• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میانوالی کے ڈپٹی کمشنرکےکمیٹی روم کی ایک سو اٹھارہ سالہ تاریخ میں یہ پہلی میٹنگ تھی جو وزیر اعظم کے حکم پربلائی گئی تھی ۔کمرہ پی ٹی آئی کے پرانے کارکنوں سے بھرا ہوا تھا ۔سلیم گل خان ، ملک طارق رکھی ، سابق ایم پی اے ڈاکٹر صلاح الدین ، جمال احسن خان، سردار بابر خان آف سوانس اور انوار حسین حقی موجود تھے۔یہ عمران خان کے حلقے کے حوالے سے ایک بریفنگ تھی ۔پی ٹی آئی کے چیف آرگنائزر سیف اللہ نیازی اپنی ٹیم کے ساتھ اسلام آبادسے آئے ہوئے تھے ۔بریفنگ کا آغاز ہوا تو ٹیم کے ایک ممبر احمد جوادنے کہاچونکہ بریفنگ میں با اختیار ضلعی انتظامیہ موجود نہیں ۔اس لئے اس کا کوئی فائدہ نہیں ۔سیف اللہ نیازی نے اِس دکھ کے ساتھ میٹنگ کے خاتمہ کا اعلان کیاکہ ضلعی انتظامیہ نےمیٹنگ میں شرکت کا وعدہ کیا تھا مگر شریک نہیں ہوئی ۔پی ٹی آئی کے چیف آرگنائزر کے ساتھ میانوالی کی ضلعی انتظامیہ نےایسا کیوں کیا۔کیا یہ طرزِعمل بیوروکریسی کے روایتی رویے کا عکاس تھا یا کہانی کچھ اور تھی ۔افسر شاہی کے حوالےسے ایک ڈیڑھ ماہ پہلے بھی وزیر اعظم کے حکم پر ضلع میانوالی کے پانچ بڑے افسروں کا تبادلہ کیا گیا تھا۔مگر ابھی تک ’’گڈگورننس ‘‘ کی اصطلاح سے میانوالی بلکہ پورا پنجاب واقف ہی نہیں ہو رہا ۔ بیوروکریسی کے منہ زور گھوڑے کو سنبھالنےکےلئےکوئی نواب امیر محمد خان چاہئے ۔گڈ گورننس کےلئےپنجاب میں عمران خان نےوزیر اعلیٰ کے ساتھ ترجمان کی حیثیت سے شہباز گل کو امریکہ سے بلا کرمتعین کیا ۔اس نوٹیفکیشن کے ساتھ کہ وہ سی ایم کے بی ہاف پر کوئی حکم بھی جاری کر سکتا ہے مگر ڈپٹی وزیر اعلیٰ سے بھی کچھ نہیں بن سکا ۔ہاں اگر خودشہباز گل کو کسی سیٹ سے الیکشن لڑا کر وزیر اعلیٰ بنا دیا جائے توشاید لڑکھڑاتا ہوا پنجاب سنبھل جائے ۔اس حوالے سے کئی بارگفتگو ہوئی مگرشہباز گل میں ہچکچاہٹ تھی ۔شاید وہ لاٹری نکلنے پر یقین نہیں رکھتے ۔پچھلی ضلعی انتظامیہ میں باقی افسروں کےساتھ ڈی سی اوشعیب جدون کا بھی تبادلہ خاصاتعجب خیزمعاملہ تھا۔وہ انتہائی ایمان دار اور محنتی افسر تھے۔وہ جب میانوالی آئے تھے تو اُن کے ساتھ دو شلوار قمیض ،ایک سفید اور نیلا ۔ دو پتلونیں اورچار شرٹیں ۔دو ویسٹ کوٹ ۔دو پشاوری چپل ۔ایک بوٹوں کا جوڑا تھا۔ ایک سستا ساموبائل فون بھی ۔ میانوالی سے جاتے ہوئے بھی اُن کے پاس کل یہی اثاثہ تھا ۔حیرت انگیز بات یہ تھی کہ عمران خان کے حکم پر ہی انہیں تبدیل کیا گیا تھا۔ان کی جگہ پر یہی نئی ضلعی انتظامیہ آئی تھی ۔جس نے یہ جانتے ہوئے بھی سیف اللہ نیازی سے صرفِ نظر کیا کہ وہ اس وقت پی ٹی آئی کے اکلوتے عہدہ دار ہیں ۔چیف آرگنائزرہیں ۔وہ جو پی ٹی آئی کی بائیس سالہ سیاسی جدوجہد کے شاہد ہیں ۔ انہیں معلوم ہے کہ سیف اللہ نیازی کون ہیں ۔جن دنوں پی ٹی آ ئی کے پاس تانگے کی سواریاں ہوا کرتی تھیں ۔اُن دنوں یہ نوجوان کہا کرتا تھا ’’میں اُس وقت تک شادی نہیں کروں گا جب تک عمران خان وزیر اعظم نہیں بن جاتے‘‘۔ جہانگیر ترین جب جنرل سیکرٹری تھے وہ ایڈیشنل سیکرٹری ہوا کرتےتھے ۔