• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان نے رواں مالی سال کے ابتدائی حصے میں گزشتہ سال اسی عرصے کے دوران ہوئے2.4بلین ڈالر کے خسارے کے مقابلے میں جاری کھاتے میں250ملین ڈالر کا سرپلس/اضافہ ظاہر کیا ہے۔ بعض لوگ اس اضافے کو معیشت کے لئے معاشی دانشمندی کا صحت مند اشارہ قرار دے رہے ہیں۔ چونکہ انتخابات سر پر آن پہنچے ہیں لہٰذا حکومتی وزراء اور خاص طور پر سرکاری معاشی ٹیم کے اراکین اسے ایک اہم معاشی کامیابی ٹھہرا سکتے ہیں۔ اس کالم کا مقصد نہ صرف اس تاثر کو زائل کرنا ہے بلکہ مستقبل میں معیشت پر اس کے منفی اثرات کی وضاحت بھی ہے۔ ادائیگیوں کے توازن پر ایک سرسری نظر ڈالنے سے پتہ چلتا ہے کہ رواں مالی سال برآمدات اور درآمدات میں بالترتیب0.3/اور1.6فی صد منفی نمو ہوئی جو کہ سال گزشتہ اسی عرصے کے دوران بالترتیب 8.5/ اور 18.1 فیصد تھی۔ ان عوامل کے نتیجے میں تجارتی خسارے میں 7.614بلین ڈالر کا مارجنل ڈیکلائن سامنے آیا۔ درحقیقت جاری کھاتے میں اضافے کا سبب سروس کا توازن ہے جس میں اتحادی سپورٹ فنڈ میں دیئے گئے1.9بلین ڈالر کا بڑا کردار ہے۔ رواں مالی سال کے ابتدائی حصے میں امریکہ کی جانب سے اتحادی سپورٹ فنڈ میں دیئے گئے1.9ملین ڈالر واشنگٹن کی بڑی مہربانی تھی۔ اس فنڈ کی بروقت ادائیگی سے ایک طرف ادائیگیوں کے سنگین بحران کا خطرہ سر سے ٹلا تو دوسری طرف پاکستان کو عالمی مالیاتی ادارے سے نیا پیکج لینے کی ضرورت پیش نہیں آئی ورنہ دوسری صورت میں ایسی سخت ساختیاتی اصلاحات ناگزیر تھیں جن کی طویل عرصے سے شدید ضرورت ہے۔ مختصراً ایسا لگتا ہے کہ امریکہ نے حکومت کو اپنی باقی ماندہ مدت کے لئے بحران سے باہر نکال لیا ہے اور اسی وجہ سے حکومت نے شدت سے درکار معاشی اصلاحات کو موخر کر دیا ہے۔ کیا جاری کھاتے میں اضافہ معاشی دانشمندی کی علامت ہے؟ جاری کھاتے کا توازن بجٹ و سرمایہ کاری میں فرق سے قطعی مشابہ ہوتا ہے۔ کرنٹ اکاؤنٹ میں سرپلس کا مطلب یہ ہے کہ بچت سرمایہ کاری سے زیادہ ہو گئی ہے مگر سرپلس ہمیشہ معاشی استحکام کا اشارہ نہیں ہوتا۔ اس کا یہ مطلب بھی ہو سکتا ہے کہ ملک کے باشندے غیر ممالک میں سرمایہ لگانا زیادہ مفید باور کرتے ہیں۔ اگر ایسا ملک میں سرمایہ کاری کے موقعوں کی کمی کی وجہ سے ہو تو ممکن ہو سکتا ہے کہ اس ملک کی داخلی نمو شدید طور سے متاثر ہو رہی ہے۔ معیشت دانوں نے اس تصور کو فارمولے میں ڈھالنے کی کوشش کی ہے کہ ممالک مختلف وقتوں میں زیادہ تر نیٹ قرضہ لینے والے یا بچت کرنے والے ہوتے ہیں۔ ادائیگیوں کے توازن کے ایک نظریئے کے مطابق ترقی پذیر ممالک چونکہ بہت زیادہ انویسٹ کرتے ہیں اس لئے انہیں جاری کھاتے اور تجارتی خسارے دونوں کے ساتھ چلانا شروع کیا جاتا ہے۔ گزرتے وقت کے ساتھ سرمایہ کاری کے ذریعے پیدا کی گئیں برآمدات تجارتی سرپلس کو جنم دیتی ہیں مگر جاری کھاتا خسارے ہی میں رہتا ہے کیوں کہ اس دوران لئے گئے قرض پر چڑھنے والا سود بھی اکٹھا ہو چکا ہوتا ہے۔ تھوڑے عرصے بعد ملک اتنا قرض اتار دیتا ہے کہ وہ جاری کھاتے کے سرپلس سے سود مند ہو سکے اور اس طرح وقت کے ساتھ وہ باقی دنیا کو خالص قرض دینے والا بن جاتا ہے۔ اس طرح جاری کھاتے میں سرپلس کا حامل ملک ایسا ملک ہوتا ہے جو خالص سرمائے کو برآمد کرتا ہے۔ پاکستان کی موجودہ معاشی حالت کی روشنی میں کیا یہ کہنا مناسب ہو گا کہ پاکستان سرمائے کا خالص برآمد کنندہ بن چکا ہے؟ اس کا جواب واضح طور پر نفی میں ہے۔ وطن عزیز میں جاری کھاتے میں سرپلس کا مطلب یہ ہے کہ بچت سرمایہ کاری سے تجاوز کر چکی ہے۔ پاکستان میں بچت کی شرح پہلے ہی کم ہے جو 2011-12ء میں جی ڈی پی کا10.5فی صد تھی۔ گزشتہ پانچ دہائیوں میں سرمایہ کاری کی جی ڈی پی کی12.5فی صد کم ترین سطح کے ساتھ پاکستان نے گزشتہ سال جاری کھاتے میں2.0فی صد کا خسارہ ظاہر کیا۔ رواں مالی سال میں جاری کھاتے میں سرپلس کا مطلب یہ ہے کہ سرمایہ کاری میں مزید کمی آئی ہے جو حتیٰ کہ گزشتہ سال کی کم بچت کی شرح کے مقابلے میں بھی کہیں کم ہے۔ یہ ملکی نمو کی وسط مدتی توقعات کے لئے ایک خطرناک علامت ہے۔ رواں سال ملک میں سرمایہ کاری اپنی تاریخ کی کم ترین سطح تک گر سکتی ہے۔ کیا اس بات کی کوئی علامت موجود ہے کہ سال رواں ملک میں سرمایہ کاری اور کم ہو جائے گی؟ جی ہاں! اول یہ کہ اس ضمن میں نجی شعبے کے کریڈٹ لینے کی شرح مایوس کن حد تک کم ہے۔ یکم جولائی تا11جنوری2013ء کے دوران یہ کریڈٹ53بلین روپے مالیت تک جاتا ہے جب کہ گزشتہ سال اسی عرصے کے دوران اس کریڈٹ کی شرح191بلین روپے تھی۔ اس کا سادہ ترین الفاظ میں یہ مطلب ہوا کہ زبوں حال معاشی ماحول میں نجی شعبہ سرمایہ نہیں لگانا چاہتا اور اسی لئے اس نے کریڈٹ کی مانگ نہیں کی۔ دوم یہ ایک معروف حقیقت ہے کہ ترقی پذیر ممالک میں معیشت کا دارومدار بڑے پیمانے پر درآمد شدہ خام مال، کیپیٹل گڈز، مشینوں، ساز و سامان اور توانائی پر ہوتا ہے۔ پاکستان میں مالی سال کے ابتدائی نصف حصے میں درآمدات منفی رجحان کا شکار رہی ہیں۔ یہ بات واضح ہے کہ نجی شعبہ منافع کے حصول یا طویل مدتی سرمایہ کاری کے لئے قرض نہیں لے رہا اور یہ حقیقت اہم اشیاء کی درآمدات میں کمی سے ظاہر ہے بطور خاص مشینری، ساز و سامان اور پٹرولیم مصنوعات وغیرہ۔ یہ صورتحال رواں مالی سال اور وسط مدتی نمو کی توقعات کے لئے اچھی علامت نہیں۔ اسٹیٹ بنک آف پاکستان سرمایہ کاری میں اضافے کے لئے ایک ڈھیلی ڈھالی مالیاتی پالیسی پر عمل پیرا رہا ہے۔ اہل اقتدار اس حقیقت سے کم ہی واقف ہیں کہ ترقی پذیر ممالک میں سرمائے کی قیمت نہیں بلکہ بنک کریڈٹ کی دستیابی اہمیت رکھتی ہے۔ سرمایہ کاری ماحول پر منحصر ہوتی ہے۔ ایک طرف توانائی کی قلت تو دوسری طرف امن و امان کی مخدوش صورتحال کے تناظر میں اس بات کا تصور محال ہے کہ نجی شعبہ سامنے آ کر کم شرح سود سے فائدہ اٹھانا چاہے گا۔ اس ماحول سے اسٹاک مارکیٹ کو تقویت مل سکتی ہے مگر اس کا حقیقی معاشی صورتحال سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ یہ صورتحال سرمایہ کاروں کی اس ضمن میں حوصلہ افزائی کر سکتا ہے کہ وہ مال و اسباب کا ذخیرہ کر لیں اور رئیل اسٹیٹ کی دنیا میں قسمت آزمائیں۔ اس طرح یہ بات سامنے آتی ہے کہ جاری کھاتے میں اضافہ کوئی خوشی منانے کی چیز نہیں۔ جاری کھاتے میں اضافے کا مطلب یہ ہے کہ سرمایہ کاری بری طرح گھٹ چکی ہے جس کے ملک کی موجودہ اور آئندہ کی نمو کی توقعات پر سنگین اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ معاشی بد انتظامی کے پانچ سالوں نے نجی شعبے کے اعتماد کو چکنا چور کر دیا ہے اور بزنس مین اپنا کاروبار دوسرے ممالک میں منتقل کرنے پر مجبور ہوئے ہیں۔ اس طرح خیال رہے کہ سرمایہ کاری کی قیمت پر جاری کھاتے میں اضافہ بحران کا پروانہ ہے نہ کہ نوید استحکام…!
تازہ ترین