• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

5 جولائی 1977 کا شب خون 90 روز کی بجائے گیارہ برس چلا اور وقفے وقفے سے اُس کا سلسلہ جاری رہا۔ وہ شب خون اپنی بے شمار سفاکیوں کے ساتھ دل و دماغ سے محو ہونے کو نہیں۔ اب تو یوں لگتا ہے کہ اُس کی زیادہ تر مہلک علامات قومی تاریخ کے رگ و پے میں جذب ہو کر رہ گئی ہیں۔ اس کے باوجود کہ ’’قومی اتحاد‘‘ والے، 1973 کی جمہوریہ کو مارشل لا کی کھائی کے دہانے تک لے آئے تھے، بالغ سیاسی عناصر نے اس اندھی کھائی میں گرنے کی بجائے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت سے نئے انتخابات کے انعقاد پہ اکتفا کر بھی لیا، لیکن اب دیر ہو چکی تھی اور بھٹو صاحب اپنے ہی نامزد جرنیل کے شب خون کے منتظر تھے اور اس کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار۔ پھر جیسے مملکتِ خداداد پہ آفت ایسی ٹوٹی کہ ختم ہونے کو نہیں۔ حالانکہ بھٹو صاحب نے ٹوٹے ہوئے پاکستان کو پھر سے کھڑا کیا، بھارت کی قید سے 90 ہزار جنگی قیدی آزاد اور مفتوحہ علاقے واگزار کرائے، افواجِ پاکستان کو پھر سے تگڑا کیا، جوہری پروگرام کی بنیاد رکھی اور ایک قوم پرستانہ خارجہ و سلامتی کی پالیسی تخلیق کی، لیکن وہ جنرل ضیا اور اس کے رفقا کی فوجی بغاوت سے بچ نہ پائے۔ بھٹو صاحب اور جنرل ضیا میں اور سول فوجی تعلقات میں بھی کوئی بڑا مسئلہ نہ تھا۔ ہاں! اگر بڑا مسئلہ تھا تو وہ یہ کہ 1973 کے آئین اور اقتدارِ اعلیٰ کی سویلین ہاتھوں میں منتقلی، پرانے جدید نوآبادیاتی ریاستی ڈھانچے کو ہضم ہونے کو نہ آئی۔ بھٹو صاحب آخری وقت تک مالی طور پر ایک بے داغ، مقتدر، مقبول اور ذہین وزیراعظم رہے۔ اُنہوں نے افواج سمیت نوکرشاہی میں اصلاحات بھی کیں لیکن وہ اتنی ناکافی تھیں کہ سویلین جمہوری راج اُن کی ریشہ دوانیوں سے بچ پاتا۔ جنرل ضیاالحق نے اپنے ہی محسن کا نہ صرف یہ کہ تختہ اُلٹ دیا بلکہ ججوں کو استعمال کر کے اُن کے عدالتی قتل کا اہتمام بھی کیا۔ 1973 کا آئین معطل ہوا، عدلیہ باندی بنی، میڈیا بند ہوا، ہزاروں جمہوری کارکن جیلوں میں سال ہا سال کے لیے بند کر دیئے گئے۔ ہر طرف ریاستی دہشت کا راج مسلط کر دیا گیا۔ جونہی افغانستان میں انقلابِ ثور بپا ہوا اور شاہِ ایران کا تختہ ہوا، جنرل ضیاالحق (جن کے ہاتھ فلسطینیوں کے خون میں رنگے ہوئے تھے) نے اپنے اقتدار کو طول دینے کے لیے امریکہ اور سی آئی اے کے افغانستان میں ردِّانقلاب بپا کرنے کے منصوبے کے لیے اپنی خدمات پیش کر دیں۔ پھر کیا تھا نہ صرف ایک انتہائی رجعت پسند فوجی آمریت کو طوالت ملی، بلکہ پاکستان نام نہاد ’’آزاد دُنیا‘‘ کے فی سبیل اللہ فساد کے لیے دہشت گردوں کی آماجگاہ بنا دیا گیا، جس کا خمیازہ پاکستان کے عوام اور مسلح افواج کے جوان آج تک بھگت رہے ہیں۔ 1985 کے جس عبوری حکم نامے پہ غیرسیاسی عناصر کو ساتھ ملا کر ایک عجیب الخلقت فوجی و سویلین آمرانہ نظام تیار کیا گیا وہ آج بھی بڑھتے ہوئے کروفر سے جاری ہے۔ 90 کی دہائی میں جو چار مختصر سیاسی حکومتیں آئیں بھی وہ عضو معطل تھیں اور جنہیں باہم جوتم پیزار میں تھکا کر فارغ کر دیا گیا۔ پھر وہی ہوا جو 5 جولائی 1977 کو ہوا تھا اور جنرل مشرف اپنے کارگل ایڈونچر کی سزا پانے کی بجائے اقتدار پر غاصبانہ قبضہ کر بیٹھے۔ ایک اور منتخب وزیراعظم کو ایک اور جعلی کیس میں جلاوطن کر دیا گیا۔ جنرل ضیا الحق کا آٹھویں ترمیم والا آئینی چربہ ہو یا پھر جنرل مشرف کا آئینی سرکہ، اٹھارہویں ترمیم کے باوجود عملاً وہی ہے۔ جمہوریت کے لیے جدوجہد کا جو سفر 5 جولائی 1977 کے بعد شروع ہوا تھا، وہ ابھی بھی جاری و ساری ہے۔اب یوں محسوس ہوتا ہےگویا تمام جمہوری کاوشیں، قربانیاں، تحریکیں ضائع ہوئیں، اُلٹا کردہ و ناکردہ گناہوں کی سزائوں کا بازار پھر سے گرم کر دیا گیا ہے۔ اب آپ جمہوریت کی بات تو کر کے دیکھیں، ہر طرف سے کرپشن کرپشن کے طمانچے اور لفافے لفافے کے طعنے آپ کا استقبال کریں گے۔ لیکن عوام الناس نے کیا گناہ کیا ہے جو اصل گناہگاروں کے گناہوں کا بوجھ اُٹھاتے اُٹھاتے مرے جا رہے ہیں۔ یہ جس قرض کے جال کی بات کہتے لوگ نہیں تھکتے، ایوب خان سے جنرل مشرف کے دور تک دیکھیں کہ یہ جال کس نے بچھایا اور وہ قرض اور ’’امداد‘‘ کہاں خرچ ہوئی۔ خیر سے عمران خان کی معاشی ٹیم یہ تو بتائے کہ 12 ارب ڈالرز کے دوستوں سے قرض لینے کے بعد اگلے تین برس میں مزید 38 ارب ڈالرز کے قرضوں کا بوجھ ڈالنے کا ارادہ کس نیک کام کے لیے ہے۔ پھر بھی شور اس کرپشن پہ ہے جس سے اس ملک کے اخراجات کی داڑھ بھی گیلی ہونے سے رہی اور ہمارے سادہ کپتان یہ راگ الاپتے نہیں تھکتے کہ شریفوں اور زرداری کی دولت واپس آ جائے تو ڈالر اپنے مقام پہ آ جائے گا۔ حالانکہ ایک سب سے بڑے غیرملکی کھاتے میں محض 137 ملین ڈالرز ہیں۔ عمران حکومت نے ساڑھے سات ارب ڈالرز کے بیرونی اکائونٹس کی ریکوری کی مہم ختم بھی کر دی ہے جس کا گلہ ہمارے نصف انقلابی اسد عمر نے کیا ہے۔ بھئی یہ آ بھی جائے تو آپ کے نہیں مالکوں کے ہیں اور اس میں سے آپ کو 10 فیصد بھی ملے تو کوئی فرق پڑنے والا نہیں۔ اصل سوال وہی ہے جو تمام حکومتوں کو درپیش رہا ہے اور انہوں نے جسے تقریباً ایک جیسے حل پہ چل کر مسئلہ حل کرنے کی کوشش کی بھی تو ناکام رہیں اور اور آئندہ بھی رہیں گی۔ اصل مسئلہ سیاسی معیشت کا ہے اور اس دست نگر اور نحیف معاشی بنیاد کا ہے جس میں اتنے بھاری بھر کم بالائی ڈھانچے اور جنگی ریاست کے بے انتہا اخراجات کا بوجھ اُٹھانے کی سکت نہیں۔ اب یہ بحران لاینحل ہو چکا۔ آئندہ تین برس میں پچاس ارب ڈالرز کے مزید قرضے لے کر آپ اس مفت خور اور خرچیلی ریاست کا جہنم ٹھنڈا نہیں کر سکے۔ ضرورت ہے 1985 کے اقتدار کے ڈھانچے کو بدلنے کی اور عوام کو اقتدارِ اعلیٰ سونپنے کی اور دست نگر معیشت کے استحصالی ڈھانچے کو توڑ کر عوامی ترقی کے معاشی نظریے کو اپنانے کی۔ لیکن وہ جوہر کہاں چھپا ہے جو اس مملکتِ خداداد کا نجات دہندہ بنے۔ آخر کب تک 5 جولائی 1977 کا شب خون، 1985 کا مارشل لا نسخہ اور مانگے تانگے کی معاشی چھٹی جاری رہے گی۔ آخر اس نے ختم ہونا ہے یا پھر وہ ہوگا جسے انہدام (Implosion) کہتے ہیں۔ چپ رہ کر مرنے سے، کہہ کر مرنا اچھا ہے۔

تازہ ترین