• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بالآخر پاکستان کرکٹ ٹیم نے ’’اگر مگر ‘‘ اور’’ دوسروں پر انحصار کرنے‘‘ کےعذاب سے چھٹکارا پالیا، بھارت اور نیوزی لینڈ نے انگلینڈ کیخلاف شکست کھا کر پاکستان کو دھوکا دیا اور اسے 2019ورلڈ کپ ٹائٹل کی دوڑ سے باہر کردیا، پاکستانی شاہین آخری چار میچز میں مسلسل فتوحات کے باوجود سیمی فائنل کا ٹکٹ نہ کٹا سکے۔

بقول ثاقب لکھنوی

                  باغباں نے آگ دی جب آشیانے کو مرے

                  جن پہ تکیہ تھا وہی پتے ہوا دینے لگے

شائقین نےقومی ٹیم کو میگا ایونٹ سے باہر کرنے کا ذمہ دار ان دونوں ہی بڑی ٹیموں کو ٹہرایا، پھر بھی ایک آس باقی تھی کہ بنگلہ دیش کیخلاف میچ جیت کر رن ریٹ بہتر کریں گے اور سیمی فائنل میں پہنچ جائیں گے لیکن ستم ظریفی یہ ہے کہ بنگال ٹائیگرز کیخلاف کامیابی کے بعد بھی گرین شرٹس کیلئے مشن ورلڈ کپ ’’مشن ایمپوسیبل‘‘ رہا۔

سوشل میڈیا میں قومی ٹیم کی حمایت میں پوسٹ شیئرکیے جارہے ہیں، قومی ٹیم کو نیوزی لینڈ سے بہتر قرار دیا جارہا ہے، میں نے اپنے آفس کے کچھ ساتھیوں کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ ’’ہمارے لیے بڑی خوشی کی بات ہے کہ ٹیم اتنی محنت کے بعد ورلڈکپ پوائنٹس ٹیبل پر پانچویں نمبر پر پہنچی اور ٹاپ فور کی دو ٹیموں کے خلاف بہترین پرفارمنس کا مظاہرہ کیا۔‘‘

اس میں کوئی شک نہیں کہ قومی ٹیم نے انگلینڈ، نیوزی لینڈ اور جنوبی افریقا کیخلاف شاندار پرفارمنس کا مظاہرہ کیا لیکن ٹیم کو ورلڈ کپ کے آغاز سے ہی اچھا پرفارم کرنا چاہیے تھا، ویسٹ انڈیز کیخلاف میچ ہی سے ٹیم کی خراب کارکردگی سامنے آگئی تھی اور جب گالیاں پڑیں تو انگلینڈ ، نیوزی لینڈ اورجنوبی افریقا کیخلاف میچز جیتنے میں کام ہوئے تاہم سیمی فائنل میں رسائی کیلئے دوسری ٹیموں کے رحموں کرم پر رہے۔

گرین شرٹس کی کارکردگی پر ایک نظر

ورلڈ کپ کےپہلے ہی میچ میں ویسٹ انڈیز کیخلاف 7وکٹوں سےعبرتناک شکست کھا گئی، قومی ٹیم نے 2019 ورلڈ کپ میں سب سے کم اسکور 105رنز بنانے کی تاریخ بھی رقم کی، کالی آندھی نےپاکستانی شاہینوں کے پرکاٹ دیئے اور انہیں ایسا جکڑا کہ پاکستانی پلیئرز کو 105رنز پر ڈھیر کردیا، ٹیم کی خراب پرفارمنس پرشائقین نے ٹیم کو آڑے ہاتھوں لیا،جس کےبعدٹیم خواب خرگوش سے جاگ گئی۔

دوسرا میچ میزبان انگلینڈ کے ساتھ ہوا جس میں ٹیم نے شاندار کم بیک کیا اور 14رنز سے کامیابی حاصل کرکے شائقین کرکٹ کا غصہ ٹھنڈا کیا، اس فتح کے بعد قومی ٹیم ’’چوڑی‘‘ ہوگئی، میچ میں غیر متوقع طور پر ٹاپ آرڈر، محمد حفیظ، بابر اعظم، سرفراز احمد نے اچھا پرفارم کیا۔

بدقسمتی سے سری لنکا کیخلاف تیسرا میچ بارش کی نذر ہوگیا، اس طرح دونوں ٹیموں کو ایک ایک پوائنٹ ملا اور قومی ٹیم اس وقت کے پوائنٹس ٹیبل پر ٹاپ فور پر پہنچی۔

