• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جب سے پی ٹی آئی حکومت آئی ہے اپوزیشن جماعتوں نے انتخابات میں تحریک انصاف کی کامیابی کو قبول نہیں کیا ۔ انتخابات میں "دھاندلی "کا وا ویلااور وزیر اعظم کے لئے پھبتیا ں دراصل اس حکومت کو بے اختیار کرنے کے سیاسی حربے ہیں ،یہ سب کچھ اس وقت سے کیا جا رہا ہے جب سے ا نتخابات میں دھاندلی ثابت نہیں کی جاسکی لیکن پاکستان میں انصاف کی توقع کیسے رکھی جاسکتی ہے۔ہمارے یہاں طر زراج جمہوریت کو اقتدار تک پہنچنے کے لئے محض ایک رسم کی حیثیت حاصل نہیں جمہوریت کو سیاسی نظام کی بنیاد کے طور پر قبول ہی نہیں کیا جاتا ۔جبکہ اس طرز کا نظام کسی بھی ملک میں استحکام اور بہتری لاسکتا ہے ۔پاکستان میں جمہوریت حکمران اشرافیہ کے محدود طبقے کی جیب کی گھڑی اور ہاتھ کی چھڑی ہے ،اس لئے اکثر یت کو تعلیم سے دور رکھا گیا کہ وہ اپنے حقوق کا مطالبہ کرنے کے لئے مزاحمت کے قابل نہ ہوسکیں ،تعلیمی نظام کو سرکاری اور نجی شعبوں میں بانٹ دیا گیا،برائے نام سرکاری تعلیمی ادارے عوام کے لئے ہیں اور نجی شعبہ اشرافیہ کے لئے ہی تصور کیا جانے لگا۔موجودہ حکومت نے بھی ابھی تک تعلیم پر کوئی توجہ نہیں دی ہے بلکہ وہ ابھی تک انصاف کے چکر میں انتقام کی حد تک جا چکی ہے ۔اور عوام کی فلا ح بہبود کے لئے کوئی کام نہیں کیا بلکہ نیب پر ہی زور دیا جارہا ہے ۔پہلے نواز شریف پر زور دیا گیا پھر شہباز شریف ،حمزہ شہباز،حنیف عباسی اور سعد رفیق پر مقدمات قائم کئے گئے مگر تا حال ابھی تک کوئی بھی چیز نیب ثابت نہیں کر سکا۔ جگہ جگہ شہروں میں بورڈ لگے ہوئے ہیں جن پر لکھا ہوتا ہے کہ کیمرے کی آنکھ آپ کو دیکھ رہی ہے تو مسلم لیگ (ن) کے رانا ثناء اللہ صاحب بھی کچھ عرصے سے کیمرے کی آنکھ کی زد میں تھے،جدید ترین ٹیکنالوجی نے فون پر ہونے والی گفتگو تو کجا بند کمروں کی گفتگو کو بھی محفوظ رہنے نہیں دیا۔رانا ثنا اللہ کا شمار مسلم لیگ (ن )کے سب سے زیادہ منہ پھٹ اورنڈررہنمائوں میں ہوتا ہے وہ اپنی جماعت کے ـ"عقابوں ـ"میں سرفہرست ہوتے ہیں ،اسی لئے مسلم (ن ) کی تنظیم نو میں ملک کے سب سے بڑے صوبے کی پارٹی کی تنظیم ان کے سپرد کی گئی۔اب موجودہ گورنمنٹ میں ان کو منشیا ت کے کاروبار کے الزام میں گرفتار کر لیا گیاہے اور ان کی گرفتاری کو انتہائی اہم قرار دیا جا رہا ہے ،رانا ثنا اللہ پر پہلے بھی فسادات ،قتل اورسانح ماڈل ٹائون میں ملوث ہونےکے الزامات ہیں ،لیکن ان میں کافی شواہد دستیاب نہیں ہو سکے ،ان کے خلاف ان کے خوف کی وجہ سے کوئی بھی گواہ زبان کھولنے کے لئے تیار نہیں ہوتا تھا ۔اب جبکہ اینٹی نارکوٹکس فورس نے چند منشیات فروشوں کو گرفتار کیا تو ان سے پتا چلا کہ فنڈز کے لئے وہ رانا ثناء کی ایما پر دھندہ چلاتے ہیں ۔فیصل آباد سے لاہور جاتے ہوئے جب رانا ثناء اللہ کی گاڑی کو روکا گیا تو ان کی گاڑی سے لگ بھگ 15کلوتک منشیات برآمد ہوئی ۔