پاکستان میں غربت نے حکومت اور اپوزیشن کو جہاں بے نقاب کیا ہےوہاں ہر وہ صاحب ِاختیار،جو کسی بھی شعبے یا ادارے سے متعلق ہے،اور جس کی عوام کی نظر میں وقعت تھی،اب اصل چہرے کے ساتھ ان بے بسوں کے سامنے ہے۔سیاستدانوںکےمتعلق تو یہ کہنا عا م ہےکہ ان کےکہے کا کوئی اعتبار نہیں، لیکن یہ اعتبار اس قدر جلد جاتارہےگا،شاید ہی کسی نے سوچا ہو،اپوزیشن کی للکاریہ تھی کہ وہ غریب کش بجٹ کو پاس نہیں ہونے دینگے،لیکن وہ تو اس طرح نام نہاد نکلے کہ آئی ایم ایف کا بجٹ کیا روکتے کہ اپنے لوٹوں کو دوسروں کے پاس جانےسےنہ روک سکے۔ احسان دانش نے کہا تھا
نہ رہنمائوں کی مجلس میں لے چلو مجھ کو
میں بے ادب ہوں ہنسی آگئی تو کیا ہوگا
ان رہنمائوں میں کوئی تخصیص نہیں،ہر جماعت کے نزدیک لوٹے اُس وقت لوٹے ہوتے ہیں جب وہ دوسروں کے استعمال میں ہوتے ہیں جیسے ہی وہ واپس آتے ہیں تو ان کا استقبال اس طرح کیا جاتاہے کہ جیسے وہ بہت ہی ’’پاک‘‘جگہ سے آئے ہوں، یہ ہےہماری سیاسی جماعتوں کی کہانی!
سُن تو سہی،جہاں میں ہے تیرا فسانہ کیا!
کہتی ہے تجھ کو خلقِ خدا ،غائبانہ کیا!
کیا یہ ظلم نہیں ہے کہ قومی خزانے کو لوٹے کوئی اور،اور سزاس جرم کی عوام کو مہنگائی کی صورت میں دیدی جائے،المیہ مگر یہ ہے کہ اسلامی جمہوریہ کا منبر و محراب بھی اس بابت خاموش ہے۔اگلے روز ایک مسجد سے پانی کی موٹر چوری ہوگئی، مفتی صاحب فرما رہے تھے کیا زمانہ آگیا ہے لوگ مسجدوں کو بھی نہیں بخشتے،اب ہم کیا کہتے کہ جگہ جگہ مساجد ومدرسے ہونے کے باوجود نہ جانے تربیت کا خلا کہاں رہ جاتاہے، غربت اخلاقیات پر بھی تووار کرتی ہے۔ ہمارے ہاں بعض مولوی صاحبان حکومت سے کوئی بھی عہدہ ہو ، لیتے وقت یہ نہیں کہتےکہ اس کا براہ راست دین سے کتنا تعلق ہے،لیکن غربت کو د نیا دار لوگوں کا معاملہ قرار دیتے ہیں،حالانکہ وہ جس جمہوری سیاست کاحصہ ہیں ،اُسکا اصل موضوع فرد کی خوشحالی ہے۔ صاحبانِ جبہ و دستار ویسے تو مخصوص ایشوز پر سڑکوں پر آجاتے ہیں، لیکن مہنگائی و غربت اور ٹارگٹ کلنگ یا بم دھماکوں جیسے ظلم پر لب کشائی مناسب نہیں سمجھتے!اسلام مکمل ضابطہ حیات ہے، اور یہ زندگی کے تمام شعبوں کے بارے میں رہنمائی فراہم کرتاہے،لیکن ہمارے ہاں اکثر مذہبی لوگ صرف یہود وہنود کے کرتوتوں پر ہنستے ہیں اوردلچسپی بھی صرف اپنے پسندیدہ شعبوں ہی میں لیتےہیں۔
عالمی اقتصادی فورم کی ایک رپورٹ کے مطابق دس ہزار سال میں پہلی باردنیا میں غریبوں کی تعداد کم ہونے لگی ہے۔دنیا کی آبادی کا پچاس فیصد یعنی 3 ارب 80 کروڑ افراد کا شمار مڈل کلاس یا امیر خاندانوں میں ہونے لگا ہے ۔ ہر سیکنڈ میں پانچ لوگ مڈل کلاس گھرانے میں شامل ہو رہے ہیں۔ ماہرین نے اس رپورٹ میں 188 ممالک کا سروے کیا۔ انتہائی غربت سے مڈل کلاس میں داخل ہونے والے ہر دس میں سے نو کا تعلق چین، بھارت، جنوب اور جنوب مشرقی ایشیائی ممالک(یعنی ہمارے پڑوسیوں اور آس پاس کے ممالک )سے ہے‘‘ دوسری طرف پلاننگ کمیشن نے عرصہ قبل ایک سروے کیا تھا،جس کےمطابق پاکستان میں 7 کروڑ 77 لاکھ افراد خط غربت سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ ایٹمی پاکستان بارے نیرولوجسٹ کا کہنا ہے کہ یہاں ایک کروڑ چالیس لاکھ سے زائدافراد ذہنی امراض میں مبتلا ہیں جن کی وجوہات میں معاشی تنگی ،امن وامان کی مخدوش صورتحال ،پریشانی ،بےروزگاری شامل ہیں ۔اس تناظر میں اس سے بڑا ستم کیا ہوسکتاہے کہ پاکستان میں5لاکھ مریضوں کیلئے صرف ایک نفسیاتی معالج ہے۔ یہ درست ہے کہ غربت میں اول اور خوشحالی میں آخری نمبر پر آنے کا سبب سابقہ سول و آمرانہ حکومتیں ہی ہیں لیکن موجودہ دس گیارہ مہینوں میں مہنگائی میں جس طرح اضافہ ہواہے، اُس سے موجودہ حکمرانوں کے بہتری کے دعوئوں پر بھی بقول چراغ حسن حسرت دل اعتبار کرنے کیلئے تیار نہیں۔
امیدِ وصل نے دھوکے دئیے ہیں اس قدر حسرت
کہ اس کافر کی ہاں بھی اب نہیں معلوم ہوتی ہے
اب نئے پاکستان میں ایک طرف (خدانخواستہ )اگر ذہنی مریضوں کی تعداد میں تشویشناک اضافے کا خدشہ ہے ،تو دوسری طرف ہر موذی مرض میںپہلے سے ہی ہم دنیا میں ریکارڈ ہولڈرز ہیں۔نئے پاکستان میں ظلم پہ ظلم یہ بھی ہواکہ جان بچانے والی دوائوں کی قیمتوں میں بھی اضافہ کردیا گیا ہے۔اب حکومت ،اپوزیشن کے احتساب میں اس طرح مگن ہے کہ جہاں اُس کی توجہ ان اموات اور غریب عوام کی طرف نہیں جاتی تو دوسری طرف شوگر ودیگر مافیاعین حکومت کی ناک تلے اپنی تجوریاں ڈالر ز وسونے سےبھر نے میں مصروف ہیں۔واہ رے نئےپاکستان!
بھوک پھرتی ہے میرے ملک میں ننگے پائوں
رزق ظالم کی تجوری میں چھپا بیٹھا ہے