ایک دن کسی فیصلے سے ناراض ہوکرانہوں نے عمران خان کو اپنا استعفیٰ بھیجا ۔ جسے کپتان نےنظر انداز کر دیا مگرپھر کسی نے رات کے اندھیرے میں وہ استعفیٰ’ بنی گالہ ‘‘ سے چرایا اورمیڈیا کے حوالے کر دیا ۔یعنی سیف اللہ نیازی کو قرینے سے کنارے کر دیا گیا ۔ابھی وہ زیادہ دور نہیں گئے تھے کہ وزیر اعظم نے اُنہیں بُلا کر پارٹی کےمعاملات اُن کے حوالے کر دیئے ۔ اس فیصلے نے کارکنوں میں ایک نئی روح پھونک دی ۔ تھکے ہارے کارکنوں کو ایک برگد کی سی چھائوں میسرآگئی ۔ابھی چند دن پہلے خود عمران خان نےانہیں حلقے کے مسائل کا جائزہ لینے کے لئے میانوالی بھیجا تھا ۔ان کے دورے کو ناکام کرنے کی پوری کوشش کی گئی ۔ سنا ہے اس میں بنی گالہ سے لے کرکچھی گالہ تک کے لوگ ملوث تھے ۔وہ بھی جنہوں نے ماضی میں سیف نیازی کا استعفیٰ پبلک کر دیاتھا اور وہ بھی جو میانوالی میں خود کو ڈپٹی پرائم منسٹر سمجھتے ہیں۔ اب دیکھتے ہیں عمران خان کیا کرتے ہیں۔

بہر حال یہ طے ہے کہ اس وقت سب سے زیادہ خستہ حال پی ٹی آئی کے کارکن ہیں ۔ حکومت آ چکی ہے مگر انہیں پوچھنے والا کوئی نہیں ۔ذاتی طور پر وزیر اعظم کے پاس اب اتنا وقت نہیں کہ وہ کارکنوں سے رابطہ رکھ سکیں ۔اہم وزیروں اور مشیروں میں ایک بڑی تعداد ایسی ہے جو کارکنوں کو پہچانتی ہی نہیں ۔وہ کیا کریں ، انہیں پی ٹی آئی میں شامل ہوئے کچھ زیادہ عرصہ ہوا ہی نہیں ۔باقی وزیروں کی توجہ صرف اپنے حلقہ ِ انتخاب تک محدود ہے ۔اوپر سے عمران خان نے سختی سے منع کررکھا ہے کہ کسی کی بھی سفارش نہ جائے ۔سفارش کرنے پر کئی وزیر عمران خان سے ڈانٹ کھا چکے ہیں ۔سوال پیدا ہوتا ہے کہ پی ٹی آئی کا کارکن کہاں جائے۔عمران خان کو اس بات کا احساس ہے اسی لئے تو انہوں نےسیف اللہ نیازی کو پی ٹی آئی کا چیف آرگنائزر مقرر کیا مگر دوسری طرف صاحبانِ حکومت انہیں کوئی اہمیت دینے پر تیار ہی نہیں کیونکہ خاص طور پر ایم این ایز اور ایم پی ایز تو یہ سمجھتے ہیں کہ عوام سے رابطہ رکھنا صرف انہی کاکام ہے ۔پارٹی کے کارکن اور عہدے داروں کی کیا حیثیت ہے۔سو اس وقت سیف اللہ نیازی بہت سی آنکھوں میں کھٹک رہے ہیں ۔ان کی کوشش ہے کہ چلو یہ شخص کارکنوں سے رابطے کرتا ہے تو کرتا رہے مگر حکومتی معاملات میںاس کی بات بالکل نہ سنی جائے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ پارٹی اس وقت تک مضبوط نہیں ہو سکتی جب تک امیدوار کو ٹکٹ دینے کے فیصلہ کا اختیار اُس حلقے کے کارکنوں کو نہیں دے دیا جاتا ۔جس طرح یورپ میں ہے۔ایم این ایز اور ایم پی ایز کسی صورت میں بھی نہیں چاہتے کہ پارٹی طاقتور ہو۔وہ سمجھتے ہیں کہ پارٹی کے مضبوط ہونے سے وہ کمزور ہوجاتے ہیں ۔یقیناََ جب فیصلے پارٹی کے کارکن کرتے ہیں تو ان کی حیثیت ختم ہوجاتی ہے ۔ عمران خان کو چاہئے کہ فوری طور پر سیف اللہ نیازی کو بااختیار کریں کہ جلد سے جلدپارٹی کی تنظیم نو ہو سکے ۔ اقتدار کارکنوں تک پہنچے ۔ بلدیاتی الیکشن میں اگر اپنے حلقے کے امیدوار کا فیصلہ کارکنوں کے ہاتھ دے دیا جاتاہے تو پاکستان میں سیاست کی ایک نئی تاریخ رقم ہوجائے گی ۔

تازہ ترین