دفاعی چیمپئن آسٹریلیا کیخلاف چوتھا میچ بھی بارش سے متاثر ہونے کا خطرہ تھا جس کےلیے پوری قوم رحمت باراں کے رکنے کی دعا کرنے لگی، بارش ہوجاتی تو ٹیم کا کچھ بھرم رہ جاتا۔ بولرز نے اپنا کام تو کیا لیکن پاکستانی بیٹسمینوں نے ہمیشہ کی طرح بولرز عامر، وہاب کی محنت پر پانی پھیر دیا۔

میچ میں آسٹریلوی اوپنر ڈیوڈ ورانر اور کپتان ایرون فنچ نے جس طرح بیٹنگ کی ایسا لگ رہا تھا کہ اسکور 350-380تک جائے گا لیکن پاکستان کو جیت کیلئے 308رنز کا ہدف ملا لیکن فخرزمان، شعیب ملک، محمد حفیظ، آصف علی کی جلد بازی لے ڈوبی، اس طرح ٹیم جیتا ہوا میچ ہار گئی لیکن ٹیل اینڈرز حسن علی اور وہاب ریاض نے آسٹریلیوی بولرز کے سامنے مزاحمت بھی کی لیکن وہ بھی ٹیم کو بیچ منجدھار میں چھوڑ کر چلے گئے۔

ہائی ولٹیج میچ ’’پاک بھارت ٹاکرا‘‘ جس کے لیے بھارت نے تو خوب تیاری کی لیکن ہمارے پلیئرز شاید اسی زعم میں مبتلا رہے کہ ہم نے بھارت کو چیمپئنز ٹرافی فائنل میں 180رنز سے زیر کیاتھا تو اس بار بھی معرکہ سر کرلیں گے (حالانکہ ایشیا کپ 2018میں بھارت کیخلاف دو میچز میں بری طرح ناکامی کا سامنا کرنا پڑا لیکن ہم نے اس سے بھی کوئی سبق نہیں سیکھا)۔

جب کپتان کی نیند پوری نہ ہو اور مانچسٹر کے میدان میں اہم میچ کے دوران کپتان جمائیاں لے رہا ہو، ٹاپ آڈرز کی باڈی لینگویج یہ بتار ہی ہو کہ انہیں اس میچ سے کوئی دلچسپی نہیں تو وہی ہوگا جو ہمیشہ سے ہوتا آیا ہے یعنی پاکستان کی عالمی کپ کی تاریخ میں بھارت کے ہاتھوں شکست کی روایت برقرار رہی۔

پےدر پے شکست کے بعد ایک نیا پنڈورا باکس کھل گیا، ٹیم میں گروہ بندی، بھارت کیخلاف میچ سے قبل کھلاڑیوں کی برطانیہ میں شیشہ پینے کی ویڈیو، پلیئرز اور کوچ مکی آرتھرسے اختلافات اور کپتان سرفراز کو تبدیل کرنے کی سرگوشیاں ہرجگہ سنائی دی۔

اس کے بعد ٹیم کو ورلڈ کپ ٹاپ فور میں جگہ بنانے کیلئے 4میچز جیتنے تھے، جنوبی افریقا کیخلاف میچ میں ’’بھارت کے داماد شعیب ملک ‘‘اورحسن علی کو بٹھایا تو حارث سہیل اور عماد وسیم کو ٹیم میں شامل کیا، دونوں ہی کھلاڑیوں نے اپنی سلیکشن درست ثابت بھی کیا اور ٹیم کو جنوبی افریقا کیخلاف اہم میچ میں49رنز سے کامیابی دلائی۔

پاکستان کا اگلہ مقابلہ ’’ناقابل شکست نیوزی لینڈ‘‘ کے ساتھ تھا، بابر اعظم نے ناقابل شکست سنچری داغی اور حارث سہیل نے اچھی اننگز کھیلی، ٹیم نے 6وکٹوں سےناقابل شکست نیوزی لینڈ کا شکار کیا اور پھر’’اگر مگر‘‘ کی کہانی شروع ہوگئی ۔ 1992ورلڈ کپ میں بھی ٹیم کی ایسی ہی کارکردگی تھی۔ ’’اگر مگر‘‘کی وجہ سے ٹیم سیمی فائنل میں پہنچی تھی۔