قتل ،کرپشن اور رشوت ستانی سے بچ نکلنے والے رانا ثنا اللہ اس معاملے سے کیسے اپنی گردن بچاتے ہیں یہ دیکھنا ابھی باقی ہے ،مسلم لیگ(ن)اور شریف خاندان کے لئے ان کی گرفتاری بہت بڑا دھچکا ہے اور پارٹی کے لئے بڑا نقصان ہے۔ اسی طرح نیب کی تحقیقات کےاہم موڑ پر سابق صدر پاکستان آصف علی زرداری اور ان کے اہل خانہ کا نام بھی سامنے آیا ہے جو کہ خلاف توقع نہیں تھا ۔لینڈ مارک اور نیشنل گیس پرائیوٹ لمیٹڈسے متعلق انکشافات سامنے آئے ہیں ،پہلے ہی اربوں روپے کی منی لانڈرنگ کے لئے استعمال ہونے والی کمپنیوں میں اضافہ ہوا ہے ۔مارک لینڈ آصف علی زرداری کی ملکیت ہے اور ان کی ہمشیرہ فریال تالپوراور عذراپیچو ہو بھی شراکت دار ہیں۔ان کی تفصیلات ایک کمپیوٹر ڈسک سے حاصل ہوئیں جوکھوسکی میں اومنی گروپ کی شوگر مل پر ایف آئی اے کے چھاپے کے دوران حاصل کی گئی تھی ۔آج نیب اور عدالتیں زرداری صاحب کے خلاف جو کارروائیاں کر رہے ہیں وہ کوئی ذاتی انتقام نہیں بلکہ یہ اقدامات ملکی معیشت کی بنیادیں ہلادینے والی کرپشن اور منی لانڈرنگ کے خاتمے کے لئے نا گزیر ہو چکے ہیں۔کئی دیگر چور بھی کھلے عام گھوم رہے ہیں جنہیں انصاف کے کٹہرے میں لانا ضروری ہے،مگر یہ کام اتنا آسان نہیں ہے۔کرپشن کے انتہا ئی مضبوط ڈھانچے کو توڑ نے کے لئے فیصلہ کن اقدامات کرنے ہونگے ،اس کے لئے جعلی کھاتوں کے ذریعے رقوم کی منتقلی جیسے راستے بند کرنے سمیت دیگر اقدامات کرنے ہونگے۔حکومت دیانتداری سے کمائی گئی دولت اور ٹیکس منی کی حفاظت کی ذمہ دار ہوتی ہے۔ لوٹ مار سے بنائے گئے اثاثوں کا تحفظ اس کا کام نہیں ہے۔ حکمران طبقے کے افراد کو بھی غلط بیانی اور جھوٹ بولنے پر سزائیں دی جانی چاہئیں۔ پاکستان میں عدل و انصاف بحال کرنے کے لئے ایسے بے باکانہ فیصلوںکی ضرورت ہے ۔ حکومت نے معاشی دبائو سے نمٹنے کے لئے بہت سے غیر روایتی اقتصادی اقدامات کا فیصلہ کیا ہےجن سے بلا شعبہ غریب طبقے پر زد پڑتی ہے اور اسے روز ایک نئے قانون اور ضابطے میں جکڑنے کی تدبیر سمجھا جا رہا ہے۔ مارکیٹ فورسز میں ایک ہیجا ن ہے اور تجارتی اور کاروباری حلقوں میں قیاس آرائیوں کے ساتھ ساتھ تشویش کی لہر بھی دوڑ گئی ہے۔ تاجروں نے ہڑ تالیں کرنی شروع کر دی ہیں ،ٹرانسپورٹر حضرات نے بھی 10جولائی سے ہڑتال کرنے کا اعلان کیا ہے ۔سب سے زیادہ تشویش کی بات یہ ہے کہ ان حالات میں ملک کا معاشی مستقبل کیاہو گا ۔بجٹ کے نفاذ کے بعد یکم جو لائی سےاسپورٹس لیدر، ٹیکسٹائل، کارپٹس، سگریٹ، سیمنٹ، سریا، اینٹیں سمیت دیگر اسٹیل مصنوعات کوکنگ آئل، گھی، مشروبات، پینٹ ، چینی، الیکٹرک ہوم اپلائنس، شیمپو، آٹا، صابن، سی این جی سب پر اضافہ کر دیا گیا ہے۔ ان کی دیکھا دیکھی فروٹ اور سبزی فروشوں نے بھی قیمتوں میں اضافہ کر دیا ہے۔یوٹیلٹی اسٹور پر بھی اشیاء ضرورت کی قیمتیں عام اسٹور کے برابر ہوگئی ہیں۔ دیکھنے میں یہی آرہا ہے کہ عوام ریلیف سے محروم ہیں جبکہ اہل اقتدار، وزراء، مشیراور حکومتی عہدیدار ہر قسم کی مراعات لے رہے ہیں، لہذاحکومت کی یہ دہری پالیسی بند ہونی چاہئے۔

تازہ ترین