میں کم کھانے یا ایک ہی لباس استعمال کرنے کو حقیقت میں وصف سمجھا جاتا تھا کیونکہ اس زمانے میں لوگوں کے پاس خوراک کی فراوانی تھی اور نہ ہی لباس اور دیگر ضروریات زندگی کا حصول کوئی آسان کام تھا، قدیم وقتوں کے انسان کی گزر اوقات زراعت پر تھی، لوگ ایسی جگہوں کے قریب رہتے تھے جہاں اناج کی کاشت آسانی سے ہو سکے، بادشاہوں سے لے کر زر خرید غلاموں تک ہر کسی کی زندگی کا دارو مدار اسی اناج پر تھا، سو ایسے میں سادہ زندگی کا پرچار اور اس کا عملی مظاہرہ قابل عمل ہی نہیں مستحسن بھی تھا۔ آج صورتحال یہ ہے کہ امریکہ کی فقط دو فیصد آبادی زراعت کے شعبے سے وابستہ ہے جو نہ صرف پورے امریکہ کی خوراک کا بندوبست کرتی ہے بلکہ اضافی اناج درآمد بھی کرتی ہے (حوالہ: امریکی محکمہ زراعت)، آج جو چیزیں ایک بچہ محلے کی دکان سے سو روپے میں باآسانی خرید سکتا ہے صرف دو سو سال پہلے تک ان اشیا کا حصول کسی شہنشاہ کے لئے خواب میں بھی ممکن نہیں تھا۔ لیجئے، خوشی کی تلاش میں بات کہیں اور نکل گئی، نکتہ یہ تھا کہ آج سادہ زندگی گزارنا ممکن نہیں جیسی رواقی فلسفی یا مسلمان صوفیا بتاتے تھے، خوشی کا حصول اس کلیے کے ذریعے ممکن نہیں رہا۔

سچی بات تو یہ ہے کہ خوشی کیسے حاصل کی جائے تو بہت بعد کا معاملہ ہے پہلے یہ تو طے کیا جائے کہ خوشی ہے کیا اور اسے ماپا کیسے جائے؟ ہم تمام زندگی سوچتے رہتے ہیں کہ اگر ہمیں فلاں چیز مل جائے یا زندگی کا فلاں مسئلہ حل ہو جائے یا ایک ملین ڈالر مل جائے یا ہماری اگلے گریڈ میں ترقی ہو جائے یا ہمارے بچے امریکہ سے پڑھ لکھ جائیں تو پھر ہمیں خوشی مل جائے گی، لیکن ایسا کیوں ہوتا ہے کہ جب ہمارے من کی مراد پوری بھی ہو جاتی ہے تو ہم خود کو اتنا خوش محسوس نہیں کرتے جتنا ہم نے اس خواہش کا اظہار کرتے وقت کیا تھا؟ دراصل مستقبل کا خوف ہماری خوشیوں کا قاتل ہے، آج کی زندگی سادہ نہیں رہی، آج کی جدید زندگی میں معلومات کا سمندر ٹھاٹھیں مار رہا ہے، یہ معلومات مثبت بھی ہیں اور منفی بھی، ان معلومات کی بنیاد پر ہمارے دماغ میں وہ تمام خیالات چکراتے رہتے ہیں جو کسی ایک لمحے میں ہماری خوشیوں کو ختم کرسکتے ہیں، ہزار دو ہزار سال پہلے کے انسان کے پاس اتنی معلومات نہیں ہوتی تھیں، آج کے انسان کا المیہ یہ ہے کہ اسے ضرورت سے زیادہ ہی علم ہے ۔ اس گنجل سے کیسے نکلا جائے، یہ بات پھر کبھی!

تازہ ترین