سیمی فائنل میں تیسری رکاوٹ افغانستان تھا، ٹیم کی ایسی کارکردگی دیکھ کر کئی شائقین مرتے مرتے بچے، پوری قوم ٹیم کی کامیابی کیلئےایسے دعاگو تھی کہ جیسے پاک۔ بھارت میچ ہو رہا ہو، ہمیشہ کی طرح بولرز شاہین شاہ آفریدی، وہاب ریاض ،شاداب خان اور عماد نے اپنا کام بہترین طریقے سے انجام دیا اور افغانستان کو 227رنز تک محدود تک کیا، لیکن اس وقت ایسا لگ رہا تھا کہ قومی ٹیم کو 228رنز نہیں بلکہ 328رنز کا ہدف ملا ہے۔

156 رنز کے مجموعی اسکور پر کپتان سرفراز سمیت 6کھلاڑی پویلین لوٹ چکے تھے ، پاکستان ٹیم کو جیت کیلئے66گیندوں پر72رنز درکار تھے، وہ تو بھلا ہو عماد وسیم اور وہاب ریاض نے ایک بار پھر ٹیم کی لاج رکھ لی اور پاکستان کو ایک اور ذلت آمیز شکست سے بچالیا، افغانستان کیخلاف ٹیم کی ایسی کارکردگی نے 1999ورلڈ کپ میں اس وقت کی’’ بے بی ٹیم بنگلہ دیش‘‘ کے ہاتھوں شکست کی یاد دلادی تھی، اگرچے پاکستان نے افغانستان کیخلاف 3وکٹوں سے فتح حاصل کی لیکن افغان جنگجو نے آخر دم تک میچ جیتنے کی کوشش کی۔

اس طرح پاکستانی ٹیم قوم کی دعاؤں سے گرتے پڑتے ٹاپ فور میں پہنچ گئی لیکن ’’اگر مگر‘‘ کی کہانی جاری رہی، اگر بھارت، انگلینڈ کو ہرا دے تو پاکستان سیمی فائنل میں پہنچ سکتا ہے، لیکن یہ کیا ہوا! بھارت تو ہے ہی ہمارا ازلی دشمن! اس نے وہی کیا جو وہ ہمیشہ سے کرتا ہوا آیا ہے لیکن اس خوش فہم شائقین کا کیا جائے جو انگلینڈ کیخلاف میچ میں بھارت کو بھرپور سپورٹ کر رہے تھے۔

ویرات کوہلی کی پلاننگ کام کرگئی اور بھارت، انگلینڈ کے ہاتھوں شکست کھا کر گرین شرٹس کیلئے مشکلات کھڑی کردی، خیال رہے کہ پاکستان نے رواں سال فروری میں پلوامہ حملے کا ذمہ دار پاکستان کو ٹہراتے ہوئے آئی سی سی 2019 ورلڈ کپ سے باہر کرنے کی کوشش بھی تھی تاہم انٹرنیشنل کرکٹ بورڈ نے بھارتی کرکٹ بورڈ کی درخواست مسترد کر دی تھی۔

سونے پر سہاگہ نیوزی لینڈ بھی انگلینڈ سے ہار گیا اورامید کی آخری کرن بھی ختم ہوگئی، ’’1992ورلڈ کپ میں یہی ہوا تھا‘‘ پاکستان ٹیم کب تک دوسروں پر’’تکیہ کرے گی؟ ‘‘ ٹیم خود تسلسل کے ساتھ اچھا کیوں نہیں کھیلتی ؟‘‘

بنگلہ دیش کیخلاف میچ میں کوئی معجزہ ہوجاتا تو ٹیم 500رنز بناکر بنگال ٹائیگرز سے 315رنز سے جیتتی لیکن پاکستان نے اتنے ہی رنز کا ٹارگٹ بنگالیوں کو جیت کیلئے دیا یعنی ’’دل کے ارماں آنسو پر بہہ گئے، ہم بنگلہ دیش کیخلاف میچ جیت کر بھی ٹورنامنٹ سے باہر ہوگئے۔‘‘

2019ورلڈ کپ میں پاکستانی بولرز اور ٹیل اینڈرز ٹیم کو کامیابی سے ہمکنار کرنے میں کوشاں نظر آئے، محمد عامر، وہاب ریاض، شاہین شاہ آفریدی، حارث سہیل اور عماد وسیم نے ٹیم کو کئی فتوحات سے ہمکنار کیا، آخری کے 4 میچز میں حارث سہیل، بابر اعظم اور عماد وسیم کی بیٹنگ زبردست رہی۔

اگر 2015ورلڈ کپ میں ٹیم کی کارکردگی کا جائزہ لیں تو گزشتہ میگا ایونٹ میں بھی ٹیم کا یہی حال تھا، لیکن موجودہ ٹیم کے مقابلے میں 2015ورلڈ کپ کی ٹیم بہتر تھی جس کی وجہ سے پاکستان کوارٹر فائنل میں پہنچا لیکن اس وقت بھی ٹیم کی ساتھ وہی مسائل(بیٹسمینوں کی غیر مستقل مزاجی ،مس فیلڈنگ ،خراب بیٹنگ اور بولنگ) تھے۔

بقول قابل اجمیریؔ

                                 وقت کرتا ہے پرورش برسوں

                                    حادثہ ایک دم نہیں ہوتا  

ٹیم نے 2015ورلڈ کپ میں خراب پرفارمنس کے بعد کیا سیکھا اور2019 ورلڈکپ میں دنیا کی بہترین ٹیموں سے ٹکرانے کیلئے کتنی تیار ی کی وہ تو آج سب کے سامنے ہے۔ گرین شرٹس نے 2015-2019 تک 18ون ڈے سیریز کھیلیں جس میں پاکستان کو 8میں کامیابی اور9میں ناکامی اور ایک سیریز بے نتیجہ رہی۔

پاکستان ٹیم نے ان برسوں میں صرف زمبابوے، سری لنکا، آئرلینڈ اور ویسٹ انڈیز کیخلاف فتوحات حاصل کیں لیکن آسٹریلیا ، نیوزی لینڈ ، انگلینڈ،جنوبی افریقا اور بنگلہ دیش کے ہاتھوں وائٹ واش ہونے کے بعد بھی کوچ اور سلیکٹرز نے ہوش کے ناخن نہیں لئے اور عالمی کپ کیلئے ’’بہترین ٹیم‘‘تیار کرنے میں ناکام رہے، سلیکٹرز اپنی مہارت کو بروئے کارنہ لاسکے ، میرٹ کے نام پر کھلاڑیوں کے ساتھ مذاق کیا گیا اور من پسند کھلاڑیوں کو منتخب کرکے بھیج دیا گیا۔

اگر کوچ، سلیکٹرز اور کپتان ایک پیج پر ہوتے، ٹیم اور کپتان کا چناؤ میرٹ پر ہوتا، جب پلیئرز اپنے لئے نہیں ملک کیلئے کھیلتے، جب کرکٹ بورڈ ٹیم میں گروپ بندی کے معاملے کو دبانے کے بجائے اس کی تحقیقات کرتا اور ذمہ دار پلیئرز کو ٹیم سے باہر کرتا تو ٹیم میں گروپ بندی، کھلاڑیوں کی شیشہ پینے کی ویڈیو، پلیئرز اور کوچ مکی آرتھر کے درمیان اختلافات اور کپتان سرفراز کو تبدیل کرنے کی خبریں منظر عام پر نہیں آتیں، پاکستان ٹیم ویسٹ انڈیز کیخلاف ذلت آمیز شکست سے بچ جاتی ، آسٹریلیا کیخلاف جیتا ہوا میچ نہ ہارتی تو پاکستان کا مشن ورلڈکپ ’’مشن ایمپوسیبل‘‘ نہ ہوتا۔

اس وقت ٹیم کو مربوط اور منظم کرنے کی ضرورت ہے جس کے لئے بہرحال سخت اور ناپسندیدہ فیصلے کرنے پڑیں گے۔

پاکستان کا اگلا مشن ’’2020ٹی ٹونٹی ورلڈکپ ‘‘ہے اور پہلا ہی میچ میزبان آسٹریلیا سے ہے، اس وقت پاکستان ٹی ٹونٹی کرکٹ میں دنیا کی نمبرو ن ٹیم ہے، توقع ہے کہ سلیکٹرز ایک مضبوط ٹیم تشکیل دیں گے اور ٹیم آئی سی سی ورلڈ کپ میں ہونے والی غلطیوں سے سبق ضرور سیکھے گی۔

تازہ